صحيح مسلم
كِتَاب اللُّقَطَةِ
کسی کو ملنے والی چیز جس کے مالک کا پتہ نہ ہو
1ق. باب مَعْرِفَةِ الْعِفَاصِ وَالْوِكَاءِ وَحُكْمِ ضَالَّةِ الْغَنَمِ وَالإِبِلِ
باب: گمشدہ چیز کا اعلان کرنا اور بھٹکی ہوئی بکری اور اونٹ کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 4503
وحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، وَرَبِيعَةُ الرَّأْيِ ابْنُ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ : " أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ضَالَّةِ الْإِبِلِ زَادَ رَبِيعَةُ " فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ "، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِهِمْ وَزَادَ " فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَعَرَفَ عِفَاصَهَا وَعَدَدَهَا وَوِكَاءَهَا فَأَعْطِهَا إِيَّاهُ وَإِلَّا فَهِيَ لَكَ ".
حماد بن مسلمہ نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: مجھے یحییٰ بن سعید اور ربیعہ رائے بن ابو عبدالرحمان نے منبعث کے مولیٰ یزید سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گمشدہ اونٹ کے بارے میں پوچھا۔ (اس روایت میں) ربیعہ نے اضافہ کیا: تو آپ غصے ہوئے حتی کہ آپ کے دونوں رخسار مبارک سرخ ہو گئے۔۔ اور انہوں نے انہی کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی اور (آخر میں) یہ اضافہ کیا: "اگر اس کا مالک آ جائے اور اس کی تھیلی، (اندر جو تھا اس کی) تعداد اور اس کے بندھن کو جانتا ہو تو اسے دے دو ورنہ وہ تمہاری ہے
حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گمشدہ اونٹ کے بارے میں سوال کیا، ربیعہ اس میں یہ اضافہ کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار سرخ ہو گئے، آگے مذکورہ بالا حدیث ہے، جس میں یہ اضافہ ہے، ”اگر اس کا مالک آ جائے اور اس کی تھیلی، اس کی گنتی، اس کا بندھن پہچان لے تو اسے اس کو دے دے، وگرنہ وہ تیری چیز ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4503 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4503
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے اگر کوئی آدمی آ کر گمشدہ چیز کی درست علامات بتا دے تو وہ اس کے حوالہ کر دی جائے گی،
اس سے شہادت طلب نہیں کی جائے گی اور اس کے بارے میں بدگمانی کا شکار نہیں ہوا جائے گا۔
امام مالک اور امام احمد کا یہی موقف ہے،
لیکن احناف اور شوافع کے نزدیک اگر اٹھانے والا،
علامات بتانے سے مطمئن ہو جائے اور وہ اس کو سچا خیال کرے تو وہ دے سکتا ہے،
وگرنہ لازم اس صورت میں ہے جب اس کی ملکیت کا ثبوت پیش کرے۔
(المغني،
ج 8 ص: 309)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4503