صحيح البخاري
كتاب فضل الصلاة
کتاب: مکہ و مدینہ میں نماز کی فضیلت
1. بَابُ فَضْلِ الصَّلاَةِ فِي مَسْجِدِ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ:
باب: مکہ اور مدینہ کی مساجد میں نماز کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1189
ح حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ، الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَسْجِدِ الْأَقْصَى".
(دوسری سند) ہم سے علی بن مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین مسجدوں کے سوا کسی کے لیے کجاوے نہ باندھے جائیں۔ (یعنی سفر نہ کیا جائے) ایک مسجد الحرام، دوسری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد (مسجد نبوی) اور تیسری مسجد الاقصیٰ یعنی بیت المقدس۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1189 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1189
حدیث حاشیہ:
مسجد اقصیٰ کی وجہ تسمیہ علامہ قسطلانی کے لفظوں میں یہ ہے۔
وسمي به لبعدہ عن مسجد مکة في المسافة۔
یعنی اس لیے اس کا نام مسجد اقصیٰ رکھا گیا کہ مسجد مکہ سے مسافت میں یہ دور واقع ہے۔
لفظ رحال رحل کی جمع ہے یہ لفظ اونٹ کے کجاوہ پر بولاجا تا ہے۔
اس زمانہ میں سفر کے لیے اونٹ کا استعمال ہی عام تھا۔
اس لیے یہی لفظ استعمال کیا گیا۔
مطلب یہ ہوا کہ صرف یہ تین مساجد ہی ایسا منصب رکھتی ہیں کہ ان میں نماز پڑھنے کے لیے، ان کی زیارت کے لیے سفرکیا جائے ان تین کے علاوہ کوئی بھی جگہ مسلمانوں کے لیے یہ درجہ نہیں رکھتی کہ ان کی زیارت کے لیے سفر کیا جاسکے۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ کی روایت سے یہی حدیث بخاری شریف میں دوسری جگہ موجود ہے۔
مسلم شریف میں یہ ان لفظوں میں ہے:
عن قزعة عن أبي سعید قال سمعت منه حدیثا فأعجبني فقلت له أنت سمعت ھذا من رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال فأقول علی رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم مالم أسمع قال سمعته یقول قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم وَلاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ:
مَسْجِدِ الحَرَامِ، وَمَسْجِدِي، وَمَسْجِدِ الأَقْصَى الحدیث۔
یعنی قزعہ نامی ایک بزرگ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے حدیث سنی جو مجھ کو بے حد پسند آئی۔
میں نے ان سے کہا کہ کیا فی الواقع آپ نے اس حدیث کو رسول اللہ ﷺ سے سناہے؟ وہ بولے کیا یہ ممکن ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی ایسی حدیث بیان کروں جو میں نے آپ ﷺ سے نہ سنی ہو۔
ہرگز نہیں بے شک میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا۔
آپ نے فرمایا کہ کجاوے نہ باندھومگر صرف ان ہی تین مساجد کے لیے۔
یعنی یہ میری مسجد اور مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ۔
ترمذی میں بھی یہ حدیث موجود ہے اور امام ترمذی کہتے ہیں:
ھذا حدیث حسن صحیح۔
یعنی یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
معجم طبرانی صغیر میں یہ حدیث حضرت علی ؓ کی روایت سے بھی ان ہی لفظوں میں موجود ہے اور ابن ماجہ میں عبد اللہ بن عمرو بن عاص کی روایت سے یہ حدیث ان ہی لفظوں میں ذکر ہوئی ہے اور حضرت امام مالک نے مؤطا میں اسے بصرہ بن ابی بصرہ غفاری سے روایت کیا ہے۔
وہاں والی مسجد ایلیااوبیت المقدس کے لفظ ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث سند کے لحاظ سے بالکل صحیح قابل اعتماد ہے اور اسی دلیل کی بنا پر بغرض حصول تقرب الی اللہ سامان سفر تیار کرنا اور زیارت کے لیے گھر سے نکلنا یہ صرف ان ہی تین مقامات کے ساتھ مخصوص ہے دیگر مساجد میں نماز ادا کرنے جانا یا قبرستان میں اموات مسلمین کی دعائے مغفرت کے لیے جانا یہ امور ممنوعہ نہیں۔
