Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
6. باب كَرَاهَةِ تَمَنِّي لِقَاءِ الْعَدُوِّ وَالأَمْرِ بِالصَّبْرِ عِنْدَ اللِّقَاءِ:
باب: جنگ کی آرزو کرنا منع ہے اور جنگ کے وقت صبر کرنا لازم ہے۔
حدیث نمبر: 4542
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ كِتَابِ رَجُلٍ مِنْ أَسْلَمَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَالُ لَهُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أَوْفَى ، فَكَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ حِينَ سَارَ إِلَى الْحَرُورِيَّةِ يُخْبِرُهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي بَعْضِ أَيَّامِهِ الَّتِي لَقِيَ فِيهَا الْعَدُوَّ يَنْتَظِرُ حَتَّى إِذَا مَالَتِ الشَّمْسُ قَامَ فِيهِمْ، فَقَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ لَا تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوِّ وَاسْأَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا وَاعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ ظِلَالِ السُّيُوفِ، ثُمَّ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ، وَمُجْرِيَ السَّحَابِ، وَهَازِمَ الْأَحْزَابِ اهْزِمْهُمْ وَانْصُرْنَا عَلَيْهِمْ ".
ابونضر سے روایت ہے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے قبیلہ اسلم کے ایک آدمی، جنہیں عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کہا جاتا تھا، کے خط سے روایت کی، انہوں نے عمر بن عبیداللہ کو، جب انہوں نے (جہاد کی غرض سے) حروریہ کی طرف کوچ کیا، یہ بتانے کے لیے خط لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعض ایام (جنگ) میں، جن میں آپ کا دشمن سے مقابلہ ہوتا، انتظار کرتے، یہاں تک کہ جب سورج ڈھل جاتا، آپ ان (ساتھیوں) کے درمیان کھڑے ہوتے اور فرماتے: "لوگو! دشمن سے مقابلے کی تمنا مت کرو اور اللہ سے عافیت مانگو، (لیکن) جب تم ان کا سامنا کرو تو صبر کرو اور جان رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے۔" پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: "اے اللہ! کتاب کو اتارنے والے، بادلوں کو چلانے والے اور لشکروں کو شکست دینے والے! انہیں شکست دے اور ہمیں ان پر نصرت عطا فرما
حضرت عبداللہ بن ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے عمر بن عبیداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کو جب وہ خوارج سے جنگ کے لیے نکلا آگاہی کے لیے یہ خط لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دشمن کے مقابلہ کے لیے نکلتے تو سورج ڈھلنے کا انتظار فرماتے، جب سورج ڈھل جاتا تو یہ خطاب فرماتے، اے لوگو، دشمن سے مڈ بھیڑ کی آرزو نہ کرو اور اللہ سے عافیت کی درخواست کرو اور جب دشمن سے ٹکراؤ ہو جائے تو ثابت قدم رہو اور یقین کر لو، جنت تلواروں کے سایہ تلے ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر یہ دعا فرمائی: اے اللہ! اے کتاب کے اتارنے والے، بادلوں کو چلانے والے، لشکروں کو شکست سے دوچار کرنے والے، ان کو شکست دے اور ہمیں ان کے خلاف مدد دے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4542 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4542  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
دشمن سے مقابلہ کی صورت میں،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کا آغاز صبح کی نماز کے بعد فرماتے تھے،
کیونکہ صبح کی نماز میں پیچھے رہنے والے مسلمان دعائے قنوت نازلہ کے ذریعہ مسلمانوں کی فتح و نصرت اور دشمن کی ہزیمت،
مغلوبیت کی اللہ کے حضور درخواست کرتے ہیں اور صبح کے وقت انسان تازہ دم اور چاک و چوبند ہوتا ہے،
اگر لڑائی کا آغاز صبح کو نہ ہو سکتا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم زوال کا انتظار فرماتے،
تاکہ مسلمان نماز ظہر میں قنوت نازلہ کر لیں اور ہوا کے چلنے سے دھوپ کی حدت و تپش میں کمی آ جائے اور مسلمان پوری دلجمعی کے ساتھ لڑائی میں شریک ہو جائیں۔
الجنة تحت ظلال السيوف:
اس میں انتہائی اختصار کے ساتھ،
انتہائی موثر انداز میں،
جہاں کا ثواب بیان کر کے،
اتحاد و اتفاق کی فضاء میں اپنے دور کا اسلحہ استعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور آخر میں دعا کے ذریعہ اللہ کی نصرت و حمایت کے اسباب کے حصول کے ذریعہ مجاہدوں کے حوصلہ کو بڑھایا ہے کہ وہ کتاب اتارنے والا ہے،
جس میں مسلمانوں کی نصرت کا وعدہ ہے کہ وہ بادلوں کو چلانے والا ہے کہ وہ قدرت کاملہ کا مالک ہے،
کائنات کے ظاہری اسباب سے جو چاہے کام لے سکتا ہے اور ان کے ذریعہ دشمن کو ہزیمت سے دوچار کر سکتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4542   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2631  
´دشمن سے مڈبھیڑ کی آرزو اور تمنا مکروہ ہے۔`
عمر بن عبیداللہ بن معمر کے غلام اور ان کے کاتب (سکریٹری) سالم ابونضر کہتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے ان کو جب وہ خارجیوں کی طرف سے نکلے لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑائی میں جس میں دشمن سے سامنا تھا فرمایا: لوگو! دشمنوں سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرو، اور اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو، لیکن جب ان سے مڈبھیڑ ہو جائے تو صبر سے کام لو، اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے، پھر فرمایا: اے اللہ! کتابوں کے نازل فرمانے والے، بادلوں کو چلانے والے، اور جتھوں کو شکست دینے والے، انہیں شکست دے، اور ہمیں ان پر غل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2631]
فوائد ومسائل:

