صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
40. باب فِي دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى اللَّهِ وَصَبْرِهِ عَلَى أَذَى الْمُنَافِقِينَ:
باب: رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اور منافقین کی تکالیف پر صبر کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4661
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الْقَيْسِيُّ ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ أَتَيْتَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ، قَالَ: فَانْطَلَقَ إِلَيْهِ وَرَكِبَ حِمَارًا، وَانْطَلَقَ الْمُسْلِمُونَ وَهِيَ أَرْضٌ سَبَخَةٌ، فَلَمَّا أَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِلَيْكَ عَنِّي فَوَاللَّهِ لَقَدْ آذَانِي نَتْنُ حِمَارِكَ، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ: وَاللَّهِ لَحِمَارُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَطْيَبُ رِيحًا مِنْكَ، قَالَ: فَغَضِبَ لِعَبْدِ اللَّهِ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ، قَالَ: فَغَضِبَ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَصْحَابُهُ، قَالَ: فَكَانَ بَيْنَهُمْ ضَرْبٌ بِالْجَرِيدِ، وَبِالْأَيْدِي، وَبِالنِّعَالِ، قَالَ: فَبَلَغَنَا أَنَّهَا نَزَلَتْ فِيهِمْ وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا سورة الحجرات آية 9 ".
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی: (کیا ہی اچھا ہو) اگر آپ (اسلام کی دعوت دینے کے لیے) عبداللہ بن اُبی کے پاس بھی تشریف لے جائیں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سواری فرما کر اس کی طرف گئے اور مسلمان بھی گئے، وہ شوریلی زمین تھی، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس پہنچے تو وہ کہنے لگا: مجھ سے دور رہیں، اللہ کی قسم! آپ کے گدھے کی بو سے مجھے اذیت ہو رہی ہے۔ انصار میں سے ایک شخص نے کہا: اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گدھا تم سے زیادہ خوشبودار ہے۔ اس پر عبداللہ بن اُبی کی قوم میں سے ایک شخص اس کی حمایت میں، غصے میں آ گیا۔ کہا: دونوں میں سے ہر ایک کے ساتھی غصے میں آ گئے۔ کہا: تو ان میں ہاتھوں، چھیڑیوں اور جوتوں کے ساتھ لڑائی ہونے لگی، پھر ہمیں یہ بات پہنچی کہ انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: "اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں کے درمیان صلح کراؤ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی گئی، اے کاش! آپصلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی کے پاس جائیں، (اس کو اسلام کی دعوت دیں) تو آپصلی اللہ علیہ وسلم گدھے پر سوار ہو کر اس کی طرف چل پڑے اور مسلمان بھی چل پڑے، وہ زمین شوریلی تھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس پہنچے، وہ کہنے لگا، مجھ سے دور ہو جائیے، اللہ کی قسم، مجھے تیرے گدھے کی بو نے اذیت پہنچائی ہے تو ایک انصاری آدمی نے کہا، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گدھے کی بو تجھ سے زیادہ پاکیزہ ہے، اس پر عبداللہ کی قوم کا ایک آدمی اس کی خاطر غصہ میں آ گیا، اس طرح ہر آدمی کے ساتھی، اس کی خاطر غصے میں آ گئے اور وہ ایک دوسرے کو کھجور کی چھڑیوں، ہاتھوں اور جوتیوں سے مارنے لگے، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ انہیں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے، ”اگر مومنوں کے دو گروہ باہم لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح صفائی کرا دو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4661 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4661
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے جو واقعہ بیان کیا ہے،
