صحيح مسلم
كِتَاب الْإِمَارَةِ
امور حکومت کا بیان
1. باب النَّاسُ تَبَعٌ لِقُرَيْشٍ وَالْخِلاَفَةُ فِي قُرَيْشٍ:
باب: خلیفہ قریش میں سے ہونا چاہیئے۔
حدیث نمبر: 4712
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ مُهَاجِرِ بْنِ مِسْمَارٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، أَنَّهُ أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ سَمُرَةَ الْعَدَوِيِّ حَدِّثْنَا مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ حَاتِمٍ.
ابن ابی ذئب نے مہاجر بن مسمار سے حدیث بیان کی، انہوں نے عامر بن سعد سے روایت کی کہ انہوں نے ابن سمرہ عدوی رضی اللہ عنہ کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حدیث سنی، وہ ہمیں بیان کیجیے۔ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔۔ پھر حاتم کی حدیث کی طرح بیان کیا
حضرت عامر بن سعد سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن سمرہ عدوی رضی اللہ تعالی عنہما کی طرف پیغام بھیجا کہ ہمیں وہ حدیث سنائیں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، انہوں نے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے، آگے مذکورہ بالا حاتم کی حدیث کی طرح بیان کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4712 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4712
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
وہ بارہ خلفاء کون ہیں جن کی نشان دہی اس حدیث میں کی گئی ہے،
اس کے بارے میں علماء میں بہت اختلاف ہے،
(لامع الدارمي علي جامع البخاري ج 10)
کے حاشیہ میں بارہ (12)
قول نقل کیے گئے ہیں،
لیکن اس حدیث میں جوان کی مختلف صفات آئی ہیں کہ ان کے دور میں خلافت غالب ہوگی،
اسلام قوی اور متحد ہو گا،
لوگ اس پر عمل پیرا ہوں گے اور لوگ عمومی طور پر ان پر متفق ہوں گے،
اس کی رو سے حافظ ابن حجر نے قاضی عیاض کے قول کو ترجیح دی ہے،
حافظ ابن تیمیہ کا منہاج السنہ میں رحجان اسی طرف ہے،
وہ مندرجہ ذیل ہیں،
(1)
حضرت ابوبکر،
(2)
حضرت عمر،
(3)
حضرت عثمان،
(4)
حضرت علی،
(5)
حضرت معاویہ،
(6)
یزید بن معاویہ،
(7)
عبدالملک بن مروان،
(8)
ولید بن عبدالملک،
(9)
سلیمان بن عبدالملک،
(10)
عمر بن عبدالعزیز،
(11)
یزید بن عبدالملک اور(12)
ولید بن یزید بن عبدالملک،
نے چار سال حکومت کی،
اگر ہشام بن عبدالملک کو شمار کریں،
تو پھر ولید بن یزید بن عبدالملک شمار نہیں ہوگا،
کیونکہ چار سال بعد اس کو قتل کر ڈالا گیا تھا اور اس کے دور میں فتنے عام ہوگئے تھے،
اس کے بعد لوگ کسی خلیفہ پر متفق نہیں ہوئے،
معلوم نہیں صاحب الامع نے حافظ ابن حجر کے کس قول سے عمر بن عبدالعزیز کو خارج کرنا معلوم کیا ہے،
حالانکہ حافظ ابن حجر نے عمر بن عبدالعزیز کو شمار کیا ہے،
حافظ صاحب لکھتے ہیں لم مات يزيد وقع الاختلاف الی ان اجتمعوا الی عبدالملك بن مروان بعد قتل ابن الزبير ثم اجتمعوا علی اولاده الاربعة الوليد ثم سليمان ثم يزيد ثم هشام و تخلل بين سليمان و يزيد عمر بن عبدالعزيز فهو لاء سبعة بعد الخلفاء الراشدين والثاني عشر هو الوليد بن يزيد بن عبدالملك،
حضرت عمر بن عبدالعزیز کو کیوں نکال دیا اور ولید بن یزید کو داخل کر دیا،
حالانکہ اس کو نکالا جائے گا اور ابن حجر ھیثمی مکی نے الصواعق المحرقہ میں ھشام بن عبدالملک کو شمار نہیں کیا،
اس کی جگہ ولید بن یزید بن عبدالملک کو شمار کیا ہے۔
(2)
آپ نے کسریٰ کے محل کو بیت الا بیض،
سفید گھر سے موسوم کیا جاتا تھا،
کے فتح کرنے کی پیش گوئی فرمائی تھی،
جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں پوری ہوئی اور یہ شرف حضرت سعد بن ابی وقاص کو حاصل ہوا۔
(3)
إذَا أَعطَا اللهُ أَحَدَكُم خَيرًا:
میں اگر خیر سے مراد مال ودولت ہو تو معنی ہو گا،
پہلے اپنے اوپر اور گھر والوں پر آسانی اور فروانی کرے اور اگر اس سے مراد،
علم دین ہو،
،
تو معنی ہوگا،
دعوت وتبلیغ کا آغاز اپنے گھر سے کرے۔
عامری یعنی عار بن صعصعہ کی اولاد ہے۔
(4)
أنَا الفَرطُ عَليَ الحوض:
کہ میں پہلے پہنچ کر تمہارا حوض کوثر پر منتظر ہوں گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4712