صحيح مسلم
كِتَاب الْحُدُودِ
حدود کا بیان
5. باب مَنِ اعْتَرَفَ عَلَى نَفْسِهِ بِالزِّنَا:
باب: جو شخص زنا کا اعتراف کر لے اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 4431
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَعْلَى وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ الْمُحَارِبِيُّ ، عَنْ غَيْلَانَ وَهُوَ ابْنُ جَامِعٍ الْمُحَارِبِيُّ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " جَاءَ مَاعِزُ بْنُ مَالِكٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، طَهِّرْنِي، فَقَالَ: وَيْحَكَ ارْجِعْ فَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ وَتُبْ إِلَيْهِ، قَالَ: فَرَجَعَ غَيْرَ بَعِيدٍ ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، طَهِّرْنِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَيْحَكَ ارْجِعْ فَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ وَتُبْ إِلَيْهِ، قَالَ: فَرَجَعَ غَيْرَ بَعِيدٍ ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، طَهِّرْنِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى إِذَا كَانَتِ الرَّابِعَةُ، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ: فِيمَ أُطَهِّرُكَ؟، فَقَالَ: مِنَ الزِّنَا، فَسَأَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبِهِ جُنُونٌ؟، فَأُخْبِرَ أَنَّهُ لَيْسَ بِمَجْنُونٍ، فَقَالَ: أَشَرِبَ خَمْرًا، فَقَامَ رَجُلٌ فَاسْتَنْكَهَهُ فَلَمْ يَجِدْ مِنْهُ رِيحَ خَمْرٍ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَزَنَيْتَ؟، فَقَالَ: نَعَمْ، فَأَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ، فَكَانَ النَّاسُ فِيهِ فِرْقَتَيْنِ قَائِلٌ، يَقُولُ: لَقَدْ هَلَكَ لَقَدْ أَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ، وَقَائِلٌ يَقُولُ: مَا تَوْبَةٌ أَفْضَلَ مِنْ تَوْبَةِ مَاعِزٍ أَنَّهُ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَ يَدَهُ فِي يَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: اقْتُلْنِي بِالْحِجَارَةِ، قَالَ: فَلَبِثُوا بِذَلِكَ يَوْمَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً، ثُمَّ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ جُلُوسٌ فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ، فَقَالَ: اسْتَغْفِرُوا لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: فَقَالُوا: غَفَرَ اللَّهُ لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ أُمَّةٍ لَوَسِعَتْهُمْ، قَالَ: ثُمَّ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ غَامِدٍ مِنَ الْأَزْدِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ طَهِّرْنِي، فَقَالَ: وَيْحَكِ ارْجِعِي فَاسْتَغْفِرِي اللَّهَ وَتُوبِي إِلَيْهِ، فَقَالَتْ: أَرَاكَ تُرِيدُ أَنْ تُرَدِّدَنِي كَمَا رَدَّدْتَ مَاعِزَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: وَمَا ذَاكِ؟، قَالَتْ: إِنَّهَا حُبْلَى مِنَ الزّنَا، فَقَالَ: آنْتِ، قَالَتْ: نَعَمْ، فَقَالَ لَهَا: حَتَّى تَضَعِي مَا فِي بَطْنِكِ، قَالَ: فَكَفَلَهَا رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ حَتَّى وَضَعَتْ، قَالَ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: قَدْ وَضَعَتِ الْغَامِدِيَّةُ، فَقَالَ: إِذًا لَا نَرْجُمُهَا وَنَدَعُ وَلَدَهَا صَغِيرًا لَيْسَ لَهُ مَنْ يُرْضِعُهُ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: إِلَيَّ رَضَاعُهُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَالَ: فَرَجَمَهَا ".
