Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
34. باب صُلْحِ الْحُدَيْبِيَةِ فِي الْحُدَيْبِيَةِ:
باب: حدیبیہ میں جو صلح ہوئی اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 4632
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ " أَنَّ قُرَيْشًا صَالَحُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِيهِمْ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ: اكْتُبْ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، قَالَ سُهَيْلٌ: أَمَّا بِاسْمِ اللَّهِ، فَمَا نَدْرِي مَا بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، وَلَكِنْ اكْتُبْ مَا نَعْرِفُ بِاسْمِكَ اللَّهُمَّ، فَقَالَ: اكْتُبْ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ، قَالُوا: لَوْ عَلِمْنَا أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ لَاتَّبَعْنَاكَ، وَلَكِنْ اكْتُبْ اسْمَكَ وَاسْمَ أَبِيكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اكْتُبْ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، فَاشْتَرَطُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ مَنْ جَاءَ مِنْكُمْ لَمْ نَرُدَّهُ عَلَيْكُمْ، وَمَنْ جَاءَكُمْ مِنَّا رَدَدْتُمُوهُ عَلَيْنَا، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَكْتُبُ هَذَا؟، قَالَ: نَعَمْ، إِنَّهُ مَنْ ذَهَبَ مِنَّا إِلَيْهِمْ، فَأَبْعَدَهُ اللَّهُ وَمَنْ جَاءَنَا مِنْهُمْ سَيَجْعَلُ اللَّهُ لَهُ فَرَجًا وَمَخْرَجًا ".
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قریش نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مصالحت کی، ان میں سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "لکھو: بسم اللہ الرحمن الرحیم سہیل کہنے لگے: جہاں تک بسم اللہ کا تعلق ہے تو ہم بسم اللہ الرحمن الرحیم کو نہیں جانتے، لیکن وہ لکھو جسے ہم جانتے ہیں: باسمک اللہم پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لکھو: محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے۔" وہ لوگ کہنے لگے: اگر ہم یقین جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کی پیروی کرتے، لیکن اپنا اور اپنے والد کا نام لکھو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لکھو: محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے۔" ان لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر شرط لگائی کہ آپ لوگوں میں سے (ہمارے پاس) آ جائے گا ہم اسے آپ لوگوں کو واپس نہ کریں گے اور ہم میں سے جو آپ کے پاس آیا آپ اسے ہم کو واپس کر دیں گے۔ (صحابہ نے) پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم یہ لکھ دیں؟ فرمایا: "ہاں، ہم میں سے جو شخص ان کے پاس چلا گیا تو اسے اللہ نے ہم سے دور کر دیا اور ان میں سے جو ہمارے پاس آئے گا اللہ اس کے لیے کشادگی اور نکلنے کا راستہ پیدا فرما دے گا
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ قریش نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مصالحت کی، ان میں سہیل بن عمرو بھی تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھو، سہیل نے کہا، رہا بسم اللہ تو ہم نہیں جانتے، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کیا ہے، لیکن وہ لکھ جو ہم جانتے ہیں، باسمك اللهم

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4632 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4632  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے اجتماعی اور دینی مفادات کے حصول کی خاطر بظاہر دب کر صلح کی اور ان کی ہر شرط کو مان لیا،
کیونکہ محمد بن عبداللہ لکھنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار لازم نہیں آتا تھا اور بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی جگہ بسمك اللهم لکھنے سے اللہ تعالیٰ کی الوہیت پھر بھی ثابت ہو رہی ہے،
جو اصل مقصود ہے،
اس طرح ان کا مطالبہ ماننے میں کوئی شرعی اور دینی خرابی نہیں تھی اور ان میں سے مسلمان ہونے والوں کو ان کے سپرد کرنا،
بظاہر ان کو ظلم و ستم کے حوالہ کرنا تھا،
لیکن اس کی حکمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بتا دی کہ اللہ یقینا ان کے لیے کشادگی اور نکلنے کی صورت پیدا کرے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشن گوئی پوری ہوئی اور اس صلح کے نتیجہ میں کافر کثیر تعداد میں مسلمان ہوئے،
کیونکہ ان کو مسلمانوں کے ساتھ ملنے جلنے کا موقع ملا،
اسلامی تعلیمات سے وہ روشناس ہوئے،
وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے اخلاق و کردار سے آگاہ ہوئے،
ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اور معجزات کو سننے کا موقع ملا اور اس کے نتیجہ میں فتح مکہ کا راستہ ہموار ہوا اور فتح مکہ کے دن تمام مشرکین مکہ مسلمان ہو گئے،
باقی رہا یہ مسئلہ کہ جب آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ مٹا دو تو انہوں نے آپﷺ کی توقیر و تکریم کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ عرض کیا کہ میرے لیے یہ لفظ مٹانا ممکن نہیں،
جیسا کہ آپ نے جب ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا،
جب میں نے تمہیں نماز پڑھاتے رہنے کا حکم دیا تھا تو پھر تم پیچھے کیوں ہٹ گئے؟ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی،
ابو قحافہ کے بیٹے کے لیے آپ کی موجودگی میں نماز پڑھانا ممکن نہیں ہے،
اس لیے آپﷺ نے دوبارہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم نہیں دیا کہ نہیں تم ضرور اس کو مٹاؤ،
وگرنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم الامر فوق الادب کے تحت آپ کے وجوبی حکم کا انکار نہ کر سکتے،
یہی صورت حال واقعہ قرطاس میں پیش آئی،
حضرت عمر اور دوسرے صحابہ نے،
بیماری کی حالت میں آپ کو لکھوانے کی تکلیف دینا،
آپ کی تعظیم و توقیر کے منافی سمجھا اور آپ نے دوبارہ اس پر اصرار نہ کیا،
وگرنہ ان کے لیے آپ کے حکم کی مخالفت ممکن نہ تھی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4632