صحيح مسلم
كِتَاب اللِّبَاسِ وَالزِّينَةِ
لباس اور زینت کے احکام
33. باب تَحْرِيمِ فِعْلِ الْوَاصِلَةِ وَالْمُسْتَوْصِلَةِ وَالْوَاشِمَةِ وَالْمُسْتَوْشِمَةِ وَالنَّامِصَةِ وَالْمُتَنَمِّصَةِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ وَالْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ:
باب: بالوں میں جوڑا لگانا اور لگوانا، گودنا اور گدانا اور منہ کی روئیں نکالنا اور نکلوانا، دانتوں کو کشادہ کرنا اور اللہ تعالیٰ کی خلقت کو بدلنا حرام ہے۔
حدیث نمبر: 5572
وحدثينيه مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، حَدَّثَنَا صَخْرُ بْنُ جُوَيْرِيَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ.
صخر بن جویریہ نے نافع سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کی۔
یہی روایت امام صاحب ایک اور استاد نے اسی طرح سنائی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 5572 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5572
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
الواشمة:
شم کرنے والی یعنی،
ہتھیلی کی پشت،
کلائی،
ہونٹ،
پیشانی یا عورت کے بدن کے کسی حصہ میں سوئی وغیرہ چبھو کو خون نکالنا پھر اس جگہ سرمہ یا نیل بھرنا تاکہ اس جگہ نقش ونگار بنائے جائیں اور مستوشمة،
وہ عورت ہے جو اس کا مطالبہ کرتی ہے،
مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو جو حسن وجمال اور خوبصورتی بخشی ہے،
اس پر کفایت کرنا چاہیے،
اس میں تبدیلی کرنا،
انتہائی گھناؤنا جرم ہے،
جو لعنت کا مستحق ہے،
لیکن بدقسمتی سے مسلمان عورتیں مغربی اقوام سے نت نئے فیشن سیکھ رہی ہیں اور اس کے لیے مستقل طور پر بیوٹی پارلر کے نام دکانیں کھل گئی ہیں،
جن میں مصنوعی حسن وجمال کے حصول کے لیے بے انتہا،
پیسا،
ضائع ہورہا ہے،
ایک دور کا فیشن یہ تھا کہ عورتیں بالوں کے ساتھ جوڑ لگواتی تھیں اور آج کا فیشن بالوں کو کاٹنا ہے،
ناخن جن کو کاٹنے کا حکم ہے،
ان کو خونخواردرندوں کی طرح بڑھایا جاتا ہے اور ان پر سرخ یا اپنے ہم رنگ پالش لگائی جاتی ہے،
حالانکہ ناخنوں پر گہری پالش سے وضو بھی مشکوک ہوجاتا ہے،
اکثر علماء کے نزدیک اس صورت میں وضو نہیں ہوتا،
کیونکہ ناخنوں پر پالش ہونے کی وجہ سے،
وہ صحیح طور پر دھل نہیں پاتے،
مزید برآں یہ کافروں کی نشانی ہے،
جو پسندیدہ نہیں ہے،
اگر یہ ان کا شعار ہوتو پھر حرام ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5572