صحيح البخاري
كِتَاب التَّهَجُّد
کتاب: تہجد کا بیان
11. بَابُ قِيَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ وَنَوْمِهِ وَمَا نُسِخَ مِنْ قِيَامِ اللَّيْلِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کو قیام کرنے اور سونے کا بیان۔
وَقَوْلُهُ تَعَالَى: يَأَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ {1} قُمِ اللَّيْلَ إِلا قَلِيلا {2} نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلا {3} أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْءَانَ تَرْتِيلا {4} إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلا ثَقِيلا {5} إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْأً وَأَقْوَمُ قِيلا {6} إِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلا {7} سورة المزمل آية 1-7 وَقَوْلُهُ: عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْءَانِ عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضَى وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَآخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا وَمَا تُقَدِّمُوا لأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا سورة المزمل آية 20 , قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا نَشَأَ قَامَ بِالْحَبَشِيَّةِ وِطَاءً , قَالَ: مُوَاطَأَةَ الْقُرْآنِ أَشَدُّ مُوَافَقَةً لِسَمْعِهِ وَبَصَرِهِ وَقَلْبِهِ لِيُوَاطِئُوا لِيُوَافِقُوا.
اور اللہ تعالیٰ نے اسی باب میں (سورۃ مزمل میں) فرمایا اے کپڑا لپیٹنے والے! رات کو (نماز میں) کھڑا رہ آدھی رات یا اس سے کچھ کم «سبحا طويلا» تک۔ اور فرمایا کہ اللہ پاک جانتا ہے کہ تم رات کی اتنی عبادت کو نباہ نہ سکو گے تو تم کو معاف کر دیا۔ «واستغفروا الله ان الله غفور رحيم» تک۔ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا قرآن میں جو لفظ «ناشئة الليل» ہے تو «نشأ» کے معنی حبشی زبان میں کھڑا ہوا اور «وطاء» کے معنی موافق ہونا یعنی رات کا قرآن کان اور آنکھ اور دل کو ملا کر پڑھا جاتا ہے۔