سلیمان بن بریدہ نے اپنے والد (بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، انہوں نے کہا: ماعز بن مالک (اسلمی) رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! مجھے پاک کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم پر افسوس! جاؤ، اللہ سے استغفار کرو اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرو۔" کہا: وہ لوٹ کر تھوڑی دور تک گئے، پھر واپس آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! مجھے پاک کیجیے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم پر افسوس! جاؤ، اللہ سے استغفار کرو اور اس کی طرف رجوع کرو۔" کہا: وہ لوٹ کر تھوڑی دور تک گئے، پھر آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! مجھے پاک کیجیے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (پھر) اسی طرح فرمایا حتی کہ جب چوتھی بارر (یہی بات) ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: "میں تمہیں کس چیز سے پاک کروں؟" انہوں نے کہا: زنا سے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "کیا اسے جنون ہے؟" تو آپ کو بتایا گیا کہ یہ مجنون نہیں ہے۔ تو آپ نے پوچھا: "کیا اس نے شراب پی ہے؟" اس پر ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس کا منہ سونگھا تو اسے اس سے شراب کی بو نہ آئی۔ کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "کیا تم نے زنا کیا ہے؟" انہوں نے جواب دیا: جی ہاں (یہیں آپ نے اس سے اس واقعے کی تصدیق چاہی جو آپ تک پہنچا تھا) پھر آپ نے ان (کو رجم کرنے) کے بارے میں حکم دیا، چنانچہ انہیں رجم کر دیا گیا۔ بعد ازاں ان کے حوالے سے لوگوں کے دو گروہ بن گئے، کچھ کہنے والے یہ کہتے: وہ تباہ و برباد ہو گیا، اس کے گناہ نے اسے گھیر لیا۔ اور کچھ کہنے والے یہ کہتے: ماعز کی توبہ سے افضل کوئی توبہ نہیں (ہو سکتی) کہ وہ (خود) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا، پھر کہا: مجھے پتھروں سے مار ڈالیے۔ کہا: دو یا تین دن وہ (اختلاف کی) اسی کیفیت میں رہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، وہ سب بیٹحے ہوئے تھے، آپ نے سلام کہا، پھر بیٹھ گئے اور فرمایا: "ماعز بن مالک کے لیے بخشش مانگو۔" کہا: تو لوگوں نے کہا: اللہ ماعز بن مالک کو معاف فرمائے! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ انہوں نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر وہ ایک امت میں بانٹ دی جائے تو ان سب کو کافی ہو جائے۔" کہا: پھر آپ کے پاس ازد قبیلے کی شاخ غامد کی ایک عورت آئی اور کہنے لگی: اللہ کے رسول! مجھے پاک کیجیے۔ تو آپ نے فرمایا: "تم پر افسوس! لوٹ جاؤ، اللہ سے بخشش مانگو اور اس کی طرف رجوع کرو۔" اس نے کہا: میرا خیال ہے آپ مجھے بھی بار بار لوٹانا چاہتے ہیں جیسے ماعز بن مالک کو لوٹایا تھا۔ آپ نے پوچھا: "وہ کیا بات ہے (جس میں تم تطہیر چاہتی ہو؟) " اس نے کہا: وہ زنا کی وجہ سے حاملہ ہے۔ تو آپ نے (تاکیدا) پوچھا: کیا تم خود؟" اس نے جواب دیا: جی ہاں، تو آپ نے اسے فرمایا: " (جاؤ) یہاں تک کہ جو تمہارے پیٹ میں ہے اسے جنم دے دو۔" کہا: تو انصار کے ایک آدمی نے اس کی کفالت کی حتی کہ اس نے بچے کو جنم دیا۔ کہا: تو وہ آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ور کہنے لگا: غامدی عورت نے بچے کو جنم دے دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تب ہم (ابھی) اسے رجم نہیں کریں گے اور اس کے بچے کو کم سنی میں (اس طرح) نہیں چھوڑیں گے کہ کوئی اسے دودھ پلانے والا نہ ہو۔" پھر انصار کا ایک آدمی کھڑا ہوا ور کہا: اے اللہ کے نبی! اس کی رضاعت میرے ذمے ہے۔ کہا: تو آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دے دیا