اس میں اصل مقصود حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کی عیادت تھی اور راستہ میں گزر عبداللہ بن ابی کے پاس سے ہوا،
یہاں اصل مقصود،
عبداللہ بن ابی کو دعوت اسلام دینا تھا،
کیونکہ وہ خزرج کا سردار تھا اور اس کا اپنے قبیلہ پر اثر تھا،
اس کے ایمان لانے کی صورت میں پورا قبیلہ مسلمان ہو جاتا اور اس واقعہ میں وہاں یہود اور مشرک موجود نہ تھے،
عبداللہ بن ابی کے قبیلہ کے لوگ ہی تھے اور جو مسلمان لیکن اس کے تمرد کی بنا پر،
جب ایک مسلمان نے اس کی بدکلامی کا جواب دیا تو خاندانی غیرت کی بنا پر،
اس کے خاندان کا ایک مسلمان آدمی بھڑک اٹھا،
اس طرح باہمی اسلام کے نام لیواؤں میں جوتوں اور مکوں کا تبادلہ شروع ہوگیا اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ سورۃ حجرات کی آیت نمبر (9)
اس سلسلہ میں اتری،
اس کا مقصد یہ ہے،
اس واقعہ پر بھی یہ آیت صادق آتی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ (نزلت كذا)
کا لفظ اس صورت میں بھی استعمال کر لیتے تھے،
جب آیت کسی اور وقت اتری ہوتی،
لیکن وہ دوسرے واقعہ پر بھی چسپاں ہوتی،
کیونکہ سورہ حجرات کا نزول تو بہت بعد میں ہوا ہے،
جب کہ وفود کی آمد شروع ہوگئی تھی اور وفود کی عام آمد فتح مکہ کے بعد شروع ہوئی،
الا یہ کہ یہ مان لیا جائے اس کا نزول بہت پہلے ہوگیا تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4661
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ ابويحيي نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2691
´اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو`
”. . . اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الصُّلْحِ/ بَابُ مَا جَاءَ فِي الإِصْلاَحِ بَيْنَ النَّاسِ:/ ح: 2691]
اشكال ازاله ایک بھائی نے سوال کیا کہ صحیحین کی ایک حدیث جس میں صحابہ کرام اور منافق عبد اللہ بن ابی کے ساتھیوں میں ہونے والی لڑائی کا ذکر ہے، اس میں سورہ حجرات کی آیت نمبر 9 کے نزول کا تذکرہ ہے، حالانکہ اس آیت میں دو مؤمن گروہوں کی لڑائی کی بات ہے، جب کہ حدیث میں دوسرا گروہ منافقوں کا ہے۔
جواب: صحیحین کی مرفوع ومتصل احادیث بالاجماع صحیح ہیں، لیکن جو ٹکڑا محل اعتراض ہے، وہ مرفوع نہیں، بلکہ مقطوع ہے۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں، معتمر بن سلیمان جو کہ صغار تبع تابعین میں سے ہیں، ان کا قول ہے۔
امام مہلب بن ابی صفرہ رحمہ اللہ
(م 435 ھ) صحیح بخاری کی تہذیب
”المختصر النصیح
“ میں لکھتے ہیں:
«وقال معتمر فى حديث أنس: فبلغنا أنها نزلت ... .»
پھر یہ قول بھی بلا اسناد ہے۔
معتمر بن سلیمان نے
«فبلغنا» (ہمیں یہ بات پہنچی ہے) کے الفاظ سے اس کا اظہار بھی کیا ہے۔
ائمہ دین نے اس حدیث کی شرح میں یہ بھی ذکر کیا ہے کہ یہ اس دور کا واقعہ ہے جب عبد اللہ بن ابی نے اوپر اوپر سے بھی اسلام قبول نہیں کیا تھا، تو یہ آیت اس کے گروہ پر کیسے منطبق ہو سکتی ہے؟
لہذا سورہ حجرات کی آیت نمبر 9 کا منافقین کے گروہ سے کوئی تعلق نہیں،
سو یہ اشکال ختم ہوا۔
مذید تشریحات، حدیث/صفحہ نمبر: 0
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2691
2691. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ سے عرض کیا گیا: اگر آپ (رئیس المنافقین) عبداللہ بن ابی کے پاس تشریف لے جائیں تو بہتر ہوگا، چنانچہ آ پ ﷺ گدھے پر سوار ہوکر اس کے پاس تشریف لے گئے۔ کچھ مسلمان بھی آپ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ جس راستے سے آپ جارہے تھے وہ شور کلر والی زمین تھی۔ جب نبی کریم ﷺ اسکے پاس تشریف لے گئے تو عبداللہ بن ابی کہنے لگا: آپ مجھ سے دور رہیے، اللہ کی قسم! آپ کے گدھے کی بونے مجھے بہت اذیت پہنچائی ہے۔ ان میں سے ایک انصاری ؓ نے کہا: اللہ کی قسم!رسول اللہ ﷺ کا گدھا تجھ سے خوشبودارہے۔ عبداللہ بن ابی منافق کی قوم کا ایک شخص اس پر غضبناک ہوا، یہاں تک کہ دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ اس طرح ہر ایک کی طرف سے ان کے ساتھی مشتعل ہوگئے اور ان کے د رمیان چھڑیوں، ہاتھوں اور جوتوں سے مارکٹائی شروع ہوگئی۔ ہمیں معلوم ہوا کہ درج ذیل آیت اس موقع پر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2691]