جنگ کوئی عام کھیل نہیں جب اس سے واسطہ پڑتا ہے۔
تو حقیقت کھلتی ہے۔
کہ انسان ایمان اور بہادری کے کس معیار پر ہے۔
اس لئے آرزو یہ ہونی چاہیے کہ یہ موقع ہی نہ آئےتو اچھا ہے۔
مگر جب دوبدو ہونا لازمی ٹھہرے۔
تواللہ پر توکل کرتے ہوئے اپنی قوت وبسالت کا بھر پور اظہار کرنا چاہیے۔
شہادت کی تمنا بھی اسی طرح ہے۔
کہ موقع آنے پر انسان سردھڑ کی بازی لگانے سے دریغ نہ کرے۔
مگر بے موقع یا بے مقصد جان دے دینا تو کوئی معنی نہیں رکھتا۔


حروری خارجیوں کاایک نام ہے۔
کیونکہ یہ لوگ صفین سے واپس آئے۔
تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے الگ ہوکر کوفہ سے باہر مضافات میں حرورا نام کے ایک مقام پرجمع ہوگئے۔
اور یہی ان کا پہلا مرکز تھا۔
اس کی طرف نسبت سے یہ لوگ حروری کہلائے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2631   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2833  
2833. حضرت ابو نضرسالم سے روایت ہے، کہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی ؓنے تحریر لکھی جسے میں نے خود پڑھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب دشمن سے تمھاری مڈبھیڑ ہو جائے تو صبر سے کام لو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2833]
حدیث حاشیہ:
یعنی مستقل مزاجی کے ساتھ جمے رہو اور حالات جیسے بھی ہوں بد دل ہرگز نہ ہو‘ بزدلی یا فرار مومن کی شان نہیں۔
اگر موت مقدر نہیں ہے تو یقیناً سلامتی کے ساتھ واپسی ہوگی اور موت مقدر ہے تو کوئی طاقت نہ بچا سکے گی۔
یہی ایمان اور یقین ہے جو مرد مومن کو غازی یا شہید کے معزز القاب سے ملقب کرتا ہے۔
ارشادِ باری ہے ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا سْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ (البقرة: 153)
ترجمہ:
اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو‘ بے شک اللہ پاک صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2833   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2966  
2966. حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ ؓ ہی سے روایت ہے کہ پھر آپ ﷺ لوگوں میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: لوگو! دشمن سے مقابلے کی آرزونہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو۔ لیکن اگر دشمن سے مقابلہ ہو تو صبر کرو اورخوب جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ پھر آپ نے یوں دعا کی: اے اللہ! کتاب کے نازل کرنے والے، بادلوں کو چلانے والے، (کافروں کے)لشکروں کو شکست دینے والے، انھیں شکست دے اور ان کے خلاف ہماری مدد فرما۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2966]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ جہاں تک ممکن ہو لڑائی کو ٹالنا اچھا ہے۔
اگر کوئی صلح کی عمدہ صورت نکل سکے۔
کیونکہ اسلام فتنہ و فساد کے سخت خلاف ہے۔
ہاں جب کوئی صورت نہ بنے اور دشمن مقابلہ ہی پر آمادہ ہو تو جم کر اور خوب ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے اور ایسے موقعہ پر اس دعائے مسنونہ کا پڑھنا ضروری ہے جو یہاں مذکور ہوئی ہے۔
یعنی اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ اھْزِمِ الْاَحْزَابَ،اَللّٰھُمَّ اھْزِمْھُمْ وَزَلْزِلْھُمْ وانصُرنَا علیھِم جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔
اس کا مطلب یہ کہ جنت کے لئے مالی و جانی قربانی کی ضرورت ہے جنت کا سودا کوئی سستا سودا نہیں ہے۔
جیسا کہ آیت قرآن ﴿اِنَّ اللہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّة﴾ (التوبة: 111)
میں مذکور ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2966   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2833  
2833. حضرت ابو نضرسالم سے روایت ہے، کہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی ؓنے تحریر لکھی جسے میں نے خود پڑھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب دشمن سے تمھاری مڈبھیڑ ہو جائے تو صبر سے کام لو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2833]
حدیث حاشیہ:

اس کامطلب یہ ہے کہ ایسے حالات میں مستقل مزاجی کے ساتھ جمے رہو اور حالات جیسے بھی ہوں بددل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ بزدلی اور فرارمومن کی شان نہیں اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّـهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ اے ایمان والو!جب کسی گروں سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو،اللہ کو بکثرت یاد کیاکرو تاکہ تم کامیاب رہو۔
(الأنفال: 45/8)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ دوران جنگ میں اللہ تعالیٰ کو بکثرت یاد کرنا ثابت قدمی کا باعث ہے اور کامیابی کا راز ہے۔
حدیث میں صبر سے مراد یہی ہے کہ ذکر الٰہی سے اپنے دل کومطمئن رکھو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2833   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2966  
2966. حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ ؓ ہی سے روایت ہے کہ پھر آپ ﷺ لوگوں میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: لوگو! دشمن سے مقابلے کی آرزونہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو۔ لیکن اگر دشمن سے مقابلہ ہو تو صبر کرو اورخوب جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ پھر آپ نے یوں دعا کی: اے اللہ! کتاب کے نازل کرنے والے، بادلوں کو چلانے والے، (کافروں کے)لشکروں کو شکست دینے والے، انھیں شکست دے اور ان کے خلاف ہماری مدد فرما۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2966]
حدیث حاشیہ:

سورج ڈھلنے تک انتظار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت مدد کی ہوائیں چلتی ہیں اور دن ٹھنڈا ہونے کے باعث جم کر لڑائی کی جاتی ہے، نیز مسلمان اپنی نمازوں میں مجاہدین کے لیے دعائیں کرتے ہیں، چنانچہ نعمان بن مقرن ؓ بیان کرتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ وہ ایک جنگ میں شریک تھے، جب فجر طلوع ہوتی تو آپ لڑائی سے رُک جاتے، پھر جب سور ج طلوع ہوتا تو دوپہر تک جنگ کرتے، پھر زوال آفتاب کےبعد حملہ کرتے اور عصر کے وقت رُک جاتے، پھر نماز عصر کے بعد حملہ کرتے۔
کہا جاتا ہے کہ اس وقت نصرت کی ہوائیں چلتی ہیں اور اہل ایمان اپنے لشکروں کے لیے نمازوں میں دعائیں کرتے ہیں۔
(جامع الترمذي، السیر، حدیث: 1612)

نصرت کی ہوا سے مرادبادصبا ہے جو بالعموم فتح ونصرت کا باعث ہوتی ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنگ وقتال اسلام کی نظر میں ذاتی طور پر کوئی مرغوب چیز نہیں۔
جہاں تک ممکن ہو اس سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2966   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7237  
7237. حضرت سالم ابو نضر مولیٰ عمر بن عبید اللہ سے روایت ہے جو اپنے آقا کے کاتب تھے‘ انہوں نے بتایا کہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ ؓ نے انہیں خط لکھا جسے میں نے خود پڑھا‘ اس میں یہ مضمون تھا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دشمن سے مقابلے کی تمنا نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7237]
حدیث حاشیہ:
دشمن سے مقابلے کی خواہش مکروہ ہے لیکن یہ شہادت کی تمنا کے منافی نہیں کیونکہ شہادت کا حصول تو اسلام کی نصرت اور اس کے غلبے کےساتھ ممکن ہے لیکن مقابلے کی خواہش کرنااس کے برعکس ہوسکتا ہے، نیز دشمن سے ملاقات کی کراہت اس شخص کے لیے ہے جو اپنی قوت پر ہی اعتماد کرے اور خود کو بڑا خیال کرے، ایسے شخص کے لیے دشمن سے مڈ بھیڑ کی خواہش کرنا مکروہ ہے۔
(فتح الباري: 275/13)
ایک حدیث میں ہے:
دشمن سے مقابلے کی خواہش نہ کرو لیکن جب آمنا سامنا ہو جائے تو ڈٹ کر مقابلہ کرو۔
(صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 3026)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7237