اس لیے کہ ان کے بارے میں دیگر احادیث صحیحہ موجود ہیں۔
نماز باجماعت کے لیے کسی بھی مسجد میں جانا اس درجہ کا ثواب ہے کہ ہر ہر قدم کے بدلے دس دس نیکیوں کا وعدہ دیا گیا ہے۔
اسی طرح قبرستان میں دعائے مغفرت کے لیے جانا خود حدیث نبوی کے تحت ہے۔
جس میں ذکر ہے فإنھا تذکر الآخرة۔
یعنی وہاں جانے سے آخرت کی یاد تازہ ہوتی ہے۔
باقی بزرگوں کے مزارات پر اس نیت سے جانا کہ وہاں جانے سے وہ بزرگ خوش ہو کر ہماری حاجت روائی کے لیے وسیلہ بن جائیں گے بلکہ وہ خود ایسی طاقت کے مالک ہیں کہ ہماری ہر مصیبت کو دور کر دیں گے یہ جملہ اوہام باطلہ اور اس حدیث کے تحت قطعا ناجائز امور ہیں۔
ا س سلسلہ میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں:
وأول من وضع الأحادیث في السفر لزیارة المشاھد التي علی القبور أھل البدع الرافضة ونحوھم الذینيعطلون المساجد ويعظمون المشاهد، يدعون بيوت الله التي أمر أن يذكر فيها اسمه ويعبد وحده لا شريك له، ويعظمون المشاهد التي يشرك فيها ويكذب فيها ويبتدع فيها ما لم ينزل الله به سلطانا فإن الكتاب والسنة إنما فيهما ذكر المساجد دون المشاهد وھذا کله في شدالرحال وأما الزیارة فمشروعة بدونه۔
(نیل الأوطار)
یعنی اہل بدعت اور روافض ہی اولین وہ ہیں جنہوں نے مشاہد اور مقابر کی زیارت کے لیے احادیث وضع کیں، یہ وہ لوگ ہیں جو مساجد کو معطل کر تے اور مقابر ومشاہد ومزارات کی حد درجہ تعظیم بجالاتے ہیں۔
مساجد جن میں اللہ تعالی کے ذکر کرنے کا حکم ہے اور خالص اللہ کی عبادت جہاں مقصود ہے ان کو چھوڑ کر یہ فرضی مزارات پر جاتے ہیں اور ان کی اس درجہ تعظیم کرتے ہیں کہ وہ درجہ شرک تک پہنچ جاتی ہے اور وہاں جھوٹ بولتے اور ایسا نیا دین ایجاد کرتے ہیں جس پر اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔
کتاب وسنت میں کہیں بھی ایسے مشاہد اور مزارات ومقابر کا ذکر نہیں ہے جن کے لیے بایں طور پر شد رحال کیا جاسکے۔
ہاں مساجد کی حاضری کے لیے کتاب وسنت میں بہت سی تاکیدات موجود ہیں۔
ان منکرات کے علاوہ شرعی طریق پر قبرستان جانا اور زیارت کرنا مشروع ہے۔
رہا آنحضرت ﷺ کی قبرشریف پرحاضر ہونا اور وہاں جا کر آپ پر صلوۃ وسلام پڑھنا یہ ہر مسلمان کے لیے عین سعادت ہے۔
مگر”گر فرق مراتب نہ کنی زندیقی“ کے تحت وہاں بھی فرق مراتب کی ضرورت ہے۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ زیارت سے قبل مسجد نبوی کا حق ہے۔
وہ مسجد نبوی جس میں ایک رکعت ایک ہزار رکعتوں کے برابر درجہ رکھتی ہے اور خاص طورپر روضة من ریاض الجنة۔
کا درجہ اور بھی بڑھ کر ہے۔
اس مسجد نبوی کی زیارت اور وہاں ادائے نماز کی نیت سے مدینہ منورہ کا سفر کرنا اس کے بعد آنحضرت ﷺ کی قبر شریف پر بھی حاضر ہونا اور آپ پر صلوۃ وسلام پڑھنا۔
آپ ﷺ کے بعد حضرت صدیق اکبروحضرت عمر فاروق ؓ کے اوپر سلام پڑھنا پھر بقیع الغرقد قبرستان میں جاکر وہاں جملہ اموات کے لیے دعائے مغفرت کرنا۔
اسی طرح مسجد قبا میں جانا اور وہاں دو رکعت ادا کرنا، یہ جملہ امور مسنون ہیں جو سنت صحیحہ سے ثابت ہیں۔
اس تفصیل کے بعدکچھ اہل بدعت قسم کے لوگ ایسے بھی ہیں جو اہلحدیث پر ان کے اسلاف پر اورخاص کر حضرت علامہ ابن تیمیہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ لوگ آنحضرت ﷺ کی قبر شریف پر صلوۃ وسلام سے منع کرتے ہیں۔
یہ صریح کذب اور بہتا ن ہے۔
علامہ ابن تیمیہ نے اس سلسلہ میں جو فرمایا ہے وہ یہی ہے جو اوپر بیان ہوا۔
