Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
8. باب تَحْرِيمِ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ فِي الْحَرْبِ:
باب: لڑائی میں عورتوں اور بچوں کے مارنے کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 4548
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، وَأَبُو أُسَامَةَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: " وُجِدَتِ امْرَأَةٌ مَقْتُولَةً فِي بَعْضِ تِلْكَ الْمَغَازِي، فَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ ".
عبیداللہ بن عمر نے ہمیں نافع کے حوالے سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: غزوات میں سے ایک غزوے میں ایک عورت مقتول ملی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرما دیا
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ کسی غزوہ (جنگ، لڑائی) میں ایک عورت مقتولہ پائی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرما دیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4548 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4548  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ اسلام کی خصوصیات اور امتیازات میں سے ہے کہ جس دور میں عورتوں،
بچوں اور بوڑھوں کو بھی قتل و غارت کا نشانہ بنایا جاتا تھا،
اس دور میں ان کے قتل کرنے سے منع قرار دیا،
بشرطیکہ وہ براہ راست جنگ میں ملوث نہ ہوں،
اس پر تمام ائمہ اور فقہاء کا اتفاق ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4548   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2841  
´دشمن پر حملہ کرنے، شبخون (رات میں چھاپہ) مارنے، ان کی عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کے احکام کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے میں ایک عورت کو دیکھا جسے قتل کر دیا گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرما دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2841]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عورتوں اور بچوں کو قتل کرنا منع ہے۔
اسی طرح بوڑھے راہب اور دوسرے ایسے افراد جو جنگ میں شریک نہیں ہوتے انھیں بھی قتل کرنا درست نہیں۔

(6)
جب کوئی غلط کام سامنے آئے تو اس سے فوراً روک دینا چاہیے تاکہ دوسروں کو بھی معلوم ہوجائے اور وہ اس غلطی کے ارتکاب سے بچیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2841   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1569  
´عورتوں اور بچوں کے قتل کی ممانعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی غزوے میں ایک عورت مقتول پائی گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مذمت کی اور عورتوں و بچوں کے قتل سے منع فرمایا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1569]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
عورت کے قتل کرنے کی حرمت پرسب کا اتفاق ہے،
ہاں! اگر وہ شریک جنگ ہوکر لڑے تو ایسی صورت میں عورت کا قتل جائز ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1569   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3014  
3014. حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ نبی کریم ﷺ کے کسی غزوے میں ایک عورت مقتول پائی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے (دوران جنگ میں) عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3014]
حدیث حاشیہ:
جنگ میں قصدا عورتوں یا بچوں کا مارنا اسلام میں ناپسندیدہ کام ہے۔
صد افسوس کہ یہ نوٹ ایسے وقت میں لکھ رہا ہوں کہ ملک بنگال مشرقی پاکستان میں خود مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمان مرد‘ عورت‘ بچے بکریوں کی طرح ذبح کئے جا رہے ہیں۔
بنگالیوں اور بہاریوں اور پنجابیوں کے ناموں پر مسلمان اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے اسلامی بھائیوں کی خون ریزی کر رہے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3014   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3015  
3015. حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی بعض لڑائیوں میں ایک عورت قتل شدہ پائی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرمادیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3015]
حدیث حاشیہ:
ابو اسامہ کا یہ جواب امام بخاری ؒ کی روایت میں مذکور نہیں ہے، لیکن اسحاق بن راہویہ نے اپنی مسند میں یہ حدیث نکالی اس میں صاف مذکور ہے کہ ابو اسامہ نے اقرار کیا ہاں! (وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3015   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3015  
3015. حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی بعض لڑائیوں میں ایک عورت قتل شدہ پائی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرمادیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3015]
حدیث حاشیہ:

دوران جنگ میں بچوں اور عورتوں کو قتل کرنے کے متعلق عام طور پر دوموقف بیا ن کیے جاتےہیں:
۔
انھیں قتل کرنا مطلق طور پر جائز ہے۔
۔
انھیں قتل کرنا مطلق طور پر ناجائز ہے۔
لیکن امام بخاری ؒ کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلے میں کچھ تفصیل ہے۔
وہ اس طرح کہ تین صورتوں میں انھیں قتل کیا جاسکتا ہے:
الف۔
جب وہ خود جنگ میں شریک ہوں اور باقاعدہ مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے خم ٹھونک کر میدان میں آجائیں۔
ب۔
کفار ومشرکین انھیں بطور ڈھال استعمال کریں، یعنی دوران جنگ میں انھیں آگے کردیں۔
ج۔
شب خون مارتے وقت لاشعوری طور پرمارے جائیں۔
ان تین صورتوں کے علاوہ انھیں قتل کرنا جائز نہیں۔

حافظ ابن حجر ؒنے اس کی وجہ ان الفاظ میں بیان کی ہے:
عورتیں اس لیے کہ کمزور ہیں اور میدان جنگ میں نہیں لڑ سکتیں اور بچے اس لیے کہ وہ فعل کفر سے قاصر ہیں کیونکہ کفر ہی قتال کا باعث ہے۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 179/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3015