Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب السَّلَامِ
سلامتی اور صحت کا بیان
27. باب كَرَاهَةِ التَّدَاوِي بِاللَّدُودِ:
باب: منہ میں دوا ڈالنے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 5761
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قالت: لَدَدْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ، فَأَشَارَ أَنْ لَا تَلُدُّونِي، فَقُلْنَا: كَرَاهِيَةَ الْمَرِيضِ لِلدَّوَاءِ، فَلَمَّا أَفَاقَ، قَالَ: " لَا يَبْقَى أَحَدٌ مِنْكُمْ إِلَّا لُدَّ غَيْرُ الْعَبَّاسِ فَإِنَّهُ لَمْ يَشْهَدْكُمْ ".
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےمرض میں ہم نے آپ کی مرضی کے بغیر منہ کے کونے سے آپ کے دہن مبارک میں دوائی ڈالی، آپ نے اشارے سے روکا بھی کہ مجھے زبردستی دوائی نہ پلاؤ، ہم نے (آپس میں) کہا: یہ مریض کی طبعی طور پر دوائی کی ناپسندیدگی (کی وجہ سے) ہے۔جب آپ کو افاقہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی نہ بچے، سب کو زبردستی (ہی) دوائی پلائی جائے، سوائے عباس رضی اللہ عنہ کے کیونکہ وہ تمھارے ساتھ موجود نہیں تھے۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیماری میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کو منہ کے ایک طرف سے دوائی پلانی چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے فرمایا: مجھے منہ کے ایک طرف سے دوائی نہ پلاؤ تو ہم نے کہا بیمار دوا لینا پسند نہیں کرتاہے تو جب آپصلی اللہ علیہ وسلم کو افاقہ ہوا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر فرد کو سوائے عباس کے لدود کیا جائے کیونکہ وہ تمھارے ساتھ موجود نہیں تھے۔
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 5761 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5761  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
لددنا:
ہم نے(آپ کی مرضی کےخلاف)
آپ کے منہ ایک طرف سے دوائی پلائی،
کیونکہ لدود،
اس دوا کو کہتے ہیں،
جو منہ کے ایک جانب سے دی جائے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
سمجھ میں آنے والا،
اشارہ تصریح کے قائم مقام ہے،
چونکہ لُدُود،
آپ کی بیماری کے مناسب نہ تھا،
اس لیے آپ نے اس سے منع فرمایا،
لیکن ازواج مطہرات نے خیال کیا،
آپﷺ بیمار ہونے کے باعث دوا لینا پسند نہیں کر رہے،
اس لیے انہوں نے آپ کے حکم پر عمل نہ کیا تو آپ نے آئندہ حرکت سے باز رہنے کے لیے تادب و سرزنش کے طور پر سب حاضرین کو لدود کروایا،
یہ قصاص یا انتقام کے جذبہ کے تحت نہ تھا،
کیونکہ آپ کا معمول تو عفو و درگزر تھا،
انتقام لینا نہ تھا،
اس سے معلوم ہوتا ہے،
لدود کو ناپسند کرنا مخصوص حالات و ظروف کی بنا پر تھا،
اس لیے اس سے لدود کی ناپسندیدگی پر استدلال زیادہ وزنی نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5761   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4458  
4458. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم نے آپ ﷺ کو بصورت لدود دوا پلانا چاہی تو آپ نے منع فرمایا۔ ہم سمجھے کہ آپ کا منع کرنا ایسا ہے جیسے ہر مریض دوا سے کراہت کرتا ہے۔ پھر آپ کو افاقہ ہوا تو آپ نے فرمایا: کیا میں تمہیں منع نہیں کرتا رہا کہ مجھے لدود کی صورت میں دوا مت پلاؤ؟ ہم نے عرض کی: مریض تو منع کیا ہی کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا: گھر میں کوئی آدمی باقی نہ رہے، سب کے منہ میں دوا ڈالی جائے، صرف حضرت عباس کو چھوڑ دو کیونکہ وہ اس وقت تمہارے ساتھ موجود نہیں تھے۔ یہ روایت ابو الزناد نے بھی بیان کی ہے ہشام سے، انہوں نے اپنے والد (عروہ) سے، انہوں نے حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے اور انہوں نے نبی ﷺ سے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4458]
حدیث حاشیہ:

منہ کے ایک کنارے سے دوائی ڈالنے کو لدود، جو دوائی حلق میں ڈالی جائے اسے وجور اور جو ناک میں ڈالی جائے اسے سعوط کہا جاتا ہے۔
آپ کو نمونیا کی شکایت تھی۔
حضرت اُم سلمہ ؓ اور حضرت اسماء بنت عمیس ؓ نے کہا کہ قسط ہندی کو تیل میں ملا کر لدود کیا جائے۔
چنانچہ بصورت لدود آپ کو دوادی گئی تو آپ نے فرمایا۔
یہ عورتوں کا ٹوٹکا ہے۔
میرے روکنے کے باوجود تم نے ایسا کیا ہے اب تمھارے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے گا حتی کہ اُم المومنین حضرت میمونہ ؓ روزے کی حالت میں تھیں ان کے ساتھ بھی یہ برتاؤ کیا گیا۔

واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تمام اہل خانہ کو ادب سکھانے کے لیے بصورت لدود ان کے منہ میں دوا ڈالنے کا حکم دیا، تاکہ آئندہ ایسی حرکت نہ کریں۔
یہ اقدام قصاص یا انتقام کی وجہ سے نہ تھا۔
(فتح الباري: 185/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4458   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6886  
6886. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم نے نبی ﷺ کی بیماری میں آپ کے منہ میں آپ کی مرضی کے خلاف دوائی ڈالی تو آپ ﷺ نے فرمایا: میرے حلق میں دوائی نہ ڈالو لیکن ہم نے خیال کیا کہ آپ بیمار ہونے کی وجہ سے دوائی کو پسند نہیں کر رہے۔ جب آپ کو افاقہ ہوا تو آپ نے فرمایا: تم جتنے لوگ گھر میں موجود ہو سب کے حلق میں ذبردستی دوا ڈالی جائے، سوائے عباس کے کیونکہ وہ اس وقت تمہارے ساتھ شامل نہیں تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6886]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ مرض وفات کا واقعہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روکنے کے باوجود تمام اہل خانہ نے آپ کے منہ میں زبردستی دوا ڈال دی تو آپ نے بدلے کے طور پر تمام اہل مجلس کے منہ میں دوائی ڈالنے کا حکم دیا۔
چونکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہما اس وقت وہاں موجود نہ تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اس سزا سے الگ رکھا۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اس حدیث میں اشارہ ہے کہ اگر عورت کسی مرد کو کو زخمی کرتی ہے تو اس سے بھی بدلہ لیا جائے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں مرد اور عورتیں ہر قسم کے لوگ تھے، چنانچہ بعض روایات میں تصریح ہے کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما کے منہ میں بھی دوائی ڈالی گئی تھی، حالانکہ وہ روزے سے تھیں کیونکہ وہ بھی اس مجلس میں موجود تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمومی امر دیا تھا جس کی زد میں وہ بھی آگئیں۔
(فتح الباري: 268/12)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6886   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6897  
6897. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ ﷺ کی بیماری کے وقت آپ کے منہ میں دوائی ڈالی تو آپ نے ہمیں اشارہ فرمایا: تم ایسا نہ کرو۔ ہم نے سمجھا کا منع کرنا اس لیے ہے کہ بیمار کو دوا سے ناگواری ہوتی ہے، چنانچہ جب آپ کو افاقہ ہوا تو آپ نے فرمایا: میں نے تمہیں دوائی ڈالنے سے روکا تھا؟ ہم نے کہا: ہم یہ سمجھے تھے کہ دوا کی ناپسندیدگی کی وجہ سے آپ ایسا فرما رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک کے منہ میں دوائی ڈالی جائے اور میں دیکھتا رہوں گا، البتہ عباس کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا جائے کیونکہ وہ تمہارے ساتھ شامل نہیں تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6897]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے اگرچہ صاف طور پر قصاص ثابت نہیں ہوتا، تاہم یہ بات واضح ہے کہ ایک کام میں جو حضرات شریک تھے ان سب سے قصاص لیا گیا یا انھیں سزا دی گئی۔
بہرحال جب معمولی اشیاء میں قصاص ہے تو بڑے بڑے کاموں میں اگر کئی لوگ شریک ہو جائیں تو ان سے بطریق اولی قصاص لیا جائے گا، جیسے:
قتل اور چوری وغیرہ میں تمام شرکاء کو قصاص میں شامل کیا جائے گا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6897