Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب السَّلَامِ
سلامتی اور صحت کا بیان
33. باب لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ وَلاَ نَوْءَ وَلاَ غُولَ وَلاَ يُورِدُ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ:
باب: بیماری لگ جانا اور بدشگونی، ہامہ، صفر، اور نوء غول یہ سب لغو ہیں، اور بیمار کو تندرست کے پاس نہ رکھیں۔
حدیث نمبر: 5788
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي الطَّاهِرِ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : فَحَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، حِينَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا عَدْوَى وَلَا صَفَرَ وَلَا هَامَةَ "، فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا بَالُ الْإِبِلِ تَكُونُ فِي الرَّمْلِ كَأَنَّهَا الظِّبَاءُ، فَيَجِيءُ الْبَعِيرُ الْأَجْرَبُ فَيَدْخُلُ فِيهَا فَيُجْرِبُهَا كُلَّهَا، قَال: " فَمَنْ أَعْدَى الْأَوَّلَ؟ ".
یونس نے کہا: ابن شہاب نے کہا: مجھے ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " مرض کا کسی دوسرے کو چمٹنا ماہ صفر کی نحوست اور مقتول کی کھوپڑی سے الوکا نکلنا سب بے اصل ہیں تو ایک اعرا بی (بدو) نے کہا: تو پھر اونٹوں کا یہ حال کیوں ہو تا ہے کہ وہ صحرامیں ایسے پھر رہے ہوتے ہیں جیسے ہرن (صحت مند چاق چوبند)، پھر ایک خارش زدہ اونٹ آتا ہے، ان میں شامل ہو تا ہے، اور ان سب کو خارش لگا دیتا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "پہلے اونٹ کو کس نے بیماری لگا ئی تھی۔؟
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عدویٰ، صفر اور ہامہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ تو ایک اعرابی نے کہا، اے اللہ کے رسول! تو کیا وجہ ہے، اونٹ، ریگستان میں، ہرن کی طرح چاق و چوبند ہوتے ہیں تو ایک خارشی اونٹ آ کر تمام کو خارشی کر دیتا ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پہلے کو کس نے بیماری لگائی؟

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 5788 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5788  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
لا عدویٰ:
کوئی بیماری ایک مریض سے دوسرے کی طرف منتقل نہیں ہوتی،
یہاں قابل غور بات اسباب ظاہرہ کی تاثیر یا اشیاء کے خواص اور تاثیرات ہیں کہ کیا وہ علت نامہ ہیں،
جن کے پائے جانے سے معلول کا پایا جانا یا نتائج و اثرات کا ظہور یقینی و قطعی ہے اور ان نتائج و اثرات کا اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے سے کوئی تعلق نہیں ہے،
یا اسباب ظاہرہ،
علت تامہ نہیں ہیں اور اشیاء کے خواص و تاثیرات کے نتائج و اثرات یقینی اور قطعی نہیں ہیں،
اصل علت العلل اللہ کی منشا اور ارادہ ہے،
وہ چاہے تو معلول ظاہر ہوتا ہے اور اسباب ظاہرہ مؤثر بنتے ہیں،
اشیاء کے خواص اور اثرات ظہور پذیر ہوتے ہیں اور یہ محض علامات اور امارات ہیں،
اس کی مشیت اور ارادہ کے بغیر کچھ نہیں ہوتا،
اہل جاہلیت کا عقیدہ یہ تھا کہ اسباب ظاہرہ علت تامہ ہے اور علت اور معلول ایک دوسرے کے لیے لازم ہیں،
