یزید بن ہارون نے کہا: ہمیں ہشام بن حسان نے محمد بن سیرین سےخبر دی، انھوں نے ا پنے بھائی معبد بن سیرین سے، انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے، روایت کی، کہا: ہم نے ایک مقام پر پڑاؤکیا، ایک عورت ہمارے پاس آئی اور کہا: قبیلے کےسردار کو ڈنک لگا ہے، (اسے بچھو نے ڈنک ماراہے) کیا تم میں سے کوئی دم کرنے والا ہے؟ہم میں سے ایک آدمی اس کے ساتھ (جانے کےلئے) کھڑا ہوگیا، اس کے بارے میں ہمارا خیال نہیں تھا کہ وہ اچھی طرح دم کرسکتا ہے۔اس نے اس (ڈسے ہوئے) کو فاتحہ سے دم کیاتو وہ ٹھیک ہوگیا، تو انھوں نے اسے بکریوں کا ایک ریوڑ دیا اور ہم سب کو دودھ پلایا۔ہم نے (اس سے) پوچھا: کیا تم اچھی طرح دم کرنا جانتے تھے؟اس نے کہا: میں نے اسے صرف فاتحۃ الکتاب سے دم کیا ہے۔کہا: میں نے (ساتھیوں سے) کہا: ان بکریوں کو کچھ نہ کہو یہاں تک کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوجائیں۔ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ کو یہ بات بتائی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے کس ذریعے سے پتہ چلا کہ یہ (فاتحہ) دم (کا کلمہ بھی) ہے؟ان (بکریوں) کو بانٹ لو اور اپنے داتھ میرا بھی حصہ رکھو۔"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا تو ہمارے پاس ایک عورت آ کر کہنے لگی، قبیلہ کے سردار کو بچھو نے ڈس لیا ہے تو کیا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟ سو اس کے ساتھ ہم میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا، ہم نہیں سمجھتے تھے کہ وہ کوئی دم اچھی طرح کر سکتا ہے، اس نے اسے سورہ فاتحہ سے دم کیا تو وہ تندرست ہو گیا، انہوں نے ہمیں بکریاں دیں اور دودھ پلایا، ہم نے اس سے پوچھا، کیا تمہیں دم کرنا آتا ہے؟ اس نے کہا، میں نے سورہ فاتحہ ہی سے دم کیا ہے، میں نے کہا، ان بکریوں کو نہ چھیڑو، حتی کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو جائیں تو ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کو واقعہ سنایا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اسے کیسے پتہ چلا ہے، یہ سورۃ دم ہے؟ بانٹ لو اور اپنے ساتھ میرا حصہ بھی رکھو۔“