صحيح مسلم
كِتَاب الْأَقْضِيَةِ
جھگڑوں میں فیصلے کرنے کے طریقے اور آداب
5. باب النَّهْيِ عَنْ كَثْرَةِ الْمَسَائِلِ مِنْ غَيْرِ حَاجَةٍ وَالنَّهْيِ عَنْ مَنْعٍ وَهَاتٍ وَهُوَ الاِمْتِنَاعُ مِنْ أَدَاءِ حَقٍّ لَزِمَهُ أَوْ طَلَبُ مَا لاَ يَسْتَحِقُّهُ:
باب: بہت پوچھنے سے اور مال کو تباہ کرنے سے ممانعت۔
حدیث نمبر: 4481
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ يَرْضَى لَكُمْ ثَلَاثًا وَيَكْرَهُ لَكُمْ ثَلَاثًا، فَيَرْضَى لَكُمْ أَنْ تَعْبُدُوهُ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَأَنْ تَعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا، وَلَا تَفَرَّقُوا، وَيَكْرَهُ لَكُمْ قِيلَ، وَقَالَ، وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ، وَإِضَاعَةِ الْمَالِ "،
جریر نے سہیل سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ اللہ تمہارے لیے تین چیزیں پسند کرتا ہے اور تین ناپسند کرتا ہے، وہ تمہارے لیے پسند کرتا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹو۔ اور وہ تمہارے لیے قیل و قال (فضول باتوں)، کثرتِ سوال اور مال ضائع کرنے کو ناپسند کرتا ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین باتوں کو پسند کرتا ہے اور تمہاری تین باتوں کو ناپسند فرماتا ہے، وہ تمہارے لیے پسند کرتا ہے کہ تم اس کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن، دین) کو مضبوطی سے پکڑو اور گروہ گروہ نہ بنو اور تمہارے لیے ناپسند کرتا ہے، بلامقصد، قیل و قال (بحث و تمحیص) کرو، بکثرت سوال کرو اور مال ضائع کرو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4481 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4481
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
أَنْ تَعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو،
یعنی دین کی پابندی پورے استحکام و مضبوطی کے ساتھ،
وحدت و یگانت کی صورت میں اختیار کرو،
ولا تفرقوا،
فرقوں اور گروہوں میں تقسیم نہ ہو،
اس سے ثابت ہوتا ہے،
مسائل میں اختلاف کے باوجود،
ان کی بنیاد پر گروہ بندی اور فرقہ سازی درست نہیں ہے،
اللہ کو مسلمانوں کی وحدت و یگانت ہی پسند ہے۔
قِيْلَ وَ قَالَ:
دونوں فعل ماضی کے صیغے بھی بن سکتے ہیں اور مصدر بھی،
مقصد یہ ہے کہ بلا مقصد،
فضول بحث و مباحثہ کرنا یا بلا ضرورت دینی مسائل میں بلا تحقیق و احتیاط مختلف اقوال نقل کرنا یا محض اپنی دھونس اور علمی رعب جمانے کے لیے بلا تحقیق،
بحث و مناظرہ کرنا درست نہیں ہے۔
كَثرَة السَّوَال:
بلا حاجت و ضرورت،
محض مال میں اضافہ کرنے کے لیے لوگوں سے مانگنا یا ایسے مسائل پوچھنا جو ابھی پیش نہیں آئے اور نہ آنے کا فی الوقت امکان ہے یا ان میں کسی قسم کا اشکال اور پیچیدگی ہے،
مسائل برزخ اور آخرت کے امور کی حقیقت و کیفیت کے بارے میں سوال کرنا یا ایسے سوال کرنا جو انسان کو شک اور حیرت میں ڈالنے والے ہیں،
مثلا اللہ نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے۔
إِضَاعة الماَل:
یعنی اسراف و تبذیر کرنا یا غیر شرعی کاموں پر مال خرچ کرنا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4481