Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب السَّلَامِ
سلامتی اور صحت کا بیان
8. باب تَحْرِيمِ الْخَلْوَةِ بِالأَجْنَبِيَّةِ وَالدُّخُولِ عَلَيْهَا:
باب: اجنبی عورت سے تنہائی کرنا اور اس کے پاس جانا حرام ہے۔
حدیث نمبر: 5674
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ "، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ، قَالَ: " الْحَمْوُ الْمَوْتُ ".
قتیبہ بن سعید اور محمد بن رمح نے کہا: ہمیں لیث نے یزید بن ابی حبیب سے خبر دی، انھوں نے ابو الخیر سے، انھوں نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"تم (اجنبی) عورتوں کے ہاں جانے سے بچو۔انصار میں سے ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! دیور/جیٹھ کے متعلق آپ کا کیاخیال ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"دیور/جیٹھ تو موت ہے۔"
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔ تو ایک انصاری آدمی نے دریافت کیا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! دیور کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیور موت ہے۔
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 5674 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5674  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
الحمو:
خاوند کا قریبی رشتہ دار،
مثلا بھائی،
چچازاد،
ماموں زاد،
بھتیجا،
چچا،
کیونکہ بقول امام نووی رحمہ اللہ اہل لغت کے نزدیک بالا تفاق،
احماء،
حمو کی جمع ہے۔
)
سے مراد عورت کے خاوند کے رشتہ دار ہیں،
مثلاً اس کا چچا،
بھائی،
بھتیجا وغیر ہم ہے اور اختان سے مراد،
بیوی کے اقارب ہیں اور اصھار کا اطلاق،
دونوں کے عزیزواقارب پر ہوتا ہے اور یہاں حمو سے مراد خاوند کے باپ اور بیٹے کے علاوہ عزیزواقارب ہیں،
کیونکہ خاوند کا باپ اور بیٹا تو محرم ہیں۔
فوائد ومسائل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حمو کو موت قرار دیا ہے،
کیونکہ عام طور پر اس کا عورت کے پاس تنہائی میں ملنا بیٹھنا معیوب خیال نہیں کیا جاتا اور اس کی آڑ میں بسا اوقات ان دونوں میں جنسی تعلقات استوار ہو جاتے ہیں،
جو انسان یعنی مرد اور عورت کے دین کی موت ہے،
اور اگر پتہ چل جائے تو عورت کے لیے رجم کا باعث ہے اور حمو شادی شدہ ہو تو اس کو بھی سنگسار کیا جائے گا اور خاوند غیرت میں آ کر،
ان کو قتل بھی کر سکتا ہے،
یا وہ بیوی کو طلاق دے دے گا،
اس لیے اس سے تنہائی یا خلوت زیادہ خطرناک ہے،
اس لیے حمو کی تنہائی کو معمولی خیال نہیں کرنا چاہیے،
بدقسمتی سے آج ان ہدایات کو اہمیت نہیں دی جاتی،
جس کی بنا پر افسوسناک تعلقات ظہور پذیر ہو رہے ہیں،
بھائی،
بھائی کی بیوی سے تعلقات استوار کر لیتا ہے،
دوست،
دوست کی بیوی کو لے اڑتا ہے،
اس طرح خاندان تباہ ہو رہے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5674   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5232  
5232. سیدنا عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خود کو اجنبی عورتوں کے پاس جانے سے دور رکھو۔ ایک انصاری نے دریافت کیا، اللہ کے رسول! دیور جیٹھ کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ نے فرمایا: دیور موت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5232]
حدیث حاشیہ:
حمو سے خاوند کے وہ رشتہ دار مراد ہیں جن کا نکاح اس عورت سے جائز ہے جیسے خاوند کا بھائی، بھتیجا، بھانجا، چچا، چچازاد بھائی، ماموں کا بیٹا وغیرہ جن سے کسی جائز صورت میں اس عورت کا نکاح ہو سکتا ہے لیکن وہ رشتہ دار مراد نہیں ہیں جو محرم ہیں جیسے خاوند کا باپ بیٹا وغیرہ ان کا تنہا ئی میں جانا جائز ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5232   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5232  
5232. سیدنا عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خود کو اجنبی عورتوں کے پاس جانے سے دور رکھو۔ ایک انصاری نے دریافت کیا، اللہ کے رسول! دیور جیٹھ کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ نے فرمایا: دیور موت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5232]
حدیث حاشیہ:
(1)
حمو سے مراد وہ رشتے دار ہیں جو اس کے باپ اور بیٹوں کے علاوہ ہوں، یعنی شوہر کے بھائی، بھتیجے، بھانجے اور چچا، ماموں وغیرہ کیونکہ یہ رشتے دار عورت کے محرم نہیں ہیں۔
اگر شوہر فوت ہو جائے یا بیوی کو طلاق مل جائے تو ان کے ساتھ نکاح ہو سکتا ہے۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان رشتے داروں کو موت قرار دیا ہے کہ عام طور پر ان سے غفلت اور سستی کی جاتی ہے، اس بنا پر خطرناک نتائج سامنے آتے ہیں۔
یہ حضرات خاوند کی عدم موجودگی میں اس کی بیوی سے خلوت کرتے ہیں تو اگر معاملہ بوس و کنار تک محدود ہو تو دین کی ہلاکت اور اگر بدکاری تک نوبت پہنچ جائے تو جان کی ہلاکت ہے۔
اس میں عورت کی بھی ہلاکت ہے کہ شوہر کو پتا چلنے کے بعد وہ اسے طلاق دے دے گا یا غیرت میں آ کر قتل کر دے گا۔
(3)
غور و فکر کرنے سے یہ حدیث مذکورہ بالا دونوں مسائل کے لیے دلیل بن سکتی ہے۔
والله المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5232