صحيح مسلم
كِتَاب الْإِمَارَةِ
امور حکومت کا بیان
20. باب الْمُبَايَعَةِ بَعْدَ فَتْحِ مَكَّةَ عَلَى الإِسْلاَمِ وَالْجِهَادِ وَالْخَيْرِ وَبَيَانِ مَعْنَى: «لاَ هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ».
باب: مکہ کی فتح کے بعد اسلام یا جہاد یا نیکی پر بیعت ہونا، اور اس کے بعد ہجرت نہ ہونے کے معنی۔
حدیث نمبر: 4832
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ الزُّهْرِيِّ ، حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ اللَّيْثِيُّ ، أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ أَنَّ أَعْرَابِيًّا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْهِجْرَةِ، فَقَالَ: " وَيْحَكَ، إِنَّ شَأْنَ الْهِجْرَةِ لَشَدِيدٌ فَهَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: " فَهَلْ تُؤْتِي صَدَقَتَهَا؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَاعْمَلْ مِنْ وَرَاءِ الْبِحَارِ، فَإِنَّ اللَّهَ لَنْ يَتِرَكَ مِنْ عَمَلِكَ شَيْئًا "،
ولید بن مسلم نے کہا: ہمیں عبدلرحمٰن بن عمرو اوزاعی نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے ابن شہاب زہری نے حدیث سنائی، کہا: مجھے عطاء بن یزید لیثی نے حدیث بیان کی کہ انہوں نے ان سب کو حدیث سنائی، کہا: ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے مجھے حدیث بیان کی کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا: "تم پر افسوس! ہجرت کا معاملہ تو بہت مشکل ہے، کیا تمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں؟" اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: "کیا تم ان کی زکاۃ ادا کرتے ہو؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: "پانیوں (چشموں، دریاؤں، سمندروں وغیرہ) کے پار (رہتے ہوئے) عمل کرتے رہو تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہارے کسی عمل کو ہرگز رائیگاں نہیں کرے گا۔"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کے بارے میں دریافت کیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پر افسوس! ہجرت کا معاملہ بہت مشکل ہے، (ہر ایک کے بس کا کام نہیں) کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟“ اس نے کہا، جی ہاں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا ان کی زکاۃ ادا کرتے ہو؟“ اس نے کہا، جی ہاں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سمندروں سے پار رہ کر عمل کرتے رہو، اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال (کے بدلہ میں) کوئی کمی نہیں فرمائے گا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4832 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4832
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
چونکہ فتح کے بعد ہجرت لازم نہیں رہی تھی،
اس لیے آپﷺ نے اسے یہ بات فرمائی،
یا اس لیے ہجرت فتح مکہ سے قبل مکہ والوں کے لیے یا ان لوگوں کے لیے فرض تھی،
جو اپنے قبائل میں رہ کر اسلامی احکامات پر عمل پیرا نہیں ہو سکتے تھے اور یہ اپنے علاقہ اور اپنی قوم میں رہ کر اسلامی زندگی گزار سکتا تھا اور ہجرت کی پابندیاں سہنا اس کے لیے مشکل تھا۔
اس لیے آپ نے اس کی ہجرت کی اجازت نہ دی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4832
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4169
´ہجرت کے معاملہ کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ”تمہارا برا ہو۔ ہجرت کا معاملہ تو سخت ہے۔ کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم ان کی زکاۃ نکالتے ہو؟“ کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”جاؤ، پھر سمندروں کے اس پار رہ کر عمل کرو، اللہ تمہارے عمل سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4169]
اردو حاشہ:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح ہے کہ ہجرت کرنا انتہائی مشکل اور عزیمت وعظمت والا کام ہے‘ ایسے لوگ بھی عظیم اور جلیل القدر ہیں‘ تاہم یہ ہر ایک کے بس کا معاملہ نہیں بسا اوقات راہ ہجرت میں پیش آمدہ مشکلات سے انسان گھبرا جاتا ہے اور اپنی ہجرت پر نادم ہوتا ہے جس سے اس کی ہجرت یقینا متاثر ہوتی ہے۔
