صحيح مسلم
كِتَاب الْأَشْرِبَةِ
مشروبات کا بیان
13. باب آدَابِ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ وَأَحْكَامِهِمَا:
باب: کھانے، پینے اور سونے کے آداب کا بیان۔
حدیث نمبر: 5260
وحَدَّثَنَاه إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، أَخْبَرَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ خَيْثَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي حُذَيْفَةَ الْأَرْحَبِيِّ ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ ، قَالَ: كُنَّا إِذَا دُعِينَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى طَعَامٍ، فَذَكَرَ بِمَعْنَى حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ، وَقَالَ: كَأَنَّمَا يُطْرَدُ وَفِي الْجَارِيَةِ كَأَنَّمَا تُطْرَدُ وَقَدَّمَ مَجِيءَ الْأَعْرَابِيِّ فِي حَدِيثِهِ قَبْلَ مَجِيءِ الْجَارِيَةِ، وَزَادَ فِي آخِرِ الْحَدِيثِ ثُمَّ ذَكَرَ اسْمَ اللَّهِ وَأَكَلَ.
عیسیٰ بن یونس نے کہا: ہمیں اعمش نے خیثمہ بن عبدالرحمان سے خبر دی، انھوں نے ابو حذیفہ ارحبی سے، انھوں نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سےروایت کی، انھوں نے کہا: جب ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانے کی دعوت دی جاتی، پھر ابومعاویہ کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی، اورکہا: جیسے اس (بدو) کو پیچھے سے زور سے دھکیلا جارہا ہو۔اورلڑکی کے بارے میں کہا: جیسے اسے پیچھے سے زور دے دھکیلا جارہا ہو، انھوں نے ا پنی حدیث میں بدو کے آنے کا ذکرپہلے کیا اور لڑکی کے آنے کا بعد میں اور حدیث کے آخر میں اضافہ کیا: "پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ پڑھی اور تناول فرمایا۔"
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، جب ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانے کی دعوت ملتی، آگے اوپر کی ابومعاویہ کی روایت کے ہم معنی روایت ہے اور اس "كان تدفع" کی جگہ بچی کے لیے "تطرد" ہے اور اعرابی کے لیے "يطرد" ہے اور اس نے اعرابی کی آمد کا تذکرہ پہلے کیا ہے، اور حدیث کے آخر میں یہ اضافہ کیا ہے، پھر "اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کر دیا،" تدفع اور تطرد (دونوں کا معنی بھگانا ہے)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 5260 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5260
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب لوگ دعوت میں شریک ہوں تو اپنے میں سے بڑی شخصیت کے آغاز کرنے کا انتظار کریں،
پھر اللہ کا نام لے کر بسم اللہ پڑھ کر شروع کریں،
یہ اس بات کا اقرار اور اعتراف ہے کہ یہ کھانا اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے فضل و کرم سے عنایت فرمایا ہے،
اگر اس کا فضل شامل حال نہ ہوتا تو ہمارے لیے اس کا حصول ممکن نہ تھا اور بسم اللہ ہر کھانے اور پینے والی چیز پر ہر فرد پڑھے گا،
جنبی اور حائض بھی پڑھیں گے،
اگر حاضرین میں سے بڑا آغاز کرتے وقت بسم اللہ اونچی پڑھے تاکہ دوسرے بھی اس کی اقتدا کریں تو بہتر ہے،
اگر کسی وجہ سے آغاز میں بسم اللہ رہ جائے اور بعد میں یاد آ جائے تو بسم الله اوله و آخره،
پڑھ لے،
جیسا کہ سنن کی روایت میں اس کی تصریح موجود ہے اور بقول علامہ نووی اگر بسم الله الرحمٰن الرحيم پڑھ لے تو بہتر ہے،
کیونکہ اللہ کا نام لینے کا ذکر ہے،
بسم اللہ کی تعیین نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5260