حدیث حاشیہ:
عبداللہ بن ابی خزرج کا سردار تھا، مدینہ والے اس کو بادشاہ بنانے کو تھے، آنحضرت ﷺ تشریف لائے اور یہ امر ملتوی رہا، لوگوں نے آپ کو یہ رائے دی کہ آپ اس کے پاس تشریف لے جائیں گے تو اس کی دلجوئی ہوگی اوربہت سے لوگ اسلام قبول کریں گے۔
پیغمبر مغرور نہیں ہوتے، آپ بلاتکلف تشریف لے گئے۔
مگر اس مردود نے جو اپنے آپ کو بہت نفیس مزاج سمجھتا تھا، آپ کے گدھے کو بدبودار سمجھا اور یہ گستاخانہ کلام کیا جو اس کے خبث باطنی کی دلیل تھا۔
ایک انصاری صحابی نے اس کو منہ توڑ جواب دیا جسے سن کر اس منافق کے خاندان کے کچھ لوگ طیش میں آگئے اور قریب تھا کہ باہم جنگ بپا ہوجائے، آنحضرت ﷺ نے ہر دو فریق میں صلح کرادی، آیت میں مسلمانوں میں صلح کرانے کا ذکر ہے۔
یہ ہر دو گروہ مسلمان ہی تھے۔
کتاب الصلح میں اس لیے اس حدیث کو حضرت امام ؒ نے درج کیا کہ آپس کی صلح صفائی کے لیے آنحضرت ﷺ کی سخت ترین تاکیدات ہیں اور یہ عمل عنداللہ بہت ہی اجروثواب کا موجب ہے۔
آیت مذکورہ فی الباب میں یہ ہے کہ مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو ان میں صلح کرادو۔
مگر یہاں یہ اعتراض ہوتا ہے کہ آیت تو مسلمانوں کے بارے میں ہے اور عبداللہ بن ابی کے ساتھی تو اس وقت تک کافر تھے۔
قسطلانی نے کہا ابن عباس ؓ کی تفسیر میں ہے کہ عبداللہ بن ابی کے ساتھی بھی مسلمان ہوچکے تھے، آیت میں لفظ ”مومنین“ خود اس امر پر دلیل ہے۔
اہل اسلام کا باہمی قتل و قتال اتنا برا ہے کہ اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔
اللھم ألف بین قلوبنا وأصلح ذات بیننا بعض متعصب مقلد علماءنے اپنے مسلک کے سوا دوسرے مسلمانوں کے خلاف عوام میں اس قدر تعصب پھیلا رکھا ہے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کو بالکل اجنبیت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔
ایسے علماءکو خدا نیک سمجھ عطا کرے۔
آمین۔
خاص طور پر اہل حدیث سے بغض و عناد اہل بدعت کی نشانی ہے جیسا کہ حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی ؒنے تحریر فرمایا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2691
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2691
2691. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ سے عرض کیا گیا: اگر آپ (رئیس المنافقین) عبداللہ بن ابی کے پاس تشریف لے جائیں تو بہتر ہوگا، چنانچہ آ پ ﷺ گدھے پر سوار ہوکر اس کے پاس تشریف لے گئے۔ کچھ مسلمان بھی آپ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ جس راستے سے آپ جارہے تھے وہ شور کلر والی زمین تھی۔ جب نبی کریم ﷺ اسکے پاس تشریف لے گئے تو عبداللہ بن ابی کہنے لگا: آپ مجھ سے دور رہیے، اللہ کی قسم! آپ کے گدھے کی بونے مجھے بہت اذیت پہنچائی ہے۔ ان میں سے ایک انصاری ؓ نے کہا: اللہ کی قسم!رسول اللہ ﷺ کا گدھا تجھ سے خوشبودارہے۔ عبداللہ بن ابی منافق کی قوم کا ایک شخص اس پر غضبناک ہوا، یہاں تک کہ دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ اس طرح ہر ایک کی طرف سے ان کے ساتھی مشتعل ہوگئے اور ان کے د رمیان چھڑیوں، ہاتھوں اور جوتوں سے مارکٹائی شروع ہوگئی۔ ہمیں معلوم ہوا کہ درج ذیل آیت اس موقع پر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2691]
حدیث حاشیہ:
(1)
عبداللہ بن ابی قبیلۂ خزرج کا سردار تھا۔
اہل مدینہ نے اسے مشترکہ طور پر اپنا رئیس بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اس کی تاج پوشی کے لیے وقت بھی طے ہو چکا تھا۔
