Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كتاب العمل في الصلاة
کتاب: نماز کے کام کے بارے میں
9. بَابُ بَسْطِ الثَّوْبِ فِي الصَّلاَةِ لِلسُّجُودِ:
باب: نماز میں سجدہ کے لیے کپڑا بچھانا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 1208
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ، حَدَّثَنَا غَالِبٌ الْقَطَّانُ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ، فَإِذَا لَمْ يَسْتَطِعْ أَحَدُنَا أَنْ يُمَكِّنَ وَجْهَهُ مِنَ الْأَرْضِ بَسَطَ ثَوْبَهُ فَسَجَدَ عَلَيْهِ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غالب بن قطان نے بیان کیا، ان سے بکر بن عبداللہ مزنی نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ہم سخت گرمیوں میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے اور چہرے کو زمین پر پوری طرح رکھنا مشکل ہو جاتا تو اپنا کپڑا بچھا کر اس پر سجدہ کیا کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1208 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1208  
حدیث حاشیہ:
مسجد نبوی ابتداء میں ایک معمولی چھپر کی شکل میں تھی۔
جس میں بارش اور دھوپ کا پورا اثر ہو اکرتا تھا۔
اس لیے شدت گرما میں صحابہ کرام ؓ ایسا کر لیا کرتے تھے۔
اب بھی کہیں ایسا ہی موقع ہو تو ایسا کر لینا درست ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1208   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1208  
حدیث حاشیہ:
(1)
ابتدائی طور پر مسجد نبوی ایک چھپر کی شکل میں تھی جس میں بارش اور دھوپ کا پورا اثر ہوا کرتا تھا، اس لیے صحابۂ کرام ؓ سخت گرمی کے دنوں میں دوران نماز سجدہ کرتے وقت اپنا کپڑا زمین پر بچھا لیتے اور اس پر سجدہ کرتے تھے۔
اب بھی کہیں ایسا موقع ہو تو کپڑا بچھا کر اس پر سجدہ کرنا جائز ہے قطع نظر اس سے کہ وہ کپڑا جسم پر پہن رکھا ہو یا الگ سے کوئی کپڑا ہو۔
(2)
یہ بھی معلوم ہوا کہ اس قسم کا قلیل عمل نماز پر اثر انداز نہیں ہوتا۔
(فتح الباري: 103/3)
امام بخاری ؒ نے قبل ازیں اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا تھا:
(باب السجود على الثوب في شدة الحر)
سخت گرمی میں کپڑے پر سجدہ کرنا۔
وہاں ہم نے اس کے متعلق تفصیل سے گفتگو کی تھی۔
(فتح الباري: 104/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1208   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 660  
´آدمی اپنے کپڑے پر سجدہ کرے اس کے حکم کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سخت گرمی میں نماز پڑھتے تھے، تو جب ہم میں سے کوئی اپنی پیشانی زمین پر نہیں ٹیک پاتا تھا تو اپنا کپڑا بچھا کر اس پر سجدہ کرتا تھا۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 660]
660۔ اردو حاشیہ:
➊ سجدے کی جگہ پر کوئی چٹائی، چمڑا یا کپڑا وغیرہ بچھایا گیا ہو تو کوئی حرج نہیں، البتہ پیشانی کا ننگا ہونا اور ننگی زمین پر سجدہ کرنا افضل اور بہتر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث: 375 وصحيح مسلم، حديث: 620]
➋ نماز میں خشوع ایک اہم اور ضروری عمل ہے اسے کرنے اور قائم رکھنے کے لیے گرمی سردی سے بچنے یا اس قسم کے معمولی اعمال نماز کے دوران میں بھی جائز ہیں تاکہ ذہن اور جسم ان عوارض میں الجھا نہ رہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 660   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1033  
´گرمی اور سردی میں کپڑوں پہ سجدہ کرنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سخت گرمی میں نماز پڑھتے تھے، جب ہم میں سے کوئی اپنی پیشانی زمین پہ نہ رکھ سکتا تو اپنا کپڑا بچھا لیتا، اور اس پر سجدہ کرتا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1033]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ا س حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوجاتا ہے۔
کہ زمین کی گرمی یا سردی سے بچاؤ کےلئے کپڑے پر سجدہ کرنا درست ہے۔

