حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، أَنَّ خَالَهُ أَبَا بُرْدَةَ بْنَ نِيَارٍ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يَذْبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا يَوْمٌ اللَّحْمُ فِيهِ مَكْرُوهٌ وَإِنِّي عَجَّلْتُ نَسِيكَتِي لِأُطْعِمَ أَهْلِي وَجِيرَانِي وَأَهْلَ دَارِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَعِدْ نُسُكًا "، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عِنْدِي عَنَاقَ لَبَنٍ هِيَ خَيْرٌ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ، فَقَالَ: " هِيَ خَيْرُ نَسِيكَتَيْكَ، وَلَا تَجْزِي جَذَعَةٌ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ ".
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1564
´عید کے دن خطبہ کا بیان۔`
شعبی (عامر بن شراحیل) کہتے ہیں کہ ہم سے براء بن عازب رضی اللہ عنہم نے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے پاس بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن خطبہ دیا، تو آپ نے فرمایا: ”اپنے اس دن میں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہم نماز پڑھیں، پھر قربانی کریں، تو جس نے ایسا کیا تو اس نے ہماری سنت کو پا لیا، اور جس نے اس سے پہلے ذبح کر لیا تو وہ محض گوشت ہے جسے وہ اپنے گھر والوں کو پہلے پیش کر رہا ہے“، ابوبردہ ابن نیار (نماز سے پہلے ہی) ذبح کر چکے تھے، تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس ایک سال کا ایک دنبہ ہے، جو دانت والے دنبہ سے بہتر ہے، تو آپ نے فرمایا: ”اسے ہی ذبح کر لو، لیکن تمہارے بعد اور کسی کے لیے یہ کافی نہیں ہو گا۔“ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1564]
1564۔ اردو حاشیہ:
➊ ”کفایت نہ کرے گا“ کیونکہ قربانی کے لیے بکرے، گائے اور اونٹ کا دودانتا (جس کے سامنے کے دو دانت گر چکے ہوں) ہونا ضروری ہے۔ حدیث میں مذکورہ جزعہ (بکرا) دو دانتا، یعنی مسنہ نہیں ہوتا بلکہ اس سے کم عمر ہوتا ہے، لہٰذا یہ کفایت نہیں کرے گا۔ بکرے کے جذعے کی رخصت خاص ابوبردہ رضی اللہ عنہ کے لیے تھی جیسا کہ حدیث میں ہے۔ جبکہ دنبے اور چھترے کا جذعہ جائز ہے، کسی فرد سے اس کی تخصیص نہیں۔ بنابریں جس جانور کی قربانی کرنا بعد والوں کے لیے جائز نہیں، خواہ مجبور ہی کیوں نہ ہوں، وہ بکرے کے جذعے کی قربانی ہے۔ احادیث کے مجموعے سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔
➋ حدیث میں جذعہ سے مراد بکرے کا جذع ہے۔ بھیڑ کا جذع عموماً ایک سال کا ہوتا ہے، جمہور کی یہی رائے ہے۔ بعض نے چھ ماہ کے بھیڑ کے بچے کو بھی جذعہ کہا ہے مگر جمہور کی رائے کے مقابلے میں یہ موقف مرجوح ہے۔ واللہ اعلم۔ اس مسئلے کی تفصیل کے لیے اسی کتاب کی کتاب الضحایا کو دیکھیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1564
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1582
´عیدین کے خطبے میں امام لوگوں کو صدقہ کرنے پر ابھارے۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن نماز کے بعد خطبہ دیا، پھر فرمایا: ”جس نے ہماری (طرح) نماز پڑھی، اور ہماری طرح قربانی کی تو اس نے قربانی کو پا لیا، اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کر دی، تو وہ گوشت کی بکری ہے ۱؎ تو ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی! میں نے تو نماز کے لیے نکلنے سے پہلے ہی ذبح کر دیا، میں نے سمجھا کہ آج کا دن کھانے پینے کا دن ہے، اس لیے میں نے جلدی کر دی، چنانچہ میں نے (خود) کھایا، اور اپنے گھر والوں کو اور پڑوسیوں کو بھی کھلایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو گوشت کی بکری ہوئی“ (اب قربانی کے طور پر دوسری کرو) تو انہوں نے کہا: میرے پاس ایک سال کا ایک دنبہ ہے، جو گوشت کی دو بکریوں سے (بھی) اچھا ہے، تو کیا وہ میری طرف سے کافی ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، مگر تمہارے بعد وہ کسی کے لیے کافی نہیں ہو گا۔“ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1582]
1582۔ اردو حاشیہ: تفصیل کے لیے دیکھیے: حدیث نمبر1564۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1582
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4399
´امام سے پہلے قربانی کے جانور کے ذبح کرنے کا بیان۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی کے دن کھڑے ہو کر فرمایا: ”جس نے ہمارے قبلے کی طرف رخ کیا، ہماری جیسی نماز پڑھی اور قربانی کی تو وہ جب تک نماز نہ پڑھ لے ذبح نہ کرے۔ یہ سن کر میرے ماموں کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے قربانی میں جلدی کر دی تاکہ میں اپنے بال بچوں اور گھر والوں - یا اپنے گھر والوں اور پڑوسیوں - کو کھلا سکوں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دوبارہ قربانی کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4399]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ جس شخص نے قربانی کا التزام کیا ہو اگر وہ قربانی اس سے ضائع ہوجائے بایں طور کہ وہ نماز عید سے پہلے قربانی کردے، یا قر بانی کا جانور مرجائے، یا اسی طر ح کا کوئی مسئلہ بن جائے تو اس کے بدلے اس پر دوسری قربانی واجب اور ضروری ہوگی۔ بشرطیکہ وہ قربانی کر نے کی طاقت رکھتا ہو۔ اگروہ شخص دوسری قربانی کی استطا عت ہی نہیں رکھتا تو اس پر قربانی کرنا واجب نہیں ہے کیو نکہ ارشاد باری ہے: ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ:286/2) ”اللہ کسی نفس کو نہیں تکلیف دیتا مگر اس کی وسعت کے مطابق ہی“ اسی طر ح یہ بھی ارشاد ربانی ہے: ﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ (التغابن:64/16) ”اللہ تعالیٰ سے ڈر و جتنی طاقت رکھتے ہو۔“ یا د رہے طاقت اور وسعت کے باوجو د اگر کوئی قربانی نہیں کرتا وہ گناہ گار ہے۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ احکام و مسائل میں مرجع صرف نبی ﷺ کی ذات مبارکہ ہے یہ حیثیت آپ ہی کی ہے کہ افراد امت میں سے کسی کو، کسی حکم کے ذریعے سے خاص کر دیں اور دوسرے لو گوں کو روک دیں جیسا کہ آپ نے حضرت براء بن عازب کے ماموں حضرت ابو بردہ بن نیار کے ساتھ کیا۔