حضرت سلیمان بن بریدہ اپنے باپ حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے (حد لگا کر) پاک کر دیجئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پر افسوس، واپس جاؤ، اللہ سے معافی مانگو اور اس کی طرف رجوع کرو۔“ تو وہ تھوڑی دور واپس چلے گئے، پھر آ کر کہنے لگے، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے پاک کر دیجئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پر افسوس! جا، اللہ سے معافی مانگ اور توبہ کر۔“ تو وہ پھر تھوڑی دور جا کر واپس آ گئے، پھر آ کر کہنے لگے، اے اللہ کے رسول! مجھے پاک کر دیجئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اپنے کلمات دہرا دئیے حتی کہ جب وہ چوتھی بار آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”میں تمہیں کس چیز سے پاک کروں؟“ تو اس نے جواب دیا زنا سے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ”کیا یہ دیوانہ ہے؟“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا یہ پاگل نہیں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”کیا اس نے شراب پی ہے؟“ تو ایک آدمی نے کھڑے ہو کر اس کا منہ سونگھا اور اس سے شراب کی بو محسوس نہ کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا واقعی تو نے زنا کیا ہے؟“ اس نے کہا، جی ہاں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اسے رجم کر دیا گیا اور لوگ اس کے بارے میں دو گروہوں میں بٹ گئے، بعض کہنے لگے وہ تباہ و برباد ہو گیا، اس کے گناہ نے اسے گھیر لیا اور بعض کہنے لگے ماعز کی توبہ سے بڑھ کر کسی کی توبہ نہیں ہے کہ وہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ رکھ کر کہنے لگا، مجھے پتھر سے مار ڈالئے، حضرت بریدہ کہتے ہیں دو، تین دن صحابہ میں یہی اختلاف رہا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے جبکہ دونوں گروہ بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام کہہ کر بیٹھ گئے اور فرمایا: ”ماعز بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے بخشش طلب کرو۔“ تو لوگوں نے کہا: اللہ تعالیٰ ماعز بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کو معاف فرمائے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے ایسی توبہ کی ہے، اگر ایک امت کے درمیان بانٹ دی جائے تو ان کے لیے کافی ہو جائے۔“ حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ازد قبیلہ کے خاندان غامد کی ایک عورت آئی اور کہنے لگی، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے پاک کر دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پر افسوس! واپس چلی جاؤ، اللہ سے بخشش طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو۔“ تو اس نے عرض کیا، میں سمجھتی ہوں آپ مجھے ماعز بن مالک ؓ کی طرح واپس لوٹانا چاہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا کیا معاملہ ہے؟“ اس نے کہا، مجھے زنا سے حمل ٹھہر چکا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”کیا تجھے؟“ اس نے کہا: جی ہاں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”تم وضع حمل تک ٹھہر جاؤ۔“ حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں تو ایک انصاری آدمی نے اس کے نان و نفقہ کی ذمہ داری برداشت کی حتی کہ اس نے بچہ جنا تو وہ انصاری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا غامدیہ عورت کا حمل وضع ہو گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تب ہم اس کو اس حالت میں رجم نہیں کریں گے کہ اس کے بچہ کو چھوٹا ہی چھوڑ دیں اور اس کو کوئی دودھ پلانے والا نہ ہو“ تو ایک انصاری آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا، اس کو دودھ پلانے کا ذمہ دار میں ہوں اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کروا دیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4431 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4431