اللہ کے ارادہ اور مشیت کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے،
اس طرح اشیاء کے خواص و تاثیرات کے نتائج اور اثرات یقینی ہیں،
وہ محض علامت یا نشانی نہیں ہیں،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عقیدہ کی بیخ کنی کی ہے کہ اصل مؤثر اور علت العلل اللہ کی مشیت اور ارادہ ہے،
اس کو معلل یا غیر مؤثر قرار دینا شرک اور کفر ہے،
اس لیے بیمار کا تندرست کے ساتھ اختلاط و امتزاج،
بیماری کے جراثیم یا وائرس کے منتقل ہونے کا ایک ظاہری سبب ہے،
جس کا اثر اللہ کی مشیت اور ارادہ پر موقوف ہے،
اس کے ارادہ کے بغیر کوئی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی،
اس لیے آپ نے یہ حکم دیا کہ طاعون زدہ علاقہ میں نہ جاؤ،
بیمار کو تندرست کے پاس نہ لے جاؤ،
کوڑھی سے بھاگو،
تاکہ اسباب ظاہرہ کو بالکلیہ نظرانداز نہ کر دیا جائے،
اور خود آپ نے کوڑھی کے ساتھ کھایا بھی ہے،
تاکہ یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ اسباب کی تاثیر قطعی ہے،
اللہ کی مشیت اور ارادہ پر موقوف نہیں ہے اور بقول بعض،
جراثیم اور وائرس کے انتقال کی کوئی حیثیت یا حقیقت نہیں ہے،
جس طرح پہلے تندرست کو بیماری لگی ہے،
دوسرے کو بھی اللہ کی مشیت اور ارادہ سے لگی ہے،
اس لیے آپ نے اعرابی کے جواب میں فرمایا،
پہلے اونٹ کو بیماری کس نے لگائی اور آپ نے طاعون زدہ علاقہ میں جانے،
بیمار کو تندرست کے پاس نہ لے جانے اور کوڑھی سے بھاگنے کا حکم اس لیے دیا کہ اگر ان کو اللہ کے ارادہ اور مشیت سے بیماری لگ گئی تو وہ بیماری کے متعدی ہونے کے شرکیہ عقیدہ میں مبتلا ہو جائیں گے اور اس سے باہمی نفرتوں اور کدورتوں میں اضافہ ہو گا،
اس غلط عقیدہ سے بچانے کے لیے آپﷺ نے حفاظتی تدابیر یا پرہیز و اجتناب برتنے کا حکم دیا،
خلاصہ کلام یہی ہے کہ اصل مؤثر اور علت العلل اللہ تعالیٰ ہے،
کسی چیز کا اثر یا خاصہ ذاتی نہیں ہے،
اللہ کا پیدا کردہ ہے،
اس کے ارادہ اور مشیت کے بغیر کوئی اثر،
نتیجہ،
یا خاصہ ظاہر نہیں ہو سکتا،
کوئی علت اپنا معلول پیدا نہیں کر سکتی۔
عدوی:
بیماری کے متعدی ہونے کی کوئی حقیقت نہیں تفصیل کے لیے دیکھیے۔
(منة المنعم ج 3 ص 467)
لا صفر:
صفر کی کوئی حقیقت نہیں،
یعنی (ا)
محرم کو صفر بنانا درست نہیں۔
یا (ب)
اہل جاہلیت کی یہ بات درست نہیں ہے کہ صفر ایسے کسی جاندار یا کیڑوں کا نام ہے،
جو پیٹ میں ہوتے ہیں،
ان کی وجہ سے بھوک لگتی ہے اور بعض دفعہ انسانوں کے قتل کا باعث بن جاتے ہیں۔
یا (ج)
پیٹ کی کوئی بیماری ایسی نہیں جو دوسرے کی طرف منتقل ہو سکے اور اس کو صفر کا نام دیا جا سکے۔
یا (د)
صفر کو منحوس خیال کرنا درست نہیں ہے۔
لا هامة:
هامه کی کوئی حقیقت نہیں ہے،
یعنی (1)
مقتول کا اگر انتقام اور بدلہ نہ لیا جائے تو اس کی کھوپڑی قبر کے گرد چکر لگا کر یہ نہیں کہتی،
مجھے پلاؤ،
مجھے پلاؤ،
یعنی میرا انتقام اور بدلہ لو۔
(2)
کسی گھر میں الو کا آ بیٹھنا،
گھر کے مالک یا کسی عزیز کی موت کی خبر دینا نہیں ہے،
(3)
مردہ کی ہڈیاں،
الو بن کر پرواز نہیں کرتیں اور عدوی نامی جانور کی کوئی حقیقت نہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5788