صحيح البخاري
كِتَاب التَّهَجُّد
کتاب: تہجد کا بیان
9. بَابُ طُولِ الْقِيَامِ فِي صَلاَةِ اللَّيْلِ:
باب: رات کے قیام میں نماز کو لمبا کرنا (یعنی قرآت بہت کرنا)۔
حدیث نمبر: 1135
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً فَلَمْ يَزَلْ قَائِمًا حَتَّى هَمَمْتُ بِأَمْرِ سَوْءٍ، قُلْنَا: وَمَا هَمَمْتَ، قَالَ: هَمَمْتُ أَنْ أَقْعُدَ وَأَذَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے اعمش سے بیان کیا، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مرتبہ رات کو نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا لمبا قیام کیا کہ میرے دل میں ایک غلط خیال پیدا ہو گیا۔ ہم نے پوچھا کہ وہ غلط خیال کیا تھا تو آپ نے بتایا کہ میں نے سوچا کہ بیٹھ جاؤں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ دوں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1135 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1135
حدیث حاشیہ:
یہ ایک وسوسہ تھا جو حضرت ابن مسعود ؓ کے دل میں آیاتھا مگر وہ فوراً سنبھل کر اس وسوسہ سے باز آگئے۔
حدیث سے یہ نکلا کہ رات کی نماز میں آپ بہت لمبی قرات کیا کرتے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1135
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1135
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نماز تہجد میں لمبا قیام کرتے تھے، کیونکہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے طاقتور ہونے کے باوجود دوران قیام میں بیٹھ جانے کا ارادہ کیا۔
اس کا مطلب واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا قیام کافی لمبا تھا۔
اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے طویل قنوت کو افضل نماز قرار دیا ہے۔
جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1768(756)
ممکن ہے کہ حدیث میں طویل قنوت سے مراد طول خشوع ہے۔
صحابۂ کرام ؓ رکوع و سجود کی کثرت کو افضل خیال کرتے تھے، جیسا کہ ایک اور حدیث میں ہے کہ کثرت سجود ایک فضیلت والا عمل ہے۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1093(488) (2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اعمال نماز میں امام کی مخالفت برا عمل ہے۔
اگرچہ عبداللہ بن مسعود ؓ کو شرعاً بیٹھنے کی اجازت تھی لیکن بزرگوں کا احترام اور ادب اس سے مقدم ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1135
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1418
´نماز میں قیام لمبا کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ برابر کھڑے رہے یہاں تک کہ میں نے ایک برے کام کا ارادہ کر لیا، (راوی ابووائل کہتے ہیں:) میں نے پوچھا: وہ کیا؟ کہا: میں نے یہ ارادہ کر لیا کہ میں بیٹھ جاؤں، اور آپ کو (کھڑا) چھوڑ دوں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1418]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نماز تہجد باجماعت جائز ہے۔
(2)
نماز تہجد میں طویل قراءت افضل ہے۔
(3)
شاگردوں کو تربیت دینے کےلئے ان سے مشکل کام کروانا جائز ہے۔
اگرچہ اس میں مشقت نہ ہو۔
(4)
استاد کا خود نیک عمل کرنا شاگردوں کو اس کا شوق دلاتا اور ہمت پیدا کرتا ہے۔
(5)
صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نیکی کا اس قدر شوق رکھتے تھے۔
کہ افضل کام کو چھوڑ کر جائز کام اختیار کرکے انھوں نے بُرا کام قرار دیا۔
(6)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارادہ نبی کریمﷺ کی اقتدا میں نمازادا کرنے کا تھا۔
اب اتباع اور محبت کا تقاضا ہے۔
کہ اس نیکی میں آخر تک ساتھ دیا جائے۔
اس لئے بیٹھ جانے کو انھوں نے بُرا سمجھا۔
کہ یہ محبت کےتقاضے کے خلاف ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1418