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
فاستنكهه،
اس کے منہ کو سونگھا کہ اس کے منہ سے شراب کی بو تو محسوس نہیں ہوتی،
اس حدیث سے جمہور ائمہ نے یعنی امام مالک،
امام ابو حنیفہ اور امام احمد نے یہ استدلال کیا ہے کہ زنا کے بارے میں سکران (نشئی)
کے اقرار کا اعتبار نہیں ہے،
لیکن امام شافعی کے نزدیک سکران کے اقرار کو معتبر سمجھا جائے گا،
لیکن سکر (نشہ)
کی حالت میں اس پر حد قائم نہیں کی جائے گی،
لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔
(2)
ثم جاء رسول الله صلی الله عليه وسلم وهم جلوس:
اس حدیث سے بعض حضرات نے یہ استدلال کیا ہے کہ میت کے لیے جہاں لوگ بیٹھتے ہیں،
وہاں آنے والا دعا کرنے کے لیے کہہ سکتا ہے،
حالانکہ صورت حال یہ ہے کہ صحابہ کرام میت کے سوگ کے لیے تین دن بیٹھنے کا اہتمام ہی نہیں کرتے تھے،
یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے کہ وہ سوگ کے لیے تین دن مجلس قائم کرتے تھے،
یہاں تو صرف اس قدر بات ہے کہ ماعز پر حد قائم کرنے کے بعد،
صحابہ کرام دو گروہوں میں بٹ گئے،
ایک کے بقول وہ تباہ و برباد ہو گئے اور اپنے گناہ کی بھینٹ چڑھ گئے،
دوسرے کے نزدیک انہوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے کامیابی حاصل کی،
لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دن چونکہ ان کے لیے دعا نہیں کی،
اس لیے یہ اختلاف دو تین دن تک قائم رہا،
آپ نے یہ اختلاف ختم کرنے کے لیے جہاں وہ عام طور پر بیٹھتے تھے یا مسجد جہاں وہ جمع ہوتے تھے،
میں دونوں گروہوں کو بیٹھے دیکھ کر،
ان کے لیے بخشش طلب کرنے کے لیے فرمایا اور ان کو توبہ کی فضیلت بھی بیان کیا،
تاکہ وہ اختلاف ختم ہو جائے،
اس کا سوگ کی مجلس میں دعا کرنے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور نہ ہی کسی شارح نے یہ معنی کیا ہے کہ وہ مجلس سوگ تھی،
اگر بالفرض یہ مان لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوگ کی مجلس میں آ کر دعا منگوائی تو اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی محترم اور بزرگ شخصیت اگر آئے تو وہ دعا کروا سکتی ہے،
اس سے ہر آنے والے کے لیے فاتحہ پڑھنے کا جواب کیسے نکلا؟ کیا آپ کے بعد بھی مجلس میں کوئی نہیں آیا تھا یا اس مجلس سوگ کے سوا آپ کسی اور مجلس سوگ میں شریک نہیں ہوئے تھے اور کسی مجلس ماتم میں دعا کیوں نہیں کروائی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کی اقتدا میں یہ سلسلہ کیوں جاری نہیں رکھا،
احناف تو عمل صحابہ سے صحیح حدیث کو منسوخ ٹھہرا دیتے ہیں۔
(3)
قال رجل من الانصار الي رضاعه،
فرجمها:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غامدیہ عورت کے بچے کو دودھ پلانے کی مدت کے آغاز ہی میں رجم کروایا اور رضاعت انصاری کے ذمہ لگا دی،
حالانکہ آگے جو حدیث آ رہی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رجم اس وقت کروایا،
جب بچہ مدت رضاعت کے بعد (دودھ چھوڑنے کے بعد)
روٹی کھانے لگا تھا،
امام نووی نے دوسری روایات کو ترجیح دی ہے اور اس روایت کی تاویل کی ہے کہ یہاں رضاعت سے مراد بچے کی کفالت اور تربیت کا انتظام کرنا ہے،
لیکن حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے تھذیب السنن حدیث نمبر 4277،
میں آنے والی حدیث کے بارے میں لکھا ہے،
اس حدیث میں دو باتیں تمام روایات کے خلاف ہیں،
(1)
اقرار اور تردید (لوٹانا)
