صحيح البخاري
كتاب فضل الصلاة
کتاب: مکہ و مدینہ میں نماز کی فضیلت
2. بَابُ مَسْجِدِ قُبَاءٍ:
باب: مسجد قباء کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 1192
قَالَ: وَكَانَ يَقُولُ: إِنَّمَا أَصْنَعُ كَمَا رَأَيْتُ أَصْحَابِي يَصْنَعُونَ، وَلَا أَمْنَعُ أَحَدًا أَنْ يُصَلِّيَ فِي أَيِّ سَاعَةٍ شَاءَ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ، غَيْرَ أَنْ لَا تَتَحَرَّوْا طُلُوعَ الشَّمْسِ وَلَا غُرُوبَهَا".
نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ میں اسی طرح کرتا ہوں جیسے میں نے اپنے ساتھیوں (صحابہ رضی اللہ عنہم) کو کرتے دیکھا ہے۔ لیکن تمہیں رات یا دن کے کسی حصے میں نماز پڑھنے سے نہیں روکتا۔ صرف اتنی بات ہے کہ قصد کر کے تم سورج نکلتے یا ڈوبتے وقت نہ پڑھو۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1192 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1192
حدیث حاشیہ:
قبا شہر مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک مشہورگاؤں ہے۔
جہاں ہجرت کے وقت آنحضرت ﷺ نے چند روز قیام فرمایا تھا اور یہاں آپ نے اولین مسجد کی بنیاد رکھی جس کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔
آپ ﷺ کو اپنی اس اولین مسجد سے اس قدر محبت تھی کہ آپ ہفتہ میں ایک دفعہ یہاں ضرور تشریف لاتے اور اس مسجد میں دو رکعت تحیۃ المسجد ادا فرمایاکرتے تھے۔
ان دو رکعتوں کا بہت بڑا ثواب ہے۔
آج کل حرم نبوی کے متصل بس اڈہ سے قبا کو بسیں دوڑتی رہتی ہیں۔
الحمد للہ کہ 1951ء پھر1962ء کے ہر دو سفروں میں مدینہ منورہ کی حاضر ی کی سعادت پر بارہا مسجد قباء بھی جانے کا اتفاق ہوا تھا۔
62 کا سفر حج میرے خاص الخاص مہربان قدردان حضرت الحاج محمد پارہ آف رنگون وارد حال کراچی أدام اللہ إقبالھم وبارك لهم بارك علیھم کے محترم والد ماجد حضرت الحاج اسماعیل پارہ ؒ کے حج بدل کے لیے گیا تھا۔
اللہ پاک قبول فرما کر مرحوم اسماعیل پارہ کے لیے وسیلہ آخرت بنائے اور گرامی قدر حاجی محمد پارہ اور ان کے بچوں اور جملہ متعلقین کو دارین کی نعمتوں سے نوازے اور ترقیات نصیب کرے اور میری عاجزانہ دعائیں ان سب کے حق میں قبول فرمائے۔
آمین ثم آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1192
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1192
حدیث حاشیہ:
ان احادیث میں امام بخاری ؒ نے مسجد قباء میں نماز پڑھنے کی فضیلت کو بیان کیا ہے۔
واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے یثرب کی بیرونی بستی قباء پہنچے تھے جسے عالیہ بھی کہا جاتا تھا۔
قباء ایک کنویں کا نام ہے جس کی نسبت سے بستی کا نام بھی قباء مشہور ہو گیا۔
رسول اللہ ﷺ نے قبیلۂ عمرو بن عوف کے سردار کلثوم بن ہدم کے ہاں قیام فرمایا اور حضرت ابوبکر ؓ نے حبیب بن اساف کو شرف میزبانی بخشا۔
رات کو سعد بن خیثمہ کے ہاں مجلس لگتی۔
تین دن بعد حضرت علی ؓ یہیں آپ سے ملے۔
قباء میں آپ کا قیام 14 دن رہا۔
یہ بستی مدینہ منورہ سے تقریبا 3 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
مدینہ کی طرف رسول اللہ ﷺ سے پہلے ہجرت کرنے والوں نے ایک مسجد بنائی جسے مسجد قباء کہا جاتا ہے۔
جب رسول اللہ ﷺ نے اس بستی میں قیام فرمایا تو اس مسجد میں نمازیں ادا کرتے رہے۔
اس میں توسیع کے متعلق تفصیلی معلومات کے لیے اطلس سیرت نبوی (ص: 151، طبع دارالسلام)
کا مطالعہ مفید رہے گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1192