(3) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہو تا ہے کہ نماز عید کی ادائیگی سے پہلے قربانی کرنا قطعی طور پر ناجائز ہے، خواہ نیت نیکی اور ثوا ب کمانے ہی کی ہو جیسا کہ حضرت ابو بردہ ؓ کی نیت اپنے اہل و عیال اور محلے دار (غریب) ہمسایوں کو گوشت کھلانے کی تھی۔
(4) حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ امام کو چاہیے خطبہ عید میں قربانی سے متعلق احکام و مسائل بیان کرے۔
(5) یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ شارع ؑ کا ایک شخص کو خطاب تمام لوگوں کے لیے خطاب ہو تا ہے،لہٰذا دیگر لوگ بھی اس حکم کے مکلف اور پابند ہوتے ہیں حضرت ابو بردہ ؓ کو بکری کا بچہ ذبح کرنے کی اجازت دی تو ساتھ ہی یہ بھی بیا ن فرما دیا کہ تیرے بعد اورکسی کے لیے، قربانی میں، اس عمر کا بکری کا بچہ کفایت نہیں کرے گا۔ اگر نبی ﷺ یہ الفاظ نہ فرماتے تو پھر ہرشخص کے لیے یہ اجازت ہوتی۔
(6) یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نیک نیتی سے کیا جانے والا صالح عمل بھی اس وقت تک اللہ کے ہاں صحیح اور قابل قبول نہیں ہوسکتا جب تک وہ شریعت مطہرہ کے مطابق سرانجام نہ د یا جائے۔
(7) اس حدیث میں یہ ذکر تو نہیں کہ امام سے پہلے قربانی نہیں کرنی چاہیے لیکن چونکہ اس دور میں نبی ﷺ نماز عید کے بعد سب لو گوں کے سامنے وہیں قر بانی کردیتے تھے۔ باقی لوگ بعد میں کرتے تھے، لہٰذ ا کہا جا سکتا ہے کہ امام کے بعد قربانی کرنی چاہیے لیکن اگر امام قربانی نہ کرے یا وہ عید گاہ میں خطبہ کے فورا بعد نہ کرے تو لوگوں پر کوئی ایسی پابندی نہیں کہ وہ لازما امام صاحب سے بعد ہی کریں، البتہ نماز عید سے پہلے قطعا نہیں ہونی چاہیے۔ امام مالک رحمہ اللہ تو ایسے امام کی امامت عید ہی درست نہیں سمجھتے جو قربانی نہ کرے، نیز ان کے نزدیک امام کو قربانی عید گاہ میں سب سے پہلے کرنی چاہیے۔ خیر امام مالک رحمہ اللہ کی رائے اور اجتہاد ہے جس سے اتفاق ضروری نہیں۔
(8) ”اچھی قربانی ہوگی“ کیونکہ وہ بروقت ہوئی اور قبول ہوئی، بخلاف پہلی قربانی کے کہ وہ وقت سے پہلے ذبح ہونےکی وجہ سے قبولیت سے محرومی رہی۔
(9) ”کفایت نہیں کرے گا“ رسول اللہ ﷺ کے مذکورہ الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا مقصود یہ تھا کہ تیرے جیسا لا چار شخص بھی مثلا: جو غلطی سے قربانی بے وقت ذبح کر چکا ہو یا اس کی قربانی کا جانور مر گیا ہو، یا گم ہو گیا ہو اور وہ مزید خریدنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو، تو بکری کا جذعہ ذبح نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین نے ظاہر کا خیا ل رکھتے ہوئے اب کسی کو بھی، خواہ وہ معذور و مجبور ہی ہو، جذعہ (بکرا) قربان کرنے کی اجازت نہیں دی۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4399
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5069
حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میرے ماموں ابو بردہ رضی اللہ تعالی عنہ نے نماز سے پہلے قربانی کر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ گوشت کی بکری ہے۔“ اس نے عرض کی، اے اللہ کے رسولﷺ! میرے ہاں جذعہ بکری ہے، آپﷺ نے فرمایا: ”تم اس کو قربانی کر لو، تیرے سوا کسی کے لیے ٹھیک نہیں ہو گی۔“ پھر آپﷺ نے فرمایا: ”جس نے نماز سے پہلے قربانی کر لی، اس نے تو بس اپنے کھانے کے لیے ذبح کی ہے اور جس نے نماز کے بعد ذبح کی،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5069]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
تِلكَ شَاةُ لَحم:
یہ گوشت کے لیے بکری ہے،
یعنی یہ قربانی نہیں ہے،
لیکن اس کو کھا سکتے ہو۔
(2)
جذعة:
پانچ چھ ماہ کا جانور یا بکری اور بقول امام شافعی ایک سال کی بکری۔
جذعة:
بکری جو دوسرے سال میں داخل ہو،
گائے جو تیسرے میں داخل ہو،
اونٹ جو پانچویں سال میں داخل ہو،
بھیڑ بقول جمہور جو پورے سال کی ہو لیکن بقول بعض چھ ماہ آٹھ ماہ اور دس ماہ۔
(منة المنھم ج 3،
ص319)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5069
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5072
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے ہماری طرح نماز پڑھی اور ہمارے قبلہ کا رخ کیا اور ہماری طرح قربانی کی، وہ نماز پڑھنے سے پہلے قربانی ذبح نہ کرے۔" تو میرے ماموں نے کہا، اے اللہ کے رسول ﷺ! میں اپنے بیٹے کی طرف سے قربانی کر چکا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: "یہ تو ایسی چیز ہے، جو تو نے اپنے گھر والوں کے لیے عجلت سے کرلی ہے، اس نے کہا: میرے پاس ایک بکری ہے، جو دو بکریوں سے بہتر ہے۔... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5072]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
قد نسكت عن ابن لي:
یعنی میں نے اپنے گھر والوں کی طرف سے یا ان کے کھانے کے لیے ذبح کرلی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5072
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5073
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج کے دن سب سے پہلے ہم نماز پڑھیں گے، پھر واپس جا کر قربانی کریں گے، جس نے اس طرح کیا، اس نے ہمارے طریقہ پر عمل کر لیا اور جس نے ذبح کر لیا ہے، وہ تو گوشت ہے، جو اس نے پہلے اپنے گھر والوں کو پیش کر دیا ہے، اس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“ اور ابوبردہ بن نیار رضی اللہ تعالی عنہ قربانی کر چکے تھے، انہوں نے کہا: میرے پاس جَذَعة ہے جو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5073]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
مسنة:
دودانتا،
جس کے دودانت گر چکے ہوں اور بقول احناف ایک سال کا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5073
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 955
955. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے عید الاضحیٰ کے دن نماز کے بعد ہمارے سامنے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”جو شخص ہمارے جیسی نماز پڑھے اور ہمارے جیسی قربانی کرے تو اس کا فریضہ پورا ہو گیا اور جس نے نماز سے قبل قربانی کی تو وہ نماز سے پہلے ہونے کی بنا پر قربانی نہیں ہے۔“ اس پر حضرت براء ؓ کے ماموں ابوبردہ بن نیار ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی بکری نماز سے پہلے ہی ذبح کر دی ہے کیونکہ میرے علم میں تھا کہ آج کھانے پینے کا دن ہے، اس لیے میری خواہش تھی کہ سب سے پہلے میرے ہی گھر میں بکری ذبح کی جائے، اس بنا پر میں نے اپنی بکری ذبح کر دی اور نماز کے لیے آنے سے قبل کچھ ناشتہ بھی کر لیا، آپ نے فرمایا: ”تمہاری بکری تو صرف گوشت کی بکری ٹھہری (قربانی نہیں ہے)۔“ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے پاس بھیڑ کا ایک سالہ بچہ ہے جو مجھے دو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:955]
حدیث حاشیہ:
کیونکہ قربانی میں مسنہ بکری ضروری ہے جو دوسرے سال میں ہو اور دانت نکال چکی ہو۔
بغیر دانت نکالے بکری قربانی کے لائق نہیں ہوتی۔
علامہ شوکانی رحمہ اللہ نیل الاوطار میں اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
قوله المسنة قال العلماءالمسنة ھی الثنیة من کل شيئ من الإبل والبقر والغنم فما فوقھا الخ۔
مسجد میں ہے کہ الثنیة جمعه ثنایا وھي أسنان مقدم الفم ثنتان من فوق وثنتان من أسفل۔
یعنی ثنیہ سامنے کے اوپر نیچے کے دانت کو کہتے ہیں۔
اس لحاظ سے حدیث کے یہ معنی ہوئے کہ دانت والے جانوروں کی قربانی کرو اس سے لازم یہی نتیجہ نکلا کہ کھیرے کی قربانی نہ کرو اس لیے ایک روایت میں ہے:
ینفی من الضحایا التي لم تسن۔
قربانی کے جانوروں میں سے وہ جانور نکال ڈالا جائے گا جس کے دانت نہ اگے ہوں گے۔
اگر مجبوری کی حالت میں مسنہ نہ ملے مشکل ودشوار ہو تو جذعۃ من الضان بھی کر سکتے ہیں جیسا کہ اسی حدیث کے آخر میں آپ ﷺ نے فرمایا:
إلاأن یعسر علیکم فتذبحوا جذعة من الضأن۔
لغات الحدیث میں لکھا ہے پانچویں برس میں جو اونٹ لگا ہواور دوسرے برس میں جو گائے بکری لگی ہو اور چوتھے برس میں جو گھوڑا لگا ہو۔
بعضوں نے کہا جو گائے تیسرے برس میں لگی ہو اور جو بھیڑ ایک برس کی ہو گئی جیسا کہ حدیث میں ہے۔
ضحینا من رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم بالجذع من الضأن والثني من المعز۔
ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک برس کی بھیڑ اور دو برس کی (جو تیسرے میں لگی ہو)
بکری قربانی کی۔
اور تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ بکری ثنی وہ ہے جو دو سال گزار چکی ہو اور جذعہ اسے کہتے ہیں جو سال بھر کا ہو گیا ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 955
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 965
965. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”سب سے پہلی چیز جس سے ہم آج کے دن کا آغاز کریں وہ یہ ہے کہ ہم نماز پڑھیں، پھر گھروں کو واپس ہوں اور قربانی کریں، جس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کو پا لیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کی تو وہ صرف گوشت ہے جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے تیار کیا، قربانی نہیں ہے۔“ انصار کے ایک آدمی نے کہا جسے ابوبردہ بن نیار کہا جاتا تھا: اللہ کے رسول! میں تو قربانی کا جانور ذبح کر چکا ہوں، اب میرے پاس ایک سالہ بکری کا ایک بچہ ہے جو دو دانتے سے بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اسے اس کی جگہ ذبح کر دو مگر تمہارے بعد کسی دوسرے کے لیے کافی نہیں ہو گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:965]
حدیث حاشیہ:
روایت میں لفظ أول ما نبدأ في یومنا ھذا سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیونکہ جب پہلا کام نماز ہوا تو معلوم ہوا کہ نماز خطبے سے پہلے پڑھنی چاہیے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 965
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5556
5556. سیدنا براء بن عاذب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میرے ماموں ابو بردہ بن نیار نےنماز سے پہلے قربانی کر لی تو اسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہاری بکری صرف گوشت کی بکری ہے۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول!میرے پاس بکری کا یکسالہ گھریلو بچہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم اسے ہی ذبح کر لو لیکن تمہارے بعد کسی اور کے لیے جائز نہیں ہوگا۔“ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”جس نے نماز سے پہلے(اپنی قربانی کو) ذبح کیا، اس نے صرف اپنی ذات کے لیے ذبح کیا ہے اور جس نے نماز عید کی بعد قربانی ذبح کی، اس کی قربانی پوری ہو گئی اور جس نے نماز عید کے بعد قربانی ذبح کی، اس کی قربانی پوری ہو گئی اور اس نے مسلمانوں کے طریقے کو پا لیا۔“ عبیدہ نے شعبی اور ابراہیم سے روایت کرنے میں خالد بن عبداللہ کی متابعت کی ہے۔ اس کی وکیع نے بھی متابعت کی ہے وہ حریث سے وہ شعبی سے بیان کرتے ہیں۔ عاصم اور داود نے شعبی سے یہ الفاظ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5556]
حدیث حاشیہ:
جملہ روایتوں کا مقصد ایک ہی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5556