(2)
زمین پر پیشانی نہ رکھ سکنے کا مطلب یہ ہے کہ زمین بہت گرم ہوتی تھی اس لئے جب چہرہ زمین کو چھوتا تھا تو تکلیف محسوس ہوتھی تھی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1033   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1407  
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہم گرمی کی شدت میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے، جب ہم میں سے کوئی اپنی پیشانی زمین پر نہ رکھ سکتا تو اپنا کپڑا پھیلا کر اس پر سجدہ کر لیتا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1407]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ گرمی کے موسم میں بہت زیادہ تاخیر نہیں کرتے تھے کہ گرمی ختم ہو جائے اس لیے خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا آپﷺ نے ہماری شکایت کا ازالہ نہیں فرمایا حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا بعض سجدہ کپڑے پر کرتے تھے۔
(2)
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ پہنے ہوئے کپڑے پر سجدہ کرنا درست نہیں سمجھتے۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے جواز اور عدم جواز دونوں منقول ہیں اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جائز ہے۔
(3)
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ ظہر کی نماز سورج ڈھلنے پر پڑھتے تھے گویا آپﷺ نماز اول وقت پر پڑھتے تھے ہاں گرمیوں میں ظہر مؤخر کر لیتے تھے اس لیے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نماز اول وقت پر پڑھنا مستحب ہے اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مغرب کے سوا ہر نماز تاخیر سے پڑھنا بہتر ہے۔
(4)
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور صاحبین (امام یوسف امام محمد رحمۃ اللہ علیہ)
کے نزدیک ظہر کا وقت زوال آفتاب سے لے کر سایہ برابر ہونے تک ہے جس کو ایک مثل کہتے ہیں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دو مثل تک ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1407   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:385  
385. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھا کرتے تھے تو ہم میں سے کوئی شخص سخت گرمی کی وجہ سے سجدے کی جگہ پر اپنے کپڑے کا کنارہ بچھا لیتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:385]
حدیث حاشیہ:

جمہور محدثین کے نزدیک طرف الثوب کے یہی معنی ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ثوب ملبوس کے فاضل حصے پر سجدہ کرتے تھے۔

امام شافعی ؒ ثوب ملبوس کے فاضل حصے پر سجدے کی اجازت نہیں دیتے، کیونکہ ایسا کپڑا نمازی کے ساتھ نماز میں شامل ہے، گویا وہ نمازی کے بدن کا حصہ ہے، اس لیے ایسے ثوب ملبوس پر سجدہ زمین پر سجدہ نہیں۔
بلکہ اپنے حصے پر سجدہ ہے جس کی اجازت نہیں۔
ان کےنزدیک طرف الثوب سے مراد یا تو وہ کپڑا ہے جو نماز کے بدن پر نہ ہو اگر بدن پر نہ ہو اگر بدن پر ہو تو وہ اتنی گنجائش رکھتا ہو کہ اس کا سجدے کی جگہ پر ڈالا گیا حصہ نمازی کی حرکت سے متحرک نہ ہو لیکن جمہور کے نزدیک سجدے میں نماز کا پہنا ہوا کپڑا اور دوسرے کپڑے میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ اس دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی مجموعی حالت یہ تھی کہ ان کے پاس تو پہننے کے کپڑے بھی پورے نہ تھے چہ جائیکہ فاضل کپڑے ہوں جنھیں محل سجدہ میں ڈال لیا کریں اور نہ بدن کے کپڑے میں اتنی کشادگی کا امکان ہی ہے کہ نمازی کی حرکت سے وہ متحرک نہ ہو۔
اس لیے یہ فرق قابل قبول نہیں۔
عنوان میں حضرت حسن بصری ؒ کے اثر سے جمہور کے موقف کی تائید ہوتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 385