(2) اونٹوں کی زکاۃ ادا کرنا فضیلت والا عمل ہے۔
(3) مذکورہ حدیث سے صحرا نشینوں اور اعرابیوں کے لیے نرمی کا پہلو نکلتا ہے کہ ان کی استطاعت کو مد نظر رکھ کر انہیں کسی چیز کا پابند کیا جائے۔ اسی لیے ان پر ہجرت فرض نہیں تھی جبکہ مکہ شہروالوں پر ہجرت فرض تھی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4169
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2477
´ہجرت کا ذکر اور صحراء و بیابان میں رہائش کا بیان۔`
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کے بارے میں پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے اوپر افسوس ہے! ۱؎ ہجرت کا معاملہ سخت ہے، کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟“ اس نے کہا: ہاں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم ان کی زکاۃ دیتے ہو؟“ اس نے کہا: ہاں (دیتے ہیں)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر سمندروں کے اس پار رہ کر عمل کرو، اللہ تمہارے عمل سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا ۲؎۔“ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2477]
فوائد ومسائل:
1۔
(ھجرة) لغت میں چھوڑدینے کو کہتے ہیں۔
اور اصطلاحا یہ ہے کہ انسان اپنےدین اور ایمان کی حفاظت کی غرض سے دارلکفر۔
دارلفساد۔
اوردارالمعاصی۔
کوچھوڑ کر دارالسلام اور دارالصلاح کی سکونت اختیار کرلے۔
اور ہجرت کی جان یہ ہے کہ انسان اللہ عزوجل کے منع کردہ امور سے باز رہے۔
جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
(صحیح البخاری۔
الایمان حدیث 10)
2۔
ہجرت کے تقاضے انتہائی شدید ہیں۔
یہ کوئی آسان عمل نہیں ہے۔
3۔
(البحار) کا لفظ عربی زبان میں بستیوں اور شہروں پر بھی بولاجاتا ہے۔
4۔
اعمال کی بنیاد ایمان اور اخلاص پرہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2477
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6165
6165. حضرت ابو خدری ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے ہجرت کے متعلق کچھ بتائیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تیری خرابی ہو، ہجرت کا معاملہ تو بہت سخت ہے۔ کیا تمہارے ہجرت کا معماملہ تو بہت سخت ہے۔ کیا تمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم ان کی زکاۃ ادا کرتے ہو؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا فرمایا: ”پھر تم شہروں اور بستیوں سے پرے اپنا کاروبار کرتے رہو، اللہ کسی عمل کے ثواب کو ضا ئع نہیں کرے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6165]
حدیث حاشیہ:
دینی فرائض ادا کرتے رہو ہجرت کا خیال چھوڑ دو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6165
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1452
1452. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ ﷺ سے ہجرت کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:”تیرے لیے خرابی ہو، ہجرت کا معاملہ بڑا سخت ہے، کیا تیرے پاس کچھ اونٹ ہیں جن کی تو زکوٰۃ دا کرتا ہے؟“ اس نے عرض کیا:جی ہاں! آپ نے فرمایا:”پھر تو دریاؤں کے اس پار عمل کرتا رہ، بے شک اللہ تعالیٰ تیرے اعمال سے کسی چیز کو ضائع نہیں کرے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1452]
حدیث حاشیہ:
مطلب آپچ ﷺ کا یہ تھا کہ جب تم اپنے ملک میں ارکان اسلام آزادی کے ساتھ ادا کررہے ہو۔
یہاں تک کہ اونٹوں کی زکوٰۃ بھی باقاعدہ نکالتے رہتے ہو تو خواہ مخواہ ہجرت کا خیال کرنا ٹھیک نہیں۔
ہجرت کوئی معمولی کام نہیں ہے۔
گھر در وطن چھوڑنے کے بعد جو تکالیف برداشت کرنی پڑتی ہیں ان کو ہجرت کرنے والے ہی جانتے ہیں۔
مسلمانان ہند کو اس حدیث سے سبق حاصل کرنا چاہیے، اللہ نیک سمجھ عطا کرے۔
آمین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1452
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3923