رسول اللہ ﷺ کی مدینہ طیبہ تشریف آوری کی وجہ سے اس رسم تاج پوشی کو عمل میں نہ لایا جا سکا۔
رسول اللہ ﷺ کو مشورہ دیا گیا کہ اگر آپ اس کے پاس تشریف لے جائیں گے تو اس کی دلجوئی ہو گی۔
شاید وہ اپنے ساتھیوں سمیت مسلمان ہو جائے۔
اس بنا پر آپ بلاتکلف وہاں چلے گئے، پھر وہاں جو کچھ ہوا وہ حدیث میں مذکور ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فریقین کے درمیان صلح کرا دی۔
یہ دونوں گروہ مسلمان تھے جیسا کہ آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے۔
درج ذیل حدیث میں مزید تفصیل ہے۔
حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان رکھا ہوا تھا اور آپ کے نیچے مقام فدک کی بنی ہوئی ایک مخملی چادر بچھی ہوئی تھی۔
آپ نے اس سواری پر اپنے پیچھے حضرت اسامہ بن زید ؓ کو بٹھایا۔
آپ حارث بن خزرج قبیلے میں حضرت سعد بن عبادہ ؓ کی تیمارداری کرنا چاہتے تھے۔
یہ غزوۂ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔
اس دوران میں رسول اللہ ﷺ ایک مجلس پر سے گزرے جس میں مسلمان، بت پرست مشرک اور یہودی سب شریک تھے۔
اس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا۔
وہاں حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی موجود تھے۔
جب مجلس پر سواری کا گردوغبار پڑا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی چادر سے اپنی ناک چھپاتے ہوئے کہا:
ہمارے اوپر غبار نہ اڑاؤ۔
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اتر کر سلام کیا اور وہاں رُک گئے، انہیں اللہ کی طرف بلایا اور انہیں قرآن مجید پڑھ کر سنایا۔
عبداللہ بن ابی بولا:
صاحب! یہ اچھی بات نہیں ہے۔
اگر تم صحیح کہتے ہو تو ہماری مجلسوں میں آ کر تکلیف نہ دیا کرو۔
اپنے گھر جاؤ، ہم میں سے جو تمہارے پاس آئے اسے تبلیغ کرو۔
رد عمل کے طور پر حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے کہا:
اللہ کے رسول! آپ ہماری مجالس میں تشریف لایا کریں کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں۔
پھر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں میں اس بات پر تو تو میں میں ہونے لگی۔
قریب تھا کہ ایک دوسرے پر حملہ کر دیں، لیکن رسول اللہ ﷺ انہیں مسلسل خاموش کراتے رہے یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گئے۔
اس کے بعد آپ اپنی سواری پر بیٹھ کر حضرت سعد بن عبادہ ؓ کے ہاں تشریف لے گئے۔
آپ نے ان سے فرمایا:
”سعد! تم نے سنا ہے آج ابو حباب نے کیا بات کہی ہے؟“ آپ کا اشارہ عبداللہ بن ابی اور اس کی باتوں کی طرف تھا۔
حضرت سعد ؓ نے عرض کی:
اللہ کے رسول! اسے معاف کر دیں اور اس سے درگزر فرمائیں۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو حق دیا ہے جو آپ کے شایانِ شان تھا۔
واقعہ یہ ہے کہ اس بستی (مدینہ طیبہ)
کے لوگ (آپ کی تشریف آوری سے پہلے)
اس کی تاج پوشی اور دستار بندی پر متفق ہو گئے تھے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس منصوبے کو اس حق کی وجہ سے ختم کر دیا جو اس نے آپ کو عطا فرمایا ہے تو اسے حسد ہو گیا ہے۔
اس وجہ سے اس نے یہ کردار ادا کیا ہے جو آپ نے ملاحظہ فرمایا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے رفع دفع کر دیا۔
(صحیح البخاري، الاستئذان، حدیث: 6254) (2)
اس مقام پر ایک مشہور سوال ہے کہ حدیث مذکور کے مطابق جھگڑا صحابۂ کرام ؓ اور عبداللہ بن ابی کے ساتھیوں کے درمیان ہوا تھا جبکہ اس وقت عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، لہذا یہ صلح اہل ایمان کے مابین تصور نہیں ہو گی۔
اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کی تفسیر کے مطابق عبداللہ بن ابی کی قوم سے کچھ لوگ مسلمان تھے، انہوں نے عصبیت کی بنا پر عبداللہ بن ابی کی مدد کی تھی۔
(عمدة القاري: 575/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2691