صحيح مسلم
كِتَاب الْأَضَاحِيِّ
قربانی کے احکام و مسائل
5. باب بَيَانِ مَا كَانَ مِنَ النَّهْيِ عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الأَضَاحِيِّ بَعْدَ ثَلاَثٍ فِي أَوَّلِ الإِسْلاَمِ وَبَيَانِ نَسْخِهِ وَإِبَاحَتِهِ إِلَى مَتَى شَاءَ:
باب: ابتدائے اسلام میں، تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے ممانعت اور اس کے منسوخ ہونے اور زائد از تین دن کھانے کی حلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 5109
حَدَّثَنَا إِسْحاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ ضَحَّى مِنْكُمْ فَلَا يُصْبِحَنَّ فِي بَيْتِهِ بَعْدَ ثَالِثَةٍ شَيْئًا "، فَلَمَّا كَانَ فِي الْعَامِ الْمُقْبِلِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَفْعَلُ كَمَا فَعَلْنَا عَامَ أَوَّلَ، فَقَالَ: " لَا إِنَّ ذَاكَ عَامٌ كَانَ النَّاسُ فِيهِ بِجَهْدٍ فَأَرَدْتُ أَنْ يَفْشُوَ فِيهِمْ ".
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " تم میں سے جو شخص قربانی کرے تو تین دن کے بعد اس کے گھر میں (اس گوشت میں سے) کوئی چیز نہ رہے۔"جب اگلے سال (میں عید کادن) آیاتو صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا ہم اسی طرح کریں جس طرح پچھلے سال کیاتھا؟آپ نے فرمایا: " نہیں، وہ ایسا سال تھا کہ اس میں لوگ سخت ضرورت مند تھے تو میں نے چاہا کہ (قربانی کا گوشت) ان میں پھیل (کر ہر ایک تک پہنچ) جائے۔"
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جس نے قربانی کی ہے، تیسرے دن کے بعد اس کے گھر میں گوشت کا کوئی ٹکڑا نہ رہے، تو جب اگلا سال آیا، صحابہ کرام نے پوچھا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم پچھلے سال کی طرح کریں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، پچھلے سال تو لوگ مشقت (بھوک) میں مبتلا تھے، تو میں نے چاہا، ان میں گوشت پھیل جائے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 5109 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5109
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
صحابہ کرام نے تین دن سے زائد گوشت کی بندش کے حکم کو ہمیشہ کے لیے دین سمجھا تھا،
اس لیے انہیں یہ کہنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ ہم پچھلے سال کی طرح کریں اور آپ کے جواب سے بھی یہ معلوم ہوا کہ نہی ایک ضرورت اور حاجت کے تحت اس مصلحت کے لیے تھی کہ گوشت سب محتاجوں کو آسانی کے ساتھ مل سکے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5109
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5569
5569. سیدنا سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے تم میں سے قربانی کی ہے وہ تیسرے دن اس حالت میں صبح کرے کہ اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میں سے کچھ بھی باقی نہ ہو جب دوسرا سال آیا تو صحابہ کرام ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم اس سال بھی وہی کریں جو پچھلے سال کیا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”خود کھاؤ، دوسروں کو کھلاؤ اور ذخیرہ بھی کرو کیونکہ پچھلے سال تو لوگ تنگی میں مبتلا تھے میں نے چاہا کہ تم لوگوں کی مشکلات میں ان کا تعاون کرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5569]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ ایام قحط میں غلہ وغیرہ روک کر رکھ لینا گناہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5569
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5569
5569. سیدنا سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے تم میں سے قربانی کی ہے وہ تیسرے دن اس حالت میں صبح کرے کہ اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میں سے کچھ بھی باقی نہ ہو جب دوسرا سال آیا تو صحابہ کرام ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم اس سال بھی وہی کریں جو پچھلے سال کیا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”خود کھاؤ، دوسروں کو کھلاؤ اور ذخیرہ بھی کرو کیونکہ پچھلے سال تو لوگ تنگی میں مبتلا تھے میں نے چاہا کہ تم لوگوں کی مشکلات میں ان کا تعاون کرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5569]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ نہ رکھنے کا سبب لوگوں میں قحط سالی اور ان کا مشقت میں مبتلا ہونا تھا، جب یہ علت ختم ہو گئی تو یہ پابندی بھی اٹھا لی گئی۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:
اللہ کے رسول! جس طرح ہم نے پچھلے سال کیا تھا، اس سال بھی اسی طرح کریں، حالانکہ کسی کام سے نہی کا تقاضا دوام و استمرار اور ہمیشگی ہوتا ہے لیکن صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس بات کو خوب جانتے تھے کہ اس پابندی یا نہی کا ایک خاص سبب تھا جو اب موجود نہیں، اس لیے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی طلب کی۔
(2)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ پابندی صرف ایک سال کے لیے تھی، پھر حجۃ الوداع کے موقع پر ہجرت کے دسویں سال اس پابندی کو اٹھا لیا گیا۔
(فتح الباري: 33/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5569