کا کام متعدد مجالس میں ہوا جب کہ باقی تمام احادیث سے ثابت ہوتا ہے یہ ایک ہی مجلس میں ہوا،
درمیان میں کسی دن کا فصل یا وقفہ نہیں ہے۔
(2)
اس میں گڑھا کھودنے کا ذکر ہے،
حالانکہ گڑھا نہیں کھودا گیا تھا،
اس لیے وہ بھاگ کھڑا ہوا اور اس کا راوی بشری بن مہاجر ہے،
جس پر بخاری،
امام احمد،
ابو حاتم،
ابن عدی،
ابن حبان اور عقیلی نے جرح کی ہے،
اگرچہ ابن معین اور عجلی نے اس ثقہ قرار دیا ہے،
اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ یہ روایت صحیح ہو اور رجم مدت رضاعت ہی میں کر دیا گیا ہو اور زھام کا ذکر،
بشیر بن مہاجر کا دوسرے دو کلموں کی طرح ایک اور وہم ہو اور امام خطابی نے لکھا ہے یہ دو عورتوں کا الگ الگ واقعہ ہو سکتا ہے،
ایک کو وضع حمل کے بعد رجم کیا گیا اور دوسری کو مدت رضاعت کے بعد،
امام ابو حنیفہ،
مالک اور شافعی کے نزدیک عورت کو وضع حمل کے بعد رجم کر دیا جائے گا اور امام احمد کے نزدیک مدت رضاعت کے بعد،
جب بچہ دودھ پینا چھوڑ دے گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4431
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 445
´جسے شرعی حد لگی ہوا اور وہ جاں بحق ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی`
”سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے غامدیہ کے قصہ میں مروی ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارتکاب زنا کی پاداش میں رجم و سنگساری کا حکم دیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ ادا کرنے کا حکم دیا پھر خود اس کی جنازہ پڑھی اور اسے دفن کیا گیا۔“ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 445]
لغوي تشريح:
«فِي قِصَّةِ الْغَامِدِيَّةِ» غامد کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے انہیں غامدیہ کہا جاتا ہے جو کہ قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ تھی۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ اس خاتون نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو اعتراف کیا کہ وہ زنا سے حاملہ ہے، لہٰذا نبی صلى الله عليه وسلم نے بچے کی ولادت اور مدت رضاعت مکمل ہو جانے کے بعد اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ رجم کا مطلب یہ ہے کہ مجرم کو پتھروں سے مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔
«فَصَّلّٰي عَلَيْهَا» اکثر شارحین کے نزدیک یہ معروف کا صیغہ ہے اور بعض کے نزدیک صیغہ مجہول ہے۔
فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث اس کی دلیل ہے کہ جسے شرعی حد لگی ہوا اور وہ جاں بحق ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [ارواء الغليل، حديث: 2323 ونيل الاوطار، باب الصلاة على من قتل فى حد]
➋ صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود غامدیہ کی نماز جنازہ ادا فرمائی تھی۔ کبیرہ گناہوں کا ارتکا ب کرنے والے، مثلاً خودکشی کرنے اور زنا وغیرہ کرنے والے کے بارے میں قاضی عیاض نے کہا ہے کہ علماء کے نزدیک ان کا جنازہ پڑھا جائے گا، البتہ امام مالک رحمہ الله فرماتے ہیں کہ امام (کبیر) اور مفتی کو فاسق کا جنازہ پڑھانے سے گریز کرنا چاہیے تاکہ فساق کو اس سے عبرت حاصل ہو۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 445
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4433
´ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کے رجم کا بیان۔`
بریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز کا منہ سونگھا (اس خیال سے کہ کہیں اس نے شراب نہ پی ہو)۔ [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4433]
فوائد ومسائل:
ازخود اقراری کے لئے یہ یقین کرلینا ضروری ہے کہ کہیں نشےمیں نہ ہو۔