باقی رسول کریم ﷺ کی قبر پر حاضر ہو کردرود وسلام بھیجنا، یہ علامہ ابن تیمیہ ؒ کے مسلک میں مدینہ شریف جانے والوں اور مسجد نبوی میں حاضری دینے والوں کے لیے ضروری ہے۔
چنانچہ صاحب صیانة الانسان عن وسوسة الشیخ الدحلان علامہ محمد بشیر صاحب سہسوانی مرحوم تحریرفرماتے ہیں:
لا نزاع لنا في نفس مشروعية زيارة قبر نبينا صلى الله عليه وسلم، وأما ما نسب إلى شيخ الإسلام ابن تيميه رحمه الله من القول بعدم مشروعية زيارة قبر نبينا صلى الله عليه وسلم فافتراء بحت2، قال الإمام العلامة أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عبد الهادي المقدسي الحنبلي في (الصارم المنكى)
:
وليعلم قبل الشروع في الكلام مع هذا المعترض أن شيخ الإسلام رحمه الله لم يحرم زيارة القبور على الوجه المشروع في شيء من كتبه، ولم ينه عنها، ولم يكرهها، بل استحبها وحض عليها، ومصنفاته ومناسكه طافحة بذكر استحباب زيارة قبر النبي صلى الله عليه وسلم وسائر القبور، قال رحمه الله في بعض مناسكه:
باب زيارة قبر النبي صلى الله عليه وسلم:
"إذا أشرف على مدينة النبي صلى الله عليه وسلم قبل الحج أو بعده فليقل ما تقدم، فإذا دخل استحب له أن يغتسل، نص عليه الإمام أحمد، فإذا دخل المسجد بدأ برجله اليمنى:
بسم الله، والصلاة على رسول الله، اللهم اغفر لي ذنوبي، وافتح لي أبواب رحمتك، ثم يأتي الروضة بين القبر والمنبر فيصلي بها ويدعو بما شاء، ثم يأتي قبر النبي صلى الله عليه وسلم فيستقبل جدار القبر لا يمسه ولا يقبله، ويجعل القنديل الذي في القبلة عند القبر على رأسه ليكون قائماً وجاه النبي صلى الله عليه وسلم، ويقف متباعداً كما يقف لو ظهر في حياته بخشوع وسكون منكس الرأس وغاض الطرف، مستحضراً بقلبه جلالة موقفه، ثم يقول:
السلام عليك يا رسول الله ورحمة الله وبركاته، السلام عليك يا نبي الله وخيرته من خلقه، السلام عليك يا سيد المرسلين، وخاتم النبيين، وقائد الغر المحجلين، أشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أنك رسول الله، أشهد أنك قد بلغت رسالات ربك، ونصحت لأمتك، ودعوت إلى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة، وعبدت الله حتى أتاك اليقين، فجزاك الله أفضل ما جزى نبياً ورسولاً عن أمته، اللهم آته الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاماً محموداً الذي وعدته، ليغبطه به الأولون والآخرون. اللهم صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على آل إبراهيم إنك حميد مجيد، اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد كما باركت على آل إبراهيم إنك حميد مجيد:
اللهم احشرنا في زمرته، وتوفنا على سنته، وأوردنا حوضه، واسقنا بكأسه شرباً لا نظمأ بعده أبداً."ثم يأتي أبا بكر وعمر رضي الله عنهما فيقول:
السلام عليك يا أبا بكر الصديق، السلام عليك يا عمر الفاروق، السلام عليكما يا صاحبي رسول الله صلى الله عليه وسلم وضجيعيه ورحمة الله وبركاته، جزاكما الله عن صحبة نبيكما وعن الإسلام خيراً {سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ} . قال ويزور قبور أهل البقيع وقبور الشهداء إن أمكن".هذا كلام الشيخ رحمه الله بحروفه، انتهى ما في الصارم.۔
(صیانة الانسان عن وسوسة الدحلان، ص: 3)
یعنی شرعی طریقہ پر آنحضرت ﷺ کی قبر شریف کی زیارت کرنے میں قطعا کوئی نزاع نہیں ہے اور اس بارے میں علامہ ابن تیمیہ ؒ پر یہ محض جھوٹا بہتان ہے کہ قبر نبوی ﷺ کی زیارت کو ناجائز کہتے تھے، یہ محض الزام ہے۔
علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد نے اپنی مشہور کتاب الصارم المنکی میں لکھا ہے کہ شرعی طریقہ پر زیارت قبور سے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ہرگز منع نہیں کیا نہ اسے مکروہ سمجھا۔
بلکہ وہ اسے مستحب قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے رغبت دلاتے ہیں۔
انہوں نے اس بارے میں اپنی کتاب بابت ذکر مناسک حج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی زیارت کے سلسلہ میں باب منعقد فرمایا ہے اور اس میں لکھا ہے کہ جب کوئی مسلمان حج سے پہلے یا بعد میں مدینہ شریف جائے تو پہلے وہ دعا مسنون پڑھے جو شہروں میں داخلہ کے وقت پڑھی جاتی ہے۔
پھر غسل کر ے اور بعد میں مسجد نبوی میں پہلے دایاں پاؤں رکھ کر داخل ہو اور یہ دعا پڑھے بسم الله، والصلاة على رسول الله، اللهم اغفر لي ذنوبي، وافتح لي أبواب رحمتك۔
پھر اس جگہ آئے جو جنت کی کیاری ہے اوروہاں نماز پڑھے اور جو چاہے دعا مانگے۔
اس کے بعد آنحضرت ﷺ کی قبر مبارک پر آئے اور دیوار کی طرف منہ کرے نہ اسے بوسہ دے نہ ہاتھ لگائے۔
آنحضرت ﷺ کے چہرہ مبارک کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو اورپھر وہاں سلام اور درود پڑھے (جن کے الفاظ پیچھے نقل کئے گئے ہیں)
پھر حضرت ابو بکر اور حضرت عمر ؓ کے سامنے آئے اور وہاں بھی سلام پڑھے جیسا کہ مذکور ہوا اورپھر ممکن ہو تو بقیع غرقد نامی قبرستان میں جاکر وہاں بھی قبور مسلمین اور شہداءکی زیارت مسنونہ کرے۔
سابق امتوں میں کچھ لوگ کوہ طور اور تربت بابرکت حضرت یحیٰ ؑ وغیرہ کی زیارت کے لیے دور دراز سے سفر کر کے جایا کرتے تھے۔
اللہ کے سچے رسول اللہ ﷺ نے ایسے تمام سفروں سے منع فرما کر اپنی امت کے لیے صرف یہ تین زیارت گاہیں مقرر فرمائیں۔
اب جو عوام اجمیر اورپاک پٹن وغیرہ وغیرہ مزارات کے لیے سفر باندھتے ہیں یہ ارشاد رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرنے کی وجہ سے عاصی نافرمان اور آپ کے باغی ٹھہرتے ہیں۔
ہاں قبور المسلمین اپنے شہر یا قریہ میں ہوںوہ اپنوں کی ہوں یا بیگانوں کی وہاں مسنون طریقہ پر زیارت کرنا مشروع ہے کہ گورستان والوں کے لیے دعا ئے مغفرت کریں اور اپنی موت کو یاد کر کے دنیا سے بے رغبتی اختیار کریں۔
سنت طریقہ صرف یہی ہے۔
علامہ ابن حجر اس حدیث کی بحث کے آخر میں فرماتے ہیں:
فَمَعْنَى الْحَدِيثِ لَا تُشَدُّ الرِّحَالِ إِلَى مَسْجِدٍ مِنَ الْمَسَاجِدِ أَوْ إِلَى مَكَانٍ مِنَ الْأَمْكِنَةِ لِأَجْلِ ذَلِكَ الْمَكَانِ إِلَّا إِلَى الثَّلَاثَةِ الْمَذْكُورَةِ وَشَدُّ الرِّحَالِ إِلَى زِيَارَةٍ أَوْ طَلَبِ عِلْمٍ لَيْسَ إِلَى الْمَكَانِ بَلْ إِلَى مَنْ فِي ذَلِكَ الْمَكَانِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ۔
(فتح الباري)
یعنی حدیث کا مطلب اسی قدر ہے کہ کسی بھی مسجد یا مکان کے لیے سفر نہ کیا جائے اس غرض سے کہ ان مساجد یا مکانات کی محض زیارت ہی موجب رضائے الٰہی ہے ہاں یہ تین مساجد یہ درجہ رکھتی ہیں جن کی طرف شد رحال کیا جانا چاہیے اور کسی کی ملاقات یا تحصیل علم کے لیے شد رحال کرنا اس ممانعت میں داخل نہیں اس لیے کہ یہ سفر کسی مکان یا مدرسہ کی عمارت کے لیے نہیں کیا جاتا بلکہ مکان کے مکین کی ملاقات اور مدرسہ میں تحصیل علم کے لیے کیا جاتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1189
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1189
