صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
17. باب كَيْفِيَّةِ قِسْمَةِ الْغَنِيمَةِ بَيْنَ الْحَاضِرِينَ:
باب: غنیمت کا مال کیوں کر تقسیم ہو گا۔
حدیث نمبر: 4587
وحَدَّثَنَاه ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِي النَّفَلِ.
عبداللہ بن نمیر نے عبیداللہ سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی اور انہوں نے یہ نہیں کہا: غنیمت میں
امام صاحب یہی روایت ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں اور اس میں فى النفل
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4587 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4587
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ گھوڑے کو دو حصے ملیں گے اور آدمی کو ایک حصہ،
اس طرح،
گھڑ سوار کے تین حصے ہوں گے،
ایک اپنا اور دو گھوڑے کے اور جن حدیثوں میں یہ ہے کہ فارس (گھڑ سوار)
کو دو حصے ہیں اور پیدل کا ایک حصہ،
ان کا معنی یہ ہے کہ وہ ایک اپنا حصہ لے گا اور ایک گھوڑے کا حصہ لے گا اور گھوڑے کا حصہ دوگنا ہے،
اس طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی دونوں حدیثوں میں تعارض نہیں ہے اور جمہور کا یہی موقف ہے،
جس میں ائمہ حجاز (مالک،
شافعی،
احمد)
صاحبین (ابو یوسف،
محمد)
داخل ہیں،
تفصیل کے لیے دیکھیے المغنی،
ج 13،
ص 85۔
مسئلہ نمبر 1643۔
اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک گھوڑ سوار کو دو حصے ملیں گے،
ایک اپنا اور ایک گھوڑے کا اور گھوڑے کو بھی ایک ہی حصہ ملے گا،
دو نہیں ملیں گے۔
غلام رسول سعیدی صاحب لکھتے ہیں،
حاصل بحث یہ ہے کہ اس مسئلہ میں ائمہ ثلاثہ اور امام ابو یوسف اور امام محمد کا نظریہ بہت قوی ہے،
کیونکہ انہوں نے جن احادیث سے استدلال کیا ہے ان کی اسانید بلاشبہ ان احادیث کی اسانید سے زیادہ قوی ہیں،
جن سے امام ابو حنیفہ نے استدلال کیا ہے،
شرح صحیح مسلم،
ج 5،
ص 465۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4587