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5563
5563. سیدنا براء بن عارب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی پھر فرمایا: ”جس نے ہماری طرح نماز پڑھی اور ہمارے قبلے کی طرف متوجہ ہوا وہ قربانی نہ کرے حتیٰ کہ وہ نماز سے فارغ ہو جائے۔“ ابو بردہ بن نیار ؓ نے کھڑے ہوکر عرض کی: اللہ کے رسول! میں تو قربانی کر بیٹھا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ کام تو نے قبل از وقت کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا: اب میرے پاس بکری کا یکسالہ بچہ ہے جو وہ دو دانتہ دو بکریوں سے بہتر ہے کیا میں اسے ذبح کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں لیکن تمہارے بعد یہ اجازت کسی اور کے لیے نہیں ہوگی۔“ (راوئ حدیث) سیدنا عامر نے کہا: یہ ان کی بہترین قربانی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5563]
حدیث حاشیہ:
تعجب ہے ان فقہاء احناف پر جو ان واضح احادیث کے ہوتے ہوئے لوگوں کو اجازت دیں کہ اپنی قربانیاں صبح سویرے فجر کے وقت جنگلوں میں یا ایسی جگہ جہاں نماز عید نہ پڑھی جاتی ہو وہاں ذبح کر کے لے آویں ان کو یاد رکھنا چاہیئے کہ وہ لوگوں کی قربانیاں ضائع کر کے ان کا بوجھ اپنی گردنوں پر رکھے ہوئے ہیں۔
ھداھم اللہ آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5563
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 983
983. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ عیدالاضحیٰ کے دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز کے بعد خطبہ دیا، آپ نے فرمایا: ”جس نے ہمارے جیسی نماز پڑھی اور ہماری طرح قربانی کی تو اس نے ہمارے طریقہ قربانی کو حاصل کر لیا۔ اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تو یہ ایک گوشت کی بکری ہے۔“ حضرت ابوبردہ بن نیار ؓ اٹھے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں نے نماز کے لیے نکلنے سے پہلے قربانی کر دی ہے اور میں نے سوچا کہ آج کا دن کھانے پینے کا دن ہے اس لیے میں نے جلدی کی، خود کھایا، نیز اہل خانہ اور ہمسایوں کو کھلایا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ تو گوشت کی بکری ہے (قربانی نہیں)۔“ میں نے عرض کیا: میرے پاس ایک ایک سالہ بکری کا بچہ ہے جو دو بکریوں کے گوشت سے بہتر ہے۔ کیا وہ مجھے قربانی سے کافی ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں! لیکن تیرے بعد کسی کے لیے کافی نہیں ہو گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:983]
حدیث حاشیہ:
اس سے یہ ثابت فرمایا کہ امام اور لوگ عید کے خطبہ میں مسائل کی بات کر سکتے ہیں اور آگے کے فقروں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خطبہ کی حالت میں اگر امام سے کوئی شخص مسئلہ پوچھے تو جواب دے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 983
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5545
5545. سیدنا براء ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: پہلا کام جس سے ہم عید الاضحیٰ کے دن کی ابتدا کریں گے وہ نماز ہے پھر واپس آ کر قربانی کریں گے جس نے ایسا کیا اس نے ہمارے طریقے کے مطابق عمل کیا لیکن جو شخص اس سے پہلے قربانی کرے گا اس کی حثیثیت صرف گوشت کی ہے جو اس نے اپنے اہل کانہ کے لیے پہلے تیار کرلیا ہے یہ کسی صورت میں قربانی نہیں ہوگی۔ یہ سن کر سیدنا ابو درداء بن نیار ؓ کھڑے ہوئے، انہوں نے نماز عید سے پہلے قربانی زبح کر لی تھی، کہنے لگے: اب تو میرے پاس بکری کا ایک بچہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہی ذبح کر دو لیکن تمہارے بعد کسی اور لے لیے یہ کافی نہیں ہوگا۔“ ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے نماز کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہو گئی اور اس نے مسلمانوں کے طریقے کو بھی پا لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5545]
حدیث حاشیہ:
سنت سے اس حدیث میں طریق مراد ہے۔
حافظ نے کہا کہ امام بخاری کا مطلب یہ ہے کہ لفظ سنت یہاں طریق کے معنی میں ہے مگر طریق واجب اور سنت دونوں کو شامل ہے۔
جب وجوب کی کوئی دلیل نہیں تو معلوم ہوا کہ طریق سے سنت اصطلاحی مراد ہے، وھو المطلوب۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5545
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 968
968. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے قربانی کے دن ہمیں خطبہ دیا تو فرمایا: ”سب سے پہلے ہم جس کام سے اس دن کا آغاز کرتے ہیں وہ نماز پڑھنا ہے، پھر واپس جا کر قربانی کرنا۔ جس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کو پا لیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کر دی تو وہ گوشت ہے جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے جلدی تیار کر لیا ہے، قربانی نہیں ہے۔“ میرے ماموں حضرت ابوبردہ بن نیار کھڑے ہوئے اور کہا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی قربانی کو قبل از نماز ذبح کر دیا ہے اور میرے پاس بکری کا ایک سالہ بچہ ہے جو دو دانتے سے بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اسے پہلے کی جگہ پر کر دے۔۔ یا فرمایا۔۔ اس کی جگہ ذبح کر دے لیکن تیرے بعد کسی دوسرے کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہو گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:968]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس دن پہلے جو کام ہم کرتے ہیں وہ نماز ہے۔
اس سے یہ نکلا کہ عید کی نماز صبح سویرے پڑھنا چاہیے کیونکہ جو کوئی دیر کر کے پڑھے گا اور وہ نماز سے پہلے دوسرے کام کرے گا تو پہلا کام اس کا اس دن نماز نہ ہوگا۔
یہ استنباط حضرت امام بخاری ؒ کی گہر ی بصیرت کی دلیل ہے۔
(رحمه اللہ)
اس صورت میں آپ نے خاص ان ہی ابو بردہ بن نیار نامی صحابی کے لیے جذعہ کی قربانی کی اجازت بخشی، ساتھ ہی یہ بھی فر مادیا کہ تیرے بعد یہ کسی اور کے لیے کافی نہ ہوگی۔
یہاں جذعہ سے ایک سال کی بکری مراد ہے لفظ جذعہ ایک سال کی بھیڑ بکری پر بولا جاتا ہے۔
حضرت علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں:
الجذعة من الضأن ماله سنة تامة ھذا ھو الأشھر عن أھل اللغة وجمهور أھل العلم من غیر ھم۔
یعنی جذعہ وہ ہے جس کی عمر پر پورا ایک سال گزر چکا ہو۔
اہل سنت اور جمہور اہل علم سے یہی منقول ہے۔
بعض چھ اور آٹھ اور دس ماہ کی بکری پر بھی لفظ جذعہ بولتے ہیں۔
دیوبندی تراجم بخاری میں اس مقام پر جگہ جگہ جذعہ کا ترجمہ چار مہینے کی بکری کا کیا گیا ہے۔
تفہیم البخاری میں ایک جگہ نہیں بلکہ متعدد مقامات پر چار مہینے کی بکری لکھا ہوا موجود ہے۔
علامہ شوکانی کی تصریح بالا کے مطابق یہ غلط ہے۔
اسی لیے اہل حدیث تراجم بخاری میں ہر جگہ ایک سال کی بکری کے ساتھ ترجمہ کیا گیا ہے۔
لفظ جذعہ کا اطلاق مسلک حنفی میں بھی چھ ماہ کی بکری پر کیا گیاہے دیکھو تسہیل القاری، پ: 4 ص: 400 مگر چار ماہ کی بکری پر لفظ جذعہ یہ خود مسلک حنفی کے بھی خلاف ہے۔
قسطلانی شرح بخاری، ص: 117 مطبوعہ نول کشور میں ہے (جذعة من المعز ذات سنة)
یعنی جذعہ ایک سال کی بکری کو کہا جاتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 968
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 976
976. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ عیدالاضحیٰ کے دن نکلے اور دو رکعت نماز عید ادا کی، پھر ہماری طرف منہ کر کے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”ہماری اس دن سب سے پہلی عبادت یہ ہونی چاہئے کہ ہم نماز پڑھیں، پھر واپس ہوں اور قربانی کریں۔ جس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کے مطابق کام کیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کر دی تو وہ گوشت ہے جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے تیار کیا ہے، قربانی نہیں ہے۔“اس دوران میں ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! میں نے تو (نماز سے پہلے قربانی) ذبح کر دی ہے اور اب میرے پاس ایک سالہ بھیڑ کا بچہ ہے جو دو دانتے سے کہیں بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا: ”تم اسی کو ذبح کر دو لیکن تمہارے بعد کسی اور کے لیے کافی نہیں ہو گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:976]
حدیث حاشیہ:
سوال کرنے والے ابو بردہ بن نیار انصاری ؓ تھے۔
حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 976
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:951
951. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا: ”سب سے پہلی چیز جس سے ہم آج کے دن کا آغاز کریں وہ ہمارا نماز پڑھنا ہے، پھر گھر واپس جا کر قربانی کرنا ہے، جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کو پا لیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:951]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عیدین کے موقع پر سب سے پہلے نماز ادا کی جائے پھر قربانی کی جائے، حالانکہ قربانی کا تعلق عیدالاضحیٰ سے ہے۔
اس کا جواب علامہ زین بن منیر ؒ نے بایں الفاظ دیا ہے کہ اس دن اصل کام تو نماز پڑھنا ہے اور خطبہ دینا، قربانی کرنا اور دیگر اذکار میں مصروف ہونا ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔
نماز کی ادائیگی دونوں عیدوں میں قدر مشترک ہے، اس لیے باب دونوں عیدوں کے بارے میں باندھا۔
(فتح الباري: 575/2) (2)
امام بخاری ؒ نے نماز عید کا طریقہ نہیں بتایا۔
ممکن ہے کہ جن احادیث میں طریقہ بیان ہوا ہے وہ آپ کی شرائط کے مطابق نہ ہوں، چنانچہ احادیث میں رسول اللہ ﷺ کے قولی اور عملی دونوں طریقے بیان ہوئے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عید الفطر کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہی جائیں اور قراءت ان تکبیرات کے بعد کی جائے، (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1151)
نیز حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز عیدین کی پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قراءت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔
(جامع الترمذي، العیدین، حدیث: 538)
نیز احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عیدین کی نماز میں ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى﴾ اور ﴿هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ﴾ کی قراءت کرتے تھے۔
(صحیح مسلم، الجمعة، حدیث: 2028 (878)
بعض اوقات رسول اللہ ﷺ عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی نماز میں ﴿ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ﴾ اور ﴿اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ﴾ کی قراءت فرماتے تھے۔
(صحیح مسلم، صلاة العیدین، حدیث: 2059 (891)
ایک روایت میں ہے کہ ہر دو تکبیروں کے درمیان ایک کلمہ کی مقدار کے برابر فاصلہ ہونا چاہیے۔
(مجمع الزوائد: 205/2)
لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 951
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:955
955. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے عید الاضحیٰ کے دن نماز کے بعد ہمارے سامنے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”جو شخص ہمارے جیسی نماز پڑھے اور ہمارے جیسی قربانی کرے تو اس کا فریضہ پورا ہو گیا اور جس نے نماز سے قبل قربانی کی تو وہ نماز سے پہلے ہونے کی بنا پر قربانی نہیں ہے۔“ اس پر حضرت براء ؓ کے ماموں ابوبردہ بن نیار ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی بکری نماز سے پہلے ہی ذبح کر دی ہے کیونکہ میرے علم میں تھا کہ آج کھانے پینے کا دن ہے، اس لیے میری خواہش تھی کہ سب سے پہلے میرے ہی گھر میں بکری ذبح کی جائے، اس بنا پر میں نے اپنی بکری ذبح کر دی اور نماز کے لیے آنے سے قبل کچھ ناشتہ بھی کر لیا، آپ نے فرمایا: ”تمہاری بکری تو صرف گوشت کی بکری ٹھہری (قربانی نہیں ہے)۔“ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے پاس بھیڑ کا ایک سالہ بچہ ہے جو مجھے دو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:955]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس سے پہلی حدیث میں قبل از وقت ذبح کی گئی قربانی کو کھانے کا ذکر نہیں تھا جبکہ اس روایت میں اس سے ناشتہ کرنے کی صراحت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے صرف قربانی کے متعلق فرمایا کہ یہ غیر معتبر ہے، کیونکہ یہ قبل از وقت کی گئی ہے لیکن اسے تناول کرنے پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا۔
اسی خاموشی سے امام بخاری ؒ نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ عید الاضحیٰ کے دن کھانے پینے کے متعلق کوئی پابندی نہیں ہے، اگرچہ حضرت ابو بردہ بن نیار ؓ سے یہ عمل محض عدم علم کی بنا پر ہوا لیکن آپ نے اسے برقرار رکھا، البتہ قابل اصلاح عمل کی اصلاح فرما دی کہ قربانی دوبارہ کی جائے۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دین کسی کے پاکیزہ جذبات کا نام نہیں بلکہ اس کے لیے منزل من اللہ ہونا ضروری ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ عنوان کا ثبوت اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صرف قربانی دوبارہ ذبح کرنے کا حکم دیا جو اس بات کے جائز ہونے کا ثبوت ہے کہ ذبح شدہ جانور کو پکا کر کھایا جا سکتا ہے۔
لوگ عید سے پہلے کھانا جائز نہیں سمجھتے تھے، آپ نے نماز سے پہلے کھانے پر سکوت فرما کر گویا اس کے جواز کو برقرار رکھا۔
علامہ عینی ؒ نے امام بخاری ؒ کے استدلال کی بایں الفاظ وضاحت کی ہے کہ حضرت ابو بردہ بن نیار نے رسول اللہ ﷺ کے حضور عرض کیا کہ عید کا دن کھانے پینے کا دن ہے، نیز انہوں نے کہا کہ میں نے قبل از نماز ناشتہ بھی کر لیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس عمل پر اسے کوئی ملامت نہیں فرمائی۔
اس سے پتہ چلا کہ نماز سے پہلے کھانا یا ناشتہ کرنا قابل ملامت نہیں ہے۔
(عمدة القاري: 188/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 955
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:965
965. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”سب سے پہلی چیز جس سے ہم آج کے دن کا آغاز کریں وہ یہ ہے کہ ہم نماز پڑھیں، پھر گھروں کو واپس ہوں اور قربانی کریں، جس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کو پا لیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کی تو وہ صرف گوشت ہے جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے تیار کیا، قربانی نہیں ہے۔“ انصار کے ایک آدمی نے کہا جسے ابوبردہ بن نیار کہا جاتا تھا: اللہ کے رسول! میں تو قربانی کا جانور ذبح کر چکا ہوں، اب میرے پاس ایک سالہ بکری کا ایک بچہ ہے جو دو دانتے سے بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اسے اس کی جگہ ذبح کر دو مگر تمہارے بعد کسی دوسرے کے لیے کافی نہیں ہو گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:965]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ ہدایات نماز سے قبل ارشاد فرمائیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے نماز سے پہلے خطبہ دیا ہو گا، چنانچہ بقول ابن بطال امام نسائی ؒ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
(صلاة العيدين قبل الخطبة)
”نماز سے پہلے خطبہ دینا“ حالانکہ حقیقت حال اس کے برعکس ہے کیونکہ اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے نماز پڑھی پھر خطبہ دیتے ہوئے مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے کہ عید کے دن پہلا کام نماز ادا کرنا ہے۔
عرب کے ہاں یہ اسلوب عام ہے کہ ماضی کی جگہ فعل مستقبل کو استعمال کر لیتے ہیں۔
اس موقف کی تائید ایک روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ عیدالاضحیٰ کے دن بقیع (عیدگاہ)
کی طرف گئے، دو رکعت نماز عید ادا کی، پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اس دن ہماری پہلی عبادت یہ ہے کہ ہم نماز پڑھیں، پھر گھر لوٹ کر قربانی کریں۔
(صحیح البخاري، العیدین، حدیث: 976)
اس روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ الفاظ خطبے میں ارشاد فرمائے تھے۔
(2)
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عیدالاضحیٰ کے دن نماز کے بعد ہمیں خطبہ دیا کہ جو شخص ہمارے جیسی نماز پڑھے اور ہمارے جیسی قربانی کرے تو اس کا فریضہ پورا ہو گیا۔
(صحیح البخاري، العیدین، حدیث: 955)
ان حقائق کی روشنی میں اس حدیث سے تقدیم خطبہ کا مسئلہ کشید کرنا محل نظر ہے۔
(فتح الباري: 585/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 965
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:968
968. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے قربانی کے دن ہمیں خطبہ دیا تو فرمایا: ”سب سے پہلے ہم جس کام سے اس دن کا آغاز کرتے ہیں وہ نماز پڑھنا ہے، پھر واپس جا کر قربانی کرنا۔ جس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کو پا لیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کر دی تو وہ گوشت ہے جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے جلدی تیار کر لیا ہے، قربانی نہیں ہے۔“ میرے ماموں حضرت ابوبردہ بن نیار کھڑے ہوئے اور کہا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی قربانی کو قبل از نماز ذبح کر دیا ہے اور میرے پاس بکری کا ایک سالہ بچہ ہے جو دو دانتے سے بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اسے پہلے کی جگہ پر کر دے۔۔ یا فرمایا۔۔ اس کی جگہ ذبح کر دے لیکن تیرے بعد کسی دوسرے کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہو گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:968]
حدیث حاشیہ:
(1)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس دن کے آغاز میں صرف نماز کی تیاری ہو کسی اور چیز میں مصروف نہیں ہونا چاہیے۔
تیاری کے بعد نماز پڑھنے کے لیے جلدی روانہ ہونا چاہیے۔
یہ اہتمام اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ نماز عید کے لیے جلدی کی جائے۔
دوسری مصروفیات کی بنا پر اس میں تاخیر نہ کی جائے۔
(فتح الباري: 589/2) (2)
ان احادیث کا تقاضا ہے کہ نماز عید طلوع آفتاب سے پہلے نہیں پڑھی جا سکتی اور نہ عین طلوع کے وقت اسے پڑھنا چاہیے کیونکہ یہ کراہت کے اوقات ہیں۔
طلوع آفتاب کے بعد جب نوافل پڑھنے کا وقت ہوتا ہے تو نماز عید کے وقت کا آغاز ہو جاتا ہے۔
شارح بخاری ابن بطال ؒ نے اس پر فقہاء کا اجماع نقل کیا ہے۔
(3)
نماز عید کا آخری وقت زوال آفتاب ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ایک مرتبہ زوال آفتاب کے بعد چاند نظر آنے کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا:
”تمام لوگ کل صبح نماز عید پڑھنے کے لیے عیدگاہ پہنچیں۔
“ (سنن ابن ماجة، الصیام، حدیث: 1853)
اگر اس وقت نماز عید پڑھنے کی گنجائش ہوتی تو آپ اسے اگلے دن تک مؤخر نہ کرتے۔
اس کا واضح نتیجہ یہ ہے کہ نماز عید کا آخری وقت زوال آفتاب ہے۔
نماز عید کے متعلق صحابہ و تابعین کا طرز عمل حسب ذیل ہے:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نماز فجر پڑھتے، پھر اسی حالت میں عیدگاہ چلے جاتے۔
حضرت سعید بن مسیب کا بھی یہی طرز عمل تھا۔
حضرت رافع بن خدیج ؓ اپنے بیٹوں سمیت کپڑے وغیرہ پہن کر تیاری کر کے مسجد کی طرف چلے جاتے، نماز فجر پڑھ کر وہیں بیٹھے رہتے، جب آفتاب طلوع ہو جاتا تو چاشت کے دو نفل پڑھ کر عیدگاہ چلے جاتے۔
حضرت عروہ بن زبیر دن چڑھے عیدگاہ جاتے۔
حضرت امام مالک ؒ بھی عید پڑھنے کے لیے اپنے گھر سے دن چڑھے روانہ ہوتے تھے۔
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ جب سورج خوب روشن ہو جائے تو عیدگاہ جانا چاہیے، البتہ عیدالاضحیٰ اس سے کچھ وقت پہلے پڑھ لی جائے۔
(عمدة القاري: 182/5)
نماز عید کے متعلق ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ عیدالفطر اس وقت پڑھتے تھے جب سورج دو نیزوں کے برابر بلند ہو جاتا اور نماز عیدالاضحیٰ اس وقت پڑھتے جب سورج ایک نیزے کے برابر ہو جاتا۔
(التلخیص الحبیر: 172/2، رقم: 685)
لیکن اس کی سند میں معلیٰ بن ہلال نامی راوی کذاب ہے، اس لیے یہ روایت قابل حجت نہیں۔
(تمام المنة، ص: 347) (4)
ان روایات و آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عید پڑھنے کا وقت طلوع آفتاب کے بعد ہے اور وہ چاشت کا وقت ہے اور چاشت کا وقت سورج کے ایک نیزہ بلند ہونے پر ہو جاتا ہے، اس میں بلاوجہ تاخیر درست نہیں۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس تاخیر کا انکار کرتے تھے۔
عیدالاضحیٰ کے دن چونکہ قربانی کرنی ہوتی ہے، اس لیے اسے کچھ وقت پہلے پڑھنے میں چنداں حرج نہیں۔
آج کل چونکہ گھڑیوں کا دور ہے، اس لیے ہمیں دور حاضر کے مطابق گھڑیوں کا حساب لگانا ہو گا۔
محکمۂ موسمیات کے مطابق طلوع فجر سے لے کر طلوع آفتاب تک تقریبا ڈیڑھ گھنٹے کا وقفہ ہوتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر صبح کی اذان پانچ بجے ہو تو ساڑھے چھ بجے سورج طلوع ہو گا۔
چاشت کا وقت طلوع آفتاب کے تقریبا نصف گھنٹے بعد شروع ہو جاتا ہے۔
ضرورت کے پیش نظر اس میں چند منٹ تک مزید تاخیر کی جا سکتی ہے، اس لیے حضرت عبداللہ بن بسر ؓ کی تصریحات کے مطابق نماز عید کا وقت چاشت کے وقت ہوتا ہے، اس لیے جہاں پانچ بجے اذان فجر ہو گی وہاں نماز عید کا وقت سات، ساڑھے سات بجے شروع ہو جائے گا۔
ہمیں چاہیے کہ اس کی تیاری پہلے سے کر رکھیں۔
اگر طلوع آفتاب کے بعد تیاری کا آغاز کیا تو نماز عید کے لیے وقت فضیلت نہیں مل سکے گا، البتہ جواز کا وقت زوال آفتاب تک ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 968
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:976
976. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ عیدالاضحیٰ کے دن نکلے اور دو رکعت نماز عید ادا کی، پھر ہماری طرف منہ کر کے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”ہماری اس دن سب سے پہلی عبادت یہ ہونی چاہئے کہ ہم نماز پڑھیں، پھر واپس ہوں اور قربانی کریں۔ جس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کے مطابق کام کیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کر دی تو وہ گوشت ہے جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے تیار کیا ہے، قربانی نہیں ہے۔“اس دوران میں ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! میں نے تو (نماز سے پہلے قربانی) ذبح کر دی ہے اور اب میرے پاس ایک سالہ بھیڑ کا بچہ ہے جو دو دانتے سے کہیں بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا: ”تم اسی کو ذبح کر دو لیکن تمہارے بعد کسی اور کے لیے کافی نہیں ہو گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:976]
حدیث حاشیہ:
(1)
”پھر ہماری طرف منہ کر کے کھڑے ہوئے“ ان الفاظ سے امام بخاری ؒ کا قائم کردہ عنوان ثابت ہوتا ہے۔
(2)
ایک روایت میں ہے کہ نماز کے بعد لوگ صفوں میں بیٹھے رہتے اور رسول اللہ ﷺ ان کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوتے اور خطبہ دیتے۔
(صحیح البخاري، العیدین، حدیث: 956)
ابن حبان کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جہاں نماز پڑھتے وہیں لوگوں کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جاتے۔
(فتح الباري: 579/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 976
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5545
5545. سیدنا براء ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: پہلا کام جس سے ہم عید الاضحیٰ کے دن کی ابتدا کریں گے وہ نماز ہے پھر واپس آ کر قربانی کریں گے جس نے ایسا کیا اس نے ہمارے طریقے کے مطابق عمل کیا لیکن جو شخص اس سے پہلے قربانی کرے گا اس کی حثیثیت صرف گوشت کی ہے جو اس نے اپنے اہل کانہ کے لیے پہلے تیار کرلیا ہے یہ کسی صورت میں قربانی نہیں ہوگی۔ یہ سن کر سیدنا ابو درداء بن نیار ؓ کھڑے ہوئے، انہوں نے نماز عید سے پہلے قربانی زبح کر لی تھی، کہنے لگے: اب تو میرے پاس بکری کا ایک بچہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہی ذبح کر دو لیکن تمہارے بعد کسی اور لے لیے یہ کافی نہیں ہوگا۔“ ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے نماز کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہو گئی اور اس نے مسلمانوں کے طریقے کو بھی پا لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5545]
حدیث حاشیہ:
(1)
قربانی کی مشروعیت میں کسی کو اختلاف نہیں ہے لیکن اسے واجب قرار دینا محل نظر ہے۔
(2)
اس حدیث میں سنت سے مراد اصطلاحی سنت نہیں جو واجب کے مقابلے میں ہوتی ہے بلکہ یہ طریقہ کے معنی میں ہے جو سنت اور واجب دونوں کو شامل ہے۔
جب وجوب کی کوئی دلیل نہیں تو معلوم ہوا کہ سنت سے مراد سنت فقہی ہے۔
بعض حضرات نے اس لفظ سے وجوب پر استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ کو ذبح کرنے کا حکم دیا تھا، لیکن یہ حکم وجوب کے لیے نہیں بلکہ مشروع قربانی کی شرط بیان کرنے کے لیے ہے کہ اسے نماز کے بعد ذبح کرو جیسا کہ اگر کوئی شخص سورج طلوع ہونے سے پہلے چاشت کی نماز پڑھ لے تو اسے کہا جائے گا کہ جب سورج طلوع ہو تو اپنی نماز کو دوبارہ ادا کرو۔
(فتح الباري: 6/10)
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5545
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5560
5560. سیدنا براء ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا کہ میں نے نبی ﷺ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا: بلاشبہ ہم آج کے دن کی ابتدا نماز سے کریں گے، پھر واپس آ کر قربانی کرنے کا فریضہ سر انجام دیں گے۔ جو شخص اس طرح کرے گا وہ ہمارے طریقے کو پالے گا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تو وہ ایسا گوشت ہے جسے اس نے اپنے اہل خانہ کے لیے تیار کیا ہے وہ قربانی کسی درجے میں بھی نہیں۔ سیدنا ابو بردہ ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں نے تو نماز سے پہلے قربانی کر لی ہے البتہ میرے پاس ابھی یکسالہ بکری کا بچہ ہے اور وہ دو دانتے جانور سے بہتر ہے آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم اس کے بدلے میں اسی یکسالہ بچے کی قربانی کرو لیکن تمہارے بعد یہ کسی کے لیے جائز نہ ہوگا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5560]
حدیث حاشیہ:
(1)
کچھ اہل علم کا موقف ہے کہ قربانی، جب امام وقت ذبح کرے اس کے بعد عام لوگوں کو ذبح کرنی چاہیے لیکن یہ موقف محل نظر ہے کیونکہ اگر امام نے قربانی نہ کرنی ہو یا امام غلطی سے نماز سے پہلے قربانی کر دے تو اس صورت میں کیا کرنا ہو گا، لہذا قربانی کرنے کا مدار نمازِ عید کو مقرر کرنا چاہیے کہ نماز سے پہلے قربانی جائز نہیں بلکہ نماز کے بعد ہونی چاہیے، خواہ امام قربانی کرے یا نہ کرے۔
(2)
قربانی کرنے کے وقت میں امام اور لوگ سب برابر ہیں، بہرحال قربانی کا وقت نماز عید کے بعد ہے پہلے نہیں اور اگر کوئی نماز عید سے پہلے قربانی کر لیتا ہے تو اس کی قربانی نہیں ہو گی بلکہ اسے دوبارہ کرنی ہو گی جیسا کہ آئندہ احادیث میں اس کی وضاحت ہو گی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5560
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5563
5563. سیدنا براء بن عارب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی پھر فرمایا: ”جس نے ہماری طرح نماز پڑھی اور ہمارے قبلے کی طرف متوجہ ہوا وہ قربانی نہ کرے حتیٰ کہ وہ نماز سے فارغ ہو جائے۔“ ابو بردہ بن نیار ؓ نے کھڑے ہوکر عرض کی: اللہ کے رسول! میں تو قربانی کر بیٹھا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ کام تو نے قبل از وقت کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا: اب میرے پاس بکری کا یکسالہ بچہ ہے جو وہ دو دانتہ دو بکریوں سے بہتر ہے کیا میں اسے ذبح کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں لیکن تمہارے بعد یہ اجازت کسی اور کے لیے نہیں ہوگی۔“ (راوئ حدیث) سیدنا عامر نے کہا: یہ ان کی بہترین قربانی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5563]
حدیث حاشیہ:
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کا وقت نماز عید سے فارغ ہونے کے بعد ہے۔
اگر کوئی شخص غلطی سے نمازِ عید سے پہلے قربانی ذبح کر لے تو دوسرا جانور میسر ہونے کی صورت میں اسے نماز عید کے بعد دوسرا جانور ذبح کرنا ہو گا، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عویمر بن اشقر رضی اللہ عنہ نے اپنی قربانی نماز عید سے پہلے ذبح کر لی، پھر انہوں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا:
”دوبارہ قربانی دو۔
“ (مسند أحمد: 454/3)
لیکن افسوس ہے کہ اہل کوفہ کہتے ہیں کہ اگر کسی مقام پر نماز عید نہ پڑھی جاتی ہو وہاں سے اگر نماز فجر کے بعد قربانی ذبح کر کے لائی جائے تو جائز ہے۔
ہمارے رجحان کے مطابق ایسا حیلہ دین اسلام سے ٹکراتا ہے اور اس سے قربانی ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5563