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ ان تین مساجد کے سوا کسی اور طرف ان کے ذاتی شرف کی بنا پر بغرض عبادت سفر نہ کیا جائے کیونکہ دنیا کی تمام مساجد میں نماز پڑھنا ثواب کے اعتبار سے برابر ہے، البتہ جامع مساجد میں نمازیوں کی کثرت کے باعث زیادہ ثواب ہے اور دور سے چل کر مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آنا کثرت اقدام کی وجہ سے زیادہ ثواب کا موجب ہے، نفس مسجد کے اعتبار سے ثواب میں کوئی تعارض نہیں، البتہ ان تین مساجد میں نماز پڑھنا ان کے ذاتی شرف کی بنا پر اللہ کے ہاں اجروثواب میں اضافے کا باعث ہے کیونکہ انہیں حضرات انبیائے کرام ؑ نے تعمیر کیا ہے۔
(2)
مسجد حرام تمام لوگوں کا قبلہ ہے۔
مسجد نبوی کی بنیاد روز اول ہی سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے اور مسجد اقصیٰ پہلی امتوں کا قبلہ رہا ہے۔
ان تین مساجد کے علاوہ کسی بھی جگہ کا تقرب و عبادت کی نیت سے رخ کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ حکم امتناعی صرف مساجد سے متعلق نہیں بلکہ اس میں مزارات و مقابر اور دیگر مقدس مقامات بھی شامل ہیں جیسا کہ حضرت شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ ہم چند لوگ کوہ طور پر جانے کا ارادہ کیے ہوئے تھے۔
اس دوران میں ہماری سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے ملاقات ہوئی اور ہم نے ان سے اپنے ارادے کا اظہار کیا تو انہوں نے ہمارے سامنے رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث بایں الفاظ بیان فرمائی کہ تین مساجد کے علاوہ کسی طرف (تقرب کی نیت سے)
سواری کو استعمال نہیں کرنا چاہیے، یعنی باقاعدہ سفر کا اہتمام نہیں کرنا چاہیے:
ان میں ایک مسجد حرام، دوسری مسجد مدینہ اور تیسری مسجد اقصیٰ ہے۔
(مسندأحمد: 93/3)
حضرت قزعہ بن یحییٰ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے عرض کیا کہ میں جبل طور پر جانا چاہتا ہوں۔
انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا فرمان ذکر کیا کہ مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ کہیں بھی (عبادت کی نیت سے)
قصداً سفر کرنا منع ہے۔
لہذا تم جبل طور پر جانے کا ارادہ ترک کر دو۔
(مجمع الزوائد: 4/4)
سیدنا ابو بصرہ غفاری ؓ کی حدیث ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔
ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ تین مساجد (اور مسجد قباء)
کے علاوہ کسی اور جگہ عبادت یا زیارت کی نیت سے جانا منع ہے اور اس نہی کو مساجد سے خاص کرنا بھی صحیح نہیں کیونکہ جبل طور کوئی مسجد نہیں بلکہ ایک مقام ہے جہاں حضرت موسیٰ ؑ کو اپنے رب سے کلام کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا، البتہ اپنے کسی عزیز سے ملاقات یا حصول علم کے لیے رخت سفر باندھنا اس نہی کے تحت نہیں آتا، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
کسی بھی مسجد یا مکان یا دیگر کسی جگہ کا سفر اس نیت سے نہ کیا جائے کہ ان مساجد و مکانات کی زیارت رضائے الٰہی کا باعث ہے، البتہ یہ تین مساجد یہ مقام رکھتی ہیں جن کی طرف اہتمام سے سفر کیا جا سکتا ہے، ہاں! کسی کی ملاقات یا تحصیل علم کے لیے سفر کرنا اس ممانعت میں داخل نہیں، کیونکہ یہ سفر کسی مکان یا مدرسے کی عمارت کے لیے نہیں کیا جاتا بلکہ مکان کے مکین کی ملاقات اور مدرسے میں تحصیل علم کے لیے کیا جاتا ہے۔
(فتح الباري: 86/3) (3)
واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی پہلی حدیث کو انتہائی اختصار سے بیان کیا ہے۔
چونکہ اس کے متن کا آخری حصہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی حدیث جیسا تھا، اس لیے اسے ذکر نہیں کیا۔
یہ حدیث تفصیل سے آگے ذکر ہو گی۔
(صحیح البخاري، فضل الصلاة في مسجد مکةوالمدینة، حدیث: 1197)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1189