صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ
کتاب: علم کے بیان میں
38. بَابُ إِثْمِ مَنْ كَذَبَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے والے کا گناہ کس درجے کا ہے۔
حدیث نمبر: 108
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ أَنَسٌ: إِنَّهُ لَيَمْنَعُنِي أَنْ أُحَدِّثَكُمْ حَدِيثًا كَثِيرًا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ تَعَمَّدَ عَلَيَّ كَذِبًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، ان سے عبدالوارث نے عبدالعزیز کے واسطے سے نقل کیا کہ انس رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ مجھے بہت سی حدیثیں بیان کرنے سے یہ بات روکتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 108 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:108
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ دس سال تک سفر وحضر،عسر ویسر، خلوت وجلوت میں آپ کے ساتھ رہے۔
کثرت صحبت کے نتیجے میں جس قدر روایات ان سے منقول ہونی چاہیے تھیں، اس قدر نہیں ہیں۔
حدیث بالا میں انھوں نے اس کی وجہ بیان فرمائی ہے۔
ان جیسے محتاط صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کا طرز عمل یہ نہ تھا کہ روایات بیان ہی نہ کرتے تھے بلکہ کثرت روایات سے پرہیز کرتے تھے کیونکہ اس میں بے احتیاطی کا اندیشہ تھا۔
چونکہ کتمان علم پر سخت وعید ہے کہ ایسے لوگوں کو قیامت کے دن آگ کی لگام ڈالی جائے گی، اس بناء پر جہاں ضرورت ہوتی وہاں بیان فرما دیتے۔
اس احتیاط کے باوجود حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بکثرت روایات کتب حدیث میں مذکور ہیں۔
وہ شاید اس وجہ سے ہے کہ آپ نے طویل عمر پائی اور اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ سے پہلے رخصت ہوچکے تھے۔
لوگ مسائل پوچھنے کے لیے آپ کی طرف رجوع کرتے تھے، اس لیے روایات کی کثرت ہوئی اگرچہ یہ کثرت بھی ان کے مجموعہ معلومات کے مقابلے میں اقل قلیل ہے۔
(فتح الباري: 266/1)
2۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اگرمجھے بیان حدیث میں غلطی کا اندیشہ نہ ہوتو میں بکثرت احادیث بیان کروں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صرف اسی حدیث کو بیان کرتے تھے جس کے متعلق آپ کو یقین ہوتا کہ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا ہے۔
اگر کہیں شک پڑ جاتا تو اسے بیان کرنے سے اجتناب کرتے۔
بعض حضرات نے اس بیان سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آپ روایت باللفظ کا بہت خیال رکھتے تھے، حالانکہ یہ بات درست نہیں، اس لیے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت بالمعنی ثابت ہے جیسا کہ قراءت فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنے تکثیر طعام اور وضو کے وقت پانی کے زیادہ ہونے کے متعلق روایات ہیں۔
(فتح الباري: 266/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 108
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث32
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جان بوجھ کر جھوٹ گھڑنے پر سخت گناہ (جہنم) کی وعید۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص میرے اوپر جھوٹ باندھے ”(انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ) میرا خیال ہے کہ آپ نے «متعمدا» بھی فرمایا یعنی جان بوجھ کر“ ۱؎ تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لے۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 32]
اردو حاشہ:
➊ راوی (غالبا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ)
کو یہ شک ہے کہ «مُتَعَمِّدًا» کا کلمہ بھی فرمایا یا نہیں
اور باقی حدیث میں کوئی شک نہیں۔
➋ یہ راوی کی دیانتداری ہے کہ
اسے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات
میں سے جس کلمہ پر شک تھا
اس نے اس کا برملا اظہار کر دیا۔
➌ دیگر روایات سے واضح ہے کہ
«مُتَعَمِّدًا» کا کلمہ حدیث رسول میں شامل ہے۔
اسے راوی کا شک کہنا درست نہیں ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 32
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث، صحيح مسلم: 3
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں: میں تمھیں زیادہ حدیثیں اس لیے نہیں سناتا کیونکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے: ”جو جان بوجھ کر (جانتے ہوئے) میری طرف جھوٹی بات منسوب کرتا ہے، وہ اپنا ٹھکانہ جہنّم بنا لے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ہر وقت احادیث بیان کرنے میں بھول چوک کا احتمال ہے،
اس لیے جو انسان پوری احتیاط اور حزم سے کام نہیں لیتا،
وہ گویا کہ عمداً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی بات منسوب کرتا ہے،
لیکن اگر کوئی انسان پورے طور پر حزم و احتیاط سے سے کام لے کر ان روایات کو بیان کرتا ہے،
جو اسے پوری طرح یاد ہیں،
اور اس کو یقین ہے،
تو پھر معمولی چوک کا خطرہ نہیں،
کیونکہ اس نے اپنے آپ کو اس کام کے لیے وقف کر رکھا ہے،
یا کتاب سامنے رکھ کر بیان کرتا ہے۔
اور «فَلْيَتَبَوَّأْ» امر کا صیغہ ہے،
لیکن خبر کے معنی میں ہے:
”کہ اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ “
یا یہ دعا ہے:
”کہ اللہ تعالیٰ اس کا ٹھکانا جہنم بنائے۔ “
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3