اس سےیہ بھی معلوم ہوا کہ نشے اور بے ہوشی کے اعمال معتبر نہیں ہوتے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4433
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4442
´قبیلہ جہینہ کی ایک عورت کا ذکر جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کرنے کا حکم دیا۔`
بریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ غامد کی ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور عرض کیا: میں نے زنا کر لیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واپس جاؤ“، چنانچہ وہ واپس چلی گئی، دوسرے دن وہ پھر آئی، اور کہنے لگی: شاید جیسے آپ نے ماعز بن مالک کو لوٹایا تھا، اسی طرح مجھے بھی لوٹا رہے ہیں، قسم اللہ کی میں تو حاملہ ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ واپس جاؤ“ چنانچہ وہ پھر واپس چلی گئی، پھر تیسرے دن آئی تو آپ نے اس سے فرمایا: ”جاؤ واپس جاؤ بچہ پیدا ہو ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4442]
فوائد ومسائل:
1) فوائد اوپر کی روایت میں مذکور ہو چکے ہیں۔
مزید یہ کہ جس مسلمان کو حد لگائی جا رہی ہو اسکو برا بھلا کہنا جائز نہیں۔
2) بھتا لینا کبیرہ گناہ اور حرام ہے۔
3) ولد الزنا بحثییت انسانی جان کےایک معصوم جان ہے، اس میں اس کا اپنا کوئی قصوروعیب نہیں، حکومت اسلامیہ کے ذمے ہے کہ ایسے بچے کے دودھ پلانے، پالنے پوسنے اور عمدہ تعلیم وتربیت کا معقول انتظام کرے اور اخراجات برداشت کرے۔
4) ایسا شخص اپنے نسب کے اعتبار سے اگرچہ عام لوگوں سے عزت نہیں پاتا، لیکن اگر کسی طرح منصب امامت (صغری یاکبٰری) پر آجائے تواس کے اعمال صحیح اور درست ہوں گے اور اس کی اقتداء بھی صحیح ہوگی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4442
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4432
حضرت بریدہ رضی اللہ تعلی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ماعز بن مالک اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں اپنے اوپر ظلم کر چکا ہوں، میں نے زنا کیا ہے اور میں چاہتا ہوں آپ مجھے پاک کر دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کر دیا، جب اگلا دن آیا، وہ پھر آیا اور کہنے لگا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! تو آپﷺ نے دوبارہ واپس کر دیا، رسول اللہ صلی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4432]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ماعز رضی اللہ عنہ کی قوم انہیں اپنے بہتر افراد میں شمار کرتی تھی،
قوم کی اس صریح شہادت کے باوجود صاحب تدبر قرآن کا،
اس کو نہایت بدخصلت غنڈہ قرار دینا اور اس کی مغفرت کے لیے پہلے دن دعا نہ کرنے کو اس کے کٹر منافق ہونے کی شہادت قرار دینا ایک عملی بددیانتی اور خیانت ہے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے دن اس کے لیے دعائے مغفرت کروائی ہے اور اس کی توبہ کی تعریف بھی کی ہے۔
(2)
فَلَمَّا كَانَ الغَد:
یہاں بھی بشیر بن مہاجر دوسری روایات کی مخالفت کرتے ہیں،
باقی روایات سے ثابت ہے واپسی اور اعتراف،
ایک ہی مجلس میں ہوا ہے،
اس کو اگلے دن قرار دینا وہم ہے۔
(3)
حُفِرَلَهَا إِلَي صَدْرِهَا:
غامدیہ کے لیے اس کے سینہ تک گڑھا کھودا،
اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کو رجم کرتے وقت گڑھا کھودا جائے گا،
گڑھا کھودنے کے بارے میں ائمہ کے مندرجہ ذیل نظریات ہیں،
امام نووی لکھتے ہیں،
امام مالک،
امام ابو حنیفہ اور امام احمد کے نزدیک ان حضرات کے مشہور قول کے مطابق مرد اور عورت دونوں میں سے کسی کے لیے گڑھا نہیں کھودا جائے گا،
قتادہ،
ابو ثور،
ابو یوسف اور امام ابