صحيح مسلم
كِتَاب السَّلَامِ
سلامتی اور صحت کا بیان
35. باب تَحْرِيمِ الْكِهَانَةِ وَإِتْيَانِ الْكُهَّانِ:
باب: کہانت کی حرمت اور کاہنوں کے پاس جانے کا حرمت۔
حدیث نمبر: 5819
حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْد ، قَالَ حَسَنٌ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، وَقَالَ عَبد: حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حدثنا أبى عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ ، قال: أَخْبَرَنِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْأَنْصَارِ، أَنَّهُمْ بَيْنَمَا هُمْ جُلُوسٌ لَيْلَةً مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رُمِيَ بِنَجْمٍ فَاسْتَنَارَ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَاذَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا رُمِيَ بِمِثْلِ هَذَا؟ "، قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، كُنَّا نَقُولُ وُلِدَ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ عَظِيمٌ وَمَاتَ رَجُلٌ عَظِيمٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِنَّهَا لَا يُرْمَى بِهَا لِمَوْتِ أَحَدٍ، وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنْ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى اسْمُهُ، إِذَا قَضَى أَمْرًا سَبَّحَ حَمَلَةُ الْعَرْشِ، ثُمَّ سَبَّحَ أَهْلُ السَّمَاءِ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ حَتَّى يَبْلُغَ التَّسْبِيحُ أَهْلَ هَذِهِ السَّمَاءِ الدُّنْيَا، ثُمَّ قَالَ الَّذِينَ يَلُونَ حَمَلَةَ الْعَرْشِ لِحَمَلَةِ الْعَرْشِ: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟، فَيُخْبِرُونَهُمْ مَاذَا قَالَ، قَالَ: فَيَسْتَخْبِرُ بَعْضُ أَهْلِ السَّمَاوَاتِ بَعْضًا حَتَّى يَبْلُغَ الْخَبَرُ هَذِهِ السَّمَاءَ الدُّنْيَا، فَتَخْطَفُ الْجِنُّ السَّمْعَ فَيَقْذِفُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ وَيُرْمَوْنَ بِهِ، فَمَا جَاءُوا بِهِ عَلَى وَجْهِهِ فَهُوَ حَقٌّ، وَلَكِنَّهُمْ يَقْرِفُونَ فِيهِ، وَيَزِيدُونَ ".
صالح نے ابن شہا ب سے، روایت کی: کہا مجھے علی بن حسین (زین العابدین) نے حدیث سنا ئی کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے ایک انصاری نے مجھے بتا یا کہ ایک بار وہ لو گ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہو ئے تھے۔کہ ایک ستا رے سے کسی چیز کو نشانہ بنایا گیا اور وہ روشن ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: " جب جاہلیت میں اس طرح ستارے سے نشانہ لگا یا جا تا تھا۔تو تم لوگ کیا کہا کرتے تھے؟لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جا ننے والے ہیں ہم یہی کہا: کرتے تھے۔کہ آج رات کسی عظیم انسان کی ولادت ہو ئی ہے اور کوئی عظیم انسان فوت ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے کسی کی زندگی یا موت کی بنا پر نشانے کی طرف نہیں چھوڑا جا تا، بلکہ ہمارا رب، اس کا نام برکت والا اور اونچا ہے، جب کسی کام کا فیصلہ فر ما تا ہے تو حاملین عرش (زورسے) تسبیح کرتے ہیں، پھر ان سے نیچے والے آسمان کے فرشتے تسبیح کا ورد کرتے ہیں۔یہاں تک کہ تسبیح کا ورد (دنیا کے) اس آسمان تک پہنچ جا تا ہے، پھر حاملین عرش کے قریب کے فرشتے حاملین عرش سے پو چھتے ہیں تمھا رے پروردیگا ر نے کیا فرمایا؟وہ انھیں بتا تے ہیں کہ اس نے کیا فرمایا پھر (مختلف) آسمانوں والے ایک دوسرے سے پو چھتے ہیں، یہاں تک کہ وہ خبر دنیا کے اس آسمان تک پہنچ جا تی ہے تو جن بھی جلدی سے اس کی کچھ سماعت اچکتے ہیں اور اپنے دوستوں (کا ہنوں) تک دے چھینکتے ہیں (اس خبر کو پہنچادیتے ہیں) خبروہ صحیح طور پر لا تے ہیں وہ سچ تو ہو تی ہے لیکن وہ اس میں جھوٹ ملا تے اور اضافہ کردیتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک انصاری صحابی نے بتلایا، اس اثناء میں کہ وہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، ایک ستارہ پھینکا گیا اور اس کی روشنی پھیل گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”جاہلیت کے دور میں اس طرح تارہ ٹوٹتا تو تم کیا کہتے تھے؟“ انہوں نے جواب دیا، اصل حقیقت اللہ اور اس کے رسول کو خوب معلوم ہے، ہم کہتے تھے، آج رات کوئی عظیم آدمی پیدا ہوا ہے اور ایک عظیم آدمی فوت ہوا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واقعہ یہ ہے، اسے کسی کی موت یا کسی کی زندگی کے لیے نہیں پھینکا جاتا، یعنی کسی کی موت و حیات پر ستارہ نہیں ٹوٹتا، لیکن ہمارا برکت والا رب، جس کا نام بلند و بالا ہے، جب کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو عرش کے اٹھانے والے فرشتے سبحان اللہ کہتے ہیں، پھر ان کے قریشی آسمان والے تسبیح پڑھتے ہیں، حتیٰ کہ یہ تسبیح اس قریبی آسمان والوں تک پہنچ جاتی ہے، پھر حاملین عرش سے قریب والے فرشتے ان حاملین عرش سے دریافت کرتے ہیں، تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ تو وہ انہیں جو اس نے فرمایا ہوتا ہے، اس سے آگاہ کرتے ہیں۔ تو آسمانوں والے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، حتیٰ کہ خبر اس قریبی آسمان تک پہنچ جاتی ہے تو جن چوری چھپے بات اچکتے ہیں اور اسے اپنے دوستوں کی طرف پھینکتے ہیں اور انہیں ستارے پڑتے ہیں تو جو وہ صحیح صورت میں بتاتے ہیں، وہ حق ہوتی ہے، لیکن وہ اس میں ملاوٹ کرتے ہیں اور اضافہ کرتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 5819 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5819
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
رُمِيَ بِنَجْمٍ:
ستارہ ٹوٹتا محسوس ہوا ہے،
گویا ستارہ مارا گیا ہے۔
(2)
سَبَّحَ حَمَلَةُ الْعَرْشِ:
حاملین عرش سر تسلیم خم کرتے ہوئے اور اللہ کے حکم وفیصلے کو عیب ونقص سے مبرا مانتے ہوئے تسبیح کہتے ہیں۔
(3)
يُرْمَوْنَ بِهِ:
اجرام فلکیہ یا آسمانی کواکب کے چھوٹے چھوٹے اجزاء شہاب ثاقب ہیں اور ان سے پھوٹنے والی روشنی،
جو ان کی تیز رفتاری اور فضائی مادہ کے ٹکراؤ سے پیدا ہوتی ہے۔
اس سے شیطانوں کو مارا جاتا ہے۔
(4)
يَقْرِفُونَ:
وہ ملاوٹ یا آمیزش کرتے ہیں اور اگر یرقون ہوتو معنی ہوگا بڑھا چڑھا کے پیش کرتے ہیں،
اس طرح اس میں اپنی طرف سے اضافہ کرتے ہیں،
گویا يزيدون اس کی تفسیر ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5819
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3224
´سورۃ سبا سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کی ایک جماعت میں تشریف فرما تھے کہ یکایک ایک تارہ ٹوٹا جس سے روشنی پھیل گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا: ”زمانہ جاہلیت میں جب تم لوگ ایسی کوئی چیز دیکھتے تو کیا کہتے تھے؟“ انہوں نے کہا: ہم کہتے تھے کوئی بڑا آدمی مرے گا یا کوئی بڑی شخصیت جنم لے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کسی کے مرنے کی وجہ سے نہیں ٹوٹتا، بلکہ اللہ بزرگ و برتر جب کسی امر کا فیصلہ کرتا ہے تو عرش کو اٹھانے والے فرشتے تسبیح و تہلیل کرتے ہیں، پھر ان سے قریبی آسم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3224]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مؤلف نے یہ حدیث سابقہ آیت ہی کی تفسیرمیں ذکر کی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3224