صحيح البخاري
كِتَاب التَّهَجُّد
کتاب: تہجد کا بیان
26. بَابُ الْحَدِيثِ، يَعْنِي بَعْدَ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ:
باب: فجر کی سنتوں کے بعد باتیں کرنا۔
حدیث نمبر: 1168
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنِي، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ فَإِنْ كُنْتُ مُسْتَيْقِظَةً حَدَّثَنِي، وَإِلَّا اضْطَجَعَ"، قُلْتُ لِسُفْيَانَ: فَإِنَّ بَعْضَهُمْ يَرْوِيهِ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، قَالَ سُفْيَانُ: هُوَ ذَاكَ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوالنضر سالم نے بیان کیا کہ مجھ سے میرے باپ ابوامیہ نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب دو رکعت (فجر کی سنت) پڑھ چکتے تو اس وقت اگر میں جاگتی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے باتیں کرتے ورنہ لیٹ جاتے۔ میں نے سفیان سے کہا کہ بعض راوی فجر کی دو رکعتیں اسے بتاتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں یہ وہی ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1168 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1168
حدیث حاشیہ:
اصیلی کے نسخہ میں یوں ہے۔
قال أبو النضر حدثني عن أبي سلمة۔
یعنی سفیان نے کہا کہ مجھ کو یہ حدیث ابو النضر نے ابو سلمہ سے بیان کی۔
اس نسخہ میں گویا ابو النضر کے باپ کا ذکر نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1168
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1168
حدیث حاشیہ:
ابراہیم نخعی اور ابو الشعثاء وغیرہ کا خیال ہے کہ نماز فجر کی دو سنتوں کے بعد گفتگو کرنا صحیح نہیں۔
امام بخاری ؒ نے ان حضرات کی تردید کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ سنتوں کے بعد گفتگو کرنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے اور اس میں کسی قسم کی کراہت نہیں۔
(فتح الباري: 58/3)
ولید بن مسلم کہتے ہیں کہ ہم حضرت انس ؓ کے ساتھ ہوتے اور فجر اور اس کی دو سنت کے بعد ہم ان سے محو گفتگو ہوتے، آپ اسے برا خیال نہیں کرتے تھے اور اس کے متعلق فتویٰ بھی دیتے تھے۔
ابوبکر بن العربی کہتے ہیں کہ اس وقت خاموشی اختیار کرنے کے متعلق کوئی فضیلت احادیث میں مروی نہیں، البتہ دنیوی امور کے بارے میں اس وقت گفتگو کرنا مستحسن نہیں کیونکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے دیکھا کہ فجر کی دو سنتوں کے بعد ایک آدمی دوسرے سے محو گفتگو ہے تو انہوں نے فرمایا:
اللہ کا ذکر کرو یا خاموش رہو۔
بہرحال کسی مقصد کے پیش نظر گفتگو کرنے میں چنداں حرج نہیں۔
(عمدةالقاري: 518/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1168
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 418
´فجر کی دونوں رکعتوں کے بعد گفتگو کے جائز ہونے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب فجر کی دو رکعتیں پڑھ چکتے اور اگر آپ کو مجھ سے کوئی کام ہوتا تو (اس بارے میں) مجھ سے گفتگو فرما لیتے، ورنہ نماز کے لیے نکل جاتے۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 418]
اردو حاشہ:
1؎:
رسول اکرم ﷺ کے فعل کے بعد اب کسی کے قول اور رائے کی کیا ضرورت؟ ہاں ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جو لوگوں کو بات کرتے دیکھ کر منع کیا تھا؟ تو یہ لا یعنی گفتگو کا معاملہ ہو گا،
بہر حال اجتماعی طور پر لا یعنی بات چیت ایسے وقت خاص طور پر،
نیز کسی بھی وقت مناسب نہیں ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 418