صحيح مسلم
كِتَاب الْأَلْفَاظِ مِنْ الْأَدَبِ وَغَيْرِهَا
ادب اور دوسری باتوں (عقیدے اور انسانی رویوں) سے متعلق الفاظ
3. باب حُكْمِ إِطْلاَقِ لَفْظَةِ الْعَبْدِ وَالأَمَةِ وَالْمَوْلَى وَالسَّيِّدِ:
باب: عبد یا امة یا مولیٰ یا سید، ان لفظوں کے بولنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5876
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ كِلَاهُمَا، عَنْ الْأَعْمَشِ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَفِي حَدِيثِهِمَا: وَلَا يَقُلِ الْعَبْدُ لِسَيِّدِهِ: مَوْلَايَ، وَزَادَ فِي حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ: فَإِنَّ مَوْلَاكُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ.
ابو معاویہ اور وکیع دونوں نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ روایت کی ان دونوں کی حدیث میں ہے۔ "غلا م اپنے آقا کو میرا مو لا نہ کہے۔"ابومعاویہ کی حدیث میں مزید یہ الفا ظ ہیں۔""کیونکہ تمھا را مولیٰ اللہ عزوجل ہے۔
یہی حدیث امام صاحب اپنے تین اساتذہ کی دو سندوں سے بیان کرتے ہیں اور اس میں یہ اضافہ ہے ”غلام اپنے سید کو مولاى
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 5876 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5876
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
رب کا معنی پروردگار ہے یا مدبر و منتظم ہے،
جو حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ کی صفت ہے،
اس لیے اس کا بلا اضافت استعمال اللہ کے لیے مخصوص ہے،
لیکن اضافت کے ساتھ استعمال دوسروں کے لیے بھی جائز ہے،
جیسے رب الدار،
گھر کا مالک،
رب المال،
مال کا مالک،
رب الثوب،
کپڑے کا مالک،
ربك،
تیرا مالک،
ربه،
اس کا مالک،
اس لیے غلام کو اپنے آقا اور مالک کو جو ربی کہنے سے منع کیا گیا ہے تو اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ آقا کے اندر احساس برتری پیدا نہ ہو اور غلام کے اندر احساس کمتری پیدا نہ ہو،
اس لیے دوسرے یہ لفظ استعمال کر لیں تو کوئی حرج نہیں ہے،
مثلا هو ربك،
وہ تیرا آقا یا مالک ہے،
هو ربه،
وہ اس کا آقا یا مالک ہے،
اسی طرح مولیٰ کے بہت سارے معانی ہیں،
ان میں سے ایک کارساز بھی ہے،
اس کا شائبہ پیدا ہوتا ہے،
پھر اس کا استعمال درست نہیں ہے،
لیکن رفیق،
ہمدرد،
معاون،
مددگار وغیرہ کے مفہوم کے اعتبار سے یہ جائز ہے،
اس لیے دوسری حدیث جو آگے آ رہی ہے،
اس میں ہے،
انسان خود نہ کہے،
اپنے رب کو پانی پلایا کھانا کھلاؤ یا میرا رب،
لیکن یوں کہے،
سیدی،
مولای تو یہاں مولیٰ کہنے کی اجازت دی ہے اور قرآن مجید میں ہے،
﴿هُوَ كَلٌّ عَلیٰ مَوْلَاهُ " وہ اپنے مولیٰ (مالک)
پر بوجھ ہے۔
اور فرمایا،
”بلاشبہ ان الله هو اس کا کارساز اللہ ہے،
جبریل اور نیک مومن اس کے مولی مددگار اور معاون و ہمدم ہیں“،
یہی حال سید کے لفظ کا ہے،
عام روایات میں اس کے استعمال کو صحیح اور درست قرار دیا گیا ہے،
لیکن جہاں خود پسندی کا باعث بنتا ہو،
وہاں روکا ہے،
جیسا کہ الادب المفرد اور سنن ابی داؤد میں ایک روایت ہے کہ بنو عامر کے ایک وفد نے آپ کو کہا،
أنت سيدنا تو آپ نے فرمایا،
لسيد اللہ تبارک و تعالیٰ،
سیادت کا اصل مالک تو اللہ ہی ہے،
حالانکہ آپ نے خود کئی صحابہ کو سيد فرمایا،
قوموا الی سيدكم،
اپنے سید کا استقبال کرو،
إسمعوا ما يقول سيدكم،
اپنے سید (سعد بن عبادہ)
کی بات سنو،
ابنی هذا السيد،
میرا یہ بیٹا سید،
انا سيد ولد آدم،
میں اولاد آدم کا سردار ہوں،
ولا فخر،
میں گھمنڈ کے لیے نہیں کہہ رہا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5876