3923. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک اعرابی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے ہجرت کے متعلق دریافت کرنے لگا۔ آپ نے فرمایا: ”تجھ پر افسوس! ہجرت تو بہت مشکل کام ہے۔ کیا تمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”تم ان کی زکاۃ ادا کرتے ہو؟“ اس نے عرض کیا: ہاں (زکاۃ ادا کرتا ہوں)۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تو ان میں کوئی اونٹنی دوسروں کو دیتا ہے تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کرے؟“ اس نے کہا: ہاں (ایسا کرتا ہوں) آپ نے فرمایا: ”کیا تم، انہیں پانی پلانے کے روز، دودھ خیرات کرتے ہو؟“ اس نے کہا: ہاں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر تم تمام بستیوں (اور شہروں) سے پرے رہ کر عمل کرتے رہو۔ اللہ تعالٰی تمہارے کسی عمل کا ثواب ضائع نہیں کرے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3923]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کتاب الزکوٰۃ میں گزر چکی ہے اس میں ہجرت کا ذکر ہے یہی حدیث اور باب میں مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3923
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1452
1452. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ ﷺ سے ہجرت کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:”تیرے لیے خرابی ہو، ہجرت کا معاملہ بڑا سخت ہے، کیا تیرے پاس کچھ اونٹ ہیں جن کی تو زکوٰۃ دا کرتا ہے؟“ اس نے عرض کیا:جی ہاں! آپ نے فرمایا:”پھر تو دریاؤں کے اس پار عمل کرتا رہ، بے شک اللہ تعالیٰ تیرے اعمال سے کسی چیز کو ضائع نہیں کرے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1452]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے اونٹوں سے زکاۃ کی مشروعیت بیان کی ہے۔
مقصد یہ ہے کہ جب انسان اپنے مال سے فریضہ ادا کرتا رہے اور اپنے آپ کو عبادت میں مصروف رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کے اعمال کو ضائع نہیں کرے گا۔
وہ جہاں چاہے رہے اس معاملے میں اس سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی۔
ایک روایت میں مزید تفصیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ کی ادائیگی کے بعد اس سے دریافت کیا:
”تو کسی کو ان اونٹوں میں سے عطیہ وغیرہ دیتا ہے؟“ اس نے کہا:
جی ہاں! پھر آپ نے پوچھا:
”پانی کے چشمے پر ان کا دودھ دوہ کر اسے غرباء میں تقسیم بھی کرتا ہے؟“ اس نے کہا:
جی ہاں! اس کے بعد آپ نے فرمایا:
”دریاؤں کے اس پار عمل کرتا رہ، اللہ تعالیٰ تیرے اعمال کو ضائع نہیں کرے گا۔
“ (صحیح البخاري، الھبة وفضلھا، حدیث: 2633) (2)
اس کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ ہجرت منسوخ ہو چکی تھی بلکہ آپ جانتے تھے کہ یہ دیہاتی ہجرت جیسے کوہ گراں کا متحمل نہیں، اس لیے آپ نے مذکورہ ہدایات دیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1452
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3923
3923. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک اعرابی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے ہجرت کے متعلق دریافت کرنے لگا۔ آپ نے فرمایا: ”تجھ پر افسوس! ہجرت تو بہت مشکل کام ہے۔ کیا تمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”تم ان کی زکاۃ ادا کرتے ہو؟“ اس نے عرض کیا: ہاں (زکاۃ ادا کرتا ہوں)۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تو ان میں کوئی اونٹنی دوسروں کو دیتا ہے تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کرے؟“ اس نے کہا: ہاں (ایسا کرتا ہوں) آپ نے فرمایا: ”کیا تم، انہیں پانی پلانے کے روز، دودھ خیرات کرتے ہو؟“ اس نے کہا: ہاں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر تم تمام بستیوں (اور شہروں) سے پرے رہ کر عمل کرتے رہو۔ اللہ تعالٰی تمہارے کسی عمل کا ثواب ضائع نہیں کرے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3923]
حدیث حاشیہ:
دیہاتی لوگ چونکہ ہجرت پر صبر نہیں کر سکتے تھے اور ان میں مدینے کی سختیاں برداشت کرنے کی ہمت نہ تھی اس لیے آپ نے اسے ہجرت سے روکا جیسا کہ ایک دیہاتی کو مدینہ طیبہ میں بخار ہو گیا تھا تو وہ بیعت توڑ کر چلا گیا اس لیے آپ نے فرمایا:
”تم ہجرت نہ کرو، بلکہ جب تم حقوق پورے ادا کرتے ہو تو تم پر اپنے وطن میں اقامت رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
“ اس حدیث میں ہجرت کا ذکر ہے اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے یہاں بیان کیا ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3923