Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْإِمَارَةِ
امور حکومت کا بیان
21. باب كَيْفِيَّةِ بَيْعَةِ النِّسَاءِ:
باب: عورتیں کیونکر بیعت کریں۔
حدیث نمبر: 4835
وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، وَأَبُو الطَّاهِرِ ، قَالَ أَبُو الطَّاهِرِ : أَخْبَرَنَا، وقَالَ هَارُونُ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ عَنْ بَيْعَةِ النِّسَاءِ، قَالَتْ: " مَا مَسَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ امْرَأَةً قَطُّ، إِلَّا أَنْ يَأْخُذَ عَلَيْهَا، فَإِذَا أَخَذَ عَلَيْهَا فَأَعْطَتْهُ، قَالَ: " اذْهَبِي فَقَدْ بَايَعْتُكِ ".
امام مالک نے ابن شہاب سے، انہوں نے عروہ بن زبیر سے روایت کی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں عورتوں کی بیعت کے متعلق بتایا، کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی عورت کو اپنے ہاتھ سے نہیں چھوا، البتہ آپ ان سے (زبانی) عہد لیتے تھے اور جب وہ عہد کر لیتیں تو آپ فرماتے: "جاؤ، میں نے تم سے بیعت لے لی۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے عروہ کو عورتوں کی بیعت کے بارے میں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ کبھی کسی عورت کو نہیں لگا، مگر ان سے عہد لیتے تھے، تو جب آپ اس سے زبانی عہد لیتے تھے، وہ جب عہد دے دیتی تھی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے، جا، میں نے تجھے بیعت کر لیا ہے۔
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4835 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4835  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
صلح حدیبیہ کے بعد،
جب مسلمان عورتوں کے لیے،
مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچنے کا راستہ کھلا،
کیونکہ وہ واپسی کے معاہدے میں داخل نہ تھیں،
یا اللہ تعالیٰ نے ان کو مستثنیٰ کرنے کا حکم دیا اور کافروں نے بھی اس پر کوئی اعتراض نہ کیا،
تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا،
ان کے ایمان کا جائزہ لیں،
کہ کیا وہ واقعی صرف اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کر کے آئی ہیں،
یا اس کا پس منظر خاوند سے نفرت،
کسی سے عشق یا دنیا کی لالچ ہے،
اگر وہ ایمان میں پختہ اور مضبوط ہیں،
ہجرت صرف اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہے،
تو ان کو بیعت کر لیں اور بیعت کی شروط بھی بیان کر دی گئیں جو عورت ان شروط کا اقرار کر لیتی،
وہ امتحان میں کامیاب ٹھہر جاتی اور آپ اس سے،
ہاتھ میں ہاتھ لیے بغیر زبانی کلامی بیعت لے لیتے اور اسے جانے کا حکم دیتے،
اگر رسول اللہ،
غیر محرم عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتے تھے،
تو امتیوں کو اس کی اجازت کیسے مل سکتی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4835   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2875  
´عورتوں کی بیعت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مومن عورتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہجرت کر کے آتیں تو اللہ تعالیٰ کے فرمان: «يا أيها النبي إذا جاءك المؤمنات يبايعنك» (سورة الممتحنة: 12) اے نبی! جب مسلمان عورتیں آپ سے ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی چوری نہ کریں گی، زناکاری نہ کریں گی، اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں گی، اور کوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی، جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑ لیں اور کسی نیک کام میں تیری بےحکمی نہ کریں گی، تو آپ ان سے بیعت کر لیا کریں اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2875]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
حدیث میں مذکور آیت کے مکمل الفاظ اس طرح ہیں:
﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ اے نبیﷺ! جب مومن عورتیں آپﷺ کے پاس ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی چوری نہ کریں گی چوری نہ کریں گی بدکاری نہ کریں گی اپنی اولاد کو مار نہ ڈالیں گی کوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑلیں اور کسی نیک کام میں آپ کی حکم عدولی نہ کریں گی تو آپ ان سے بیعت لے لیں اور ان کے لیے اللہ سے دعائے مغفرت کریں۔
بے چک اللہ تعالی بہت بخشنے اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

(4)
آپ عورتوں سے یہ عہد بھی لیتے تھے کہ وہ نوحہ وغیرہ نہیں کریں گی۔
سنن ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
جس نیکی کے بارے میں ہم سے وعدہ لیا گیا تھا کہ ہم اس میں نبی ﷺ کی نافرمانی نہیں کریں گی اس میں یہ بھی شامل ہے کہ چہرہ (نوچ کر)
زخمی نہ کریں واویلا (اور بین)
نہ کریں گریبان چاک نہ کریں اور بال نہ بکھیریں۔ (سنن أبي داؤد الجنائز باب النوح حديث: 313)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2875   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7214  
7214. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ عورتوں سے زبانی طور پر اس آیت کے احکام کی بیعت لیتے تھے: وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی۔ نیز انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ کبھی کسی عورت کا ہاتھ انہیں چھوا سوائے اس عورت کے جس کے آپ مالک تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7214]
حدیث حاشیہ:
یا آپ کی بیوی ہو۔
ان سب سے غیر عورتیں مراد ہیں۔
بیعت میں بھی آپ نے ان کا ہاتھ نہیں چھوا۔
نسائی اور طبرانی کی روایت میں یوں ہے۔
امیمہ بنت رقیقہ کئی عورتوں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئئی اور مصافحہ کے لیے کہا۔
آپ نے فرمایا کہ میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7214   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5288  
5288. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب اہل ایمان خواتین ہجرت کر کے نبی ﷺ کی طرف آتیں تو آپ ان کا امتحان لیتے کیونکہ ارشاد باری تعالٰی ہے: اے ایمان والو! جب مومن خواتین تمہارے پاس ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو۔۔۔۔ سدہ عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں کہ مومنات میں سے جو جو عورت اس شرط کا اقرار کر لیتی وہ امتحان میں کامیاب خیال کی جاتی چنانچہ جب وہ اس شرط کا اقرار کر لیتیں تو رسول اللہ ﷺ ان سے فرماتے: اب جاؤ میں نے تم سے عہد لے لیا ہے۔ اللہ کی قسم! بیعت لیتے وقت رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ کبھی نہیں چھوا۔ آپ ﷺ ان خواتین سے زبانی کلامی بیعت لیتے تھے۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے عورتوں سے صرف ان چیزوں پر عہد لیا جن کا اللہ تعالٰی نے آپ کو حکم دیا تھا۔ بیعت لینے کے بعد آپ ان سے فرماتے: میں نے تم سے بیعت لے لی ہے۔ یہ آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5288]
حدیث حاشیہ:
(1)
دلوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے، البتہ ہجرت کرکے آنے والی خواتین کا ظاہری طور پر امتحان لینا ضروری قرار پایا کہ واقعی وہ مسلمان ہیں اور محض اسلام کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑ کر آئی ہیں، کوئی دنیوی یا نفسانی غرض تو اس ہجرت کا سبب نہیں ہے؟ کہیں اپنے خاوندوں سے ناراض ہو کر یا خانگی معاملات اور گھریلو جھگڑوں سے تنگ آ کر یا محض سیر و سیاحت یا کوئی دوسری غرض تو اس ہجرت کا سبب نہیں بنی؟ (2)
اس حکم کے مخاطب چونکہ مومن حضرات ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غرض کے لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا انتخاب کیا تھا اور وہی مدینہ طیبہ پہنچنے والی خواتین کا امتحان لیتے تھے۔
اس امتحان کے بعد ان مہاجر عورتوں بلکہ عام خواتین اسلام کو بیعت کا حکم ہوا اور یہ بیعت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیتے تھے کیونکہ بیعت سے متعلق آیت کے مخاطب آپ ہی ہیں اور جن گناہوں سے بچنے کی بیعت لی جاتی تھی وہ سب کبیرہ گناہ ہیں اور ان کا اس وقت عرب میں عام رواج تھا اس بیعت کی تفصیل سورۂ ممتحنہ آیت: 12 میں بیان ہوئی ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5288