Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْجَنَائِزِ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
1. بَابٌ في الْجَنَائِزِ، وَمَنْ كَانَ آخِرُ كَلاَمِهِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ:
باب: جنازوں کے باب میں جو حدیثیں آئی ہیں ان کا بیان اور جس شخص کا آخری کلام لا الہٰ الا اللہ ہو، اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 1238
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا شَقِيقٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ مَاتَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ النَّارَ" , وَقُلْتُ أَنَا: مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ.
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے میرے باپ حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شقیق بن سلمہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اس حالت میں مرے کہ کسی کو اللہ کا شریک ٹھہراتا تھا تو وہ جہنم میں جائے گا اور میں یہ کہتا ہوں کہ جو اس حال میں مرا کہ اللہ کا کوئی شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ جنت میں جائے گا۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1238 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1238  
حدیث حاشیہ:
اس کی مزید وضاحت حدیث انس ؓ میں موجود ہے کہ اللہ پاک نے فرمایا:
اے ابن آدم! اگر تو دنیا بھر کے گناہ لے کر مجھ سے ملاقات کرے مگر تونے شرک نہ کیا ہو تو میں تیرے پاس دنیا بھر کی مغفرت لے کر آؤں گا۔
(رواہ الترمذي)
خلاصہ یہ کہ شرک بدترین گناہ ہے اور توحید اعظم ترین نیکی ہے۔
موحد گنہگار مشرک عبادت گزارسے بہر حال ہزار درجے بہتر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1238   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1238  
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے ایک مرفوع حدیث کو عنوان میں بیان کیا ہے۔
حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جس کی آخری بات لا إله إلا الله ہو وہ جنت میں داخل ہو گا۔
(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث 3116)
اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ جو شخص لا إله إلا الله کہے اور اس پر اسے موت آ جائے، نیز وہ کسی کو اللہ کا شریک نہ بنائے، وہ جنت میں داخل ہو گا۔
یہ بھی احتمال ہے کہ امام بخاری ؒ کی مراد یہ ہو کہ جو کوئی موت کے وقت اخلاص سے لا إله إلا الله کہے، ایسا کرنے سے اس کے پہلے گناہ معاف ہو جائیں گے اور وہ جنت میں داخل ہو گا، کیونکہ اخلاص توبہ اور ندامت کو لازم ہے۔
اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص زنا اور حقوق العباد (جیسے چوری)
وغیرہ کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو، ایسے حالات میں حقوق العباد کی ادائیگی کے متعلق اللہ تعالیٰ ضرور کوئی صورت پیدا کر دے گا۔
والله أعلم۔
(2)
حضرت ابن مسعود ؓ کے قول سے امام بخاری ؒ یہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ جنت میں داخلے کے لیے مرتے وقت کلمہ اخلاص کا پڑھنا ضروری نہیں، بلکہ اس سے مراد توحید کا عقیدہ رکھنا اور اسی عقیدے پر مرنا ہے۔
ہمارے نزدیک قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ مقصد ہے کہ مریض اور قریب المرگ آدمی کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی جائے تاکہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہو۔
اگرچہ تلقین کے متعلق واضح احادیث بھی کتب احادیث میں مروی ہیں، لیکن امام بخاری ؒ کی شرائط کے مطابق نہ تھیں، اس لیے انہیں پیش نہیں کیا گیا، چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ اپنے قریب المرگ تعلق داروں کو لا إله إلا الله پڑھنے کی تلقین کرو۔
(صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2123 (916)
تلقین کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے پاس شہادتین کا ذکر کیا جائے، بلکہ اسے پڑھنے کے متعلق کہا جائے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ ایک انصاری کی تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے تو آپ نے اسے کہا کہ لا إله إلا الله کہو۔
(مسند أحمد: 152/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1238   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 268  
حضرت عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپؐ فرما رہے تھے: جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہوا مرا وہ دوزخی ہے۔ اور میں نے کہا: جو اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتا ہوا(توحید پہ) مرا وہ جنّت میں داخل ہو گا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:268]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
توحید پورے دین کا نچوڑ،
روح اور مغز ہے۔
دوسرے الفاظ میں پورے دین کا عنوان ہے،
کیونکہ توحید یہ ہے کہ اللہ کی ذات،
صفات واسماء،
افعال اور اس کے حقوق میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔
اور اس توحید کا اقرار کرنے والا شعوری طور پر دین وشریعت کی زندگی کے کسی گوشہ میں مخالفت نہیں کر سکتا،
اس لیے وہ سیدھا جنت میں داخل ہوگا۔
اس کے مقابلہ میں شرک یہ ہے کہ اللہ کی ذات یا صفات واسماء یا افعال یا اس کے حقوق میں کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور ان میں سے شرک کی کسی جزئی کا مرتکب سیدھا جنت میں داخل نہیں ہوگا،
ہاں اگر اس میں توحید کا کوئی جز ہوگا تو اس کی بنا پر وہ کسی نہ کسی وقت سزا بھگتنے کے بعد جنت میں داخل ہوسکے گا۔
اس قسم کی احادیث میں توحید حقیقی اور شرک اصلی کے نتائج بیان کیے گئے ہیں،
جن میں ایک دوسرے کا اختلاط نہیں ہے،
کیونکہ مفردات کے خواص کسی دوسرے چیز کے ساتھ مرکب ہونے سے بدل جاتے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 268   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4497  
4497. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے اللہ کے سوا کسی اور کو اس کا شریک بنایا اور اسی حالت میں مر گیا وہ سیدھا دوزخ میں جائے گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ میں کہتا ہوں: جس نے اللہ کے سوا کسی دوسرے کو اس کا شریک نہ مانا اور اسی حالت میں فوت ہوا وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4497]
حدیث حاشیہ:
مطلب ہر دو باتوں کا یہی ہے کہ توحید پر مرنے والے ضرورجنت میں داخل ہوں گے اور شرک پر مرنے والے ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔
شرک سے مراد قبروں، مزاروں، تعزیوں کو پوجنا جس طرح کا فرلوگ بتوں کو پوجتے ہیں ہر دو قسم کے لوگ اللہ کے ہاں مشرک ہیں۔
شرک کا ایک شائبہ بھی عند اللہ بہت بڑا گناہ ہے۔
پس شرک سے بہت دور رہنے کی کوشش کرنا ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4497   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4497  
4497. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے اللہ کے سوا کسی اور کو اس کا شریک بنایا اور اسی حالت میں مر گیا وہ سیدھا دوزخ میں جائے گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ میں کہتا ہوں: جس نے اللہ کے سوا کسی دوسرے کو اس کا شریک نہ مانا اور اسی حالت میں فوت ہوا وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4497]
حدیث حاشیہ:
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جو شخص مرجائے اور وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو وہ جنت میں جائے گا اور جو شخص مرجائے اور وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرتا ہو وہ جہنم میں جائے گا۔
" (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 269(93)
جب دونوں جملے رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں تو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے آخری جملے کی نسبت اپنی طرف کیوں کی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شاید حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے صرف پہلا جملہ ہی سنا ہو یا سنا ہو تو بھول گئے ہوں، دونوں صورتوں میں انھوں نے خود قرآن وحدیث سے استنباط فرمایا ہو کہ سبب کی نفی سے مسبب کی نفی ہوجائے گی کیونکہ جب دوزخ میں جانے کا سبب بہ ہوگا تو جنت کے علاوہ اور کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں اسے داخل کیا جائے۔
دوسرے لفظوں میں یوں ہے کہ مشرک کا جہنم میں داخل ہونا مومن کے جنت میں جانے کو مستلزم ہے۔
یہ مفہوم مخالف نہیں بلکہ لازم معنی ہیں۔

بہرحال دونوں باتوں کا مطلب یہی ہے کہ توحید پر مرنے والے ضرور جنت میں داخل ہوں گے۔
اور شرک پر مرنے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
شرک سے مراد قبروں، مزاروں اورتعزیوں کو پوجنا ہے جس طرح کافر بتوں کو پوجتے تھے اس طرح دونوں قسم کے لوگ اللہ کے ہاں مشرک ہیں۔
معمولی سا شرک بھی بہت بڑا گناہ اورناقابل معافی جرم ہے، لہذا مسلمان کو چاہیے کہ وہ خود کو توحید پر کاربندر کھے اور شرک سے اپنے آپ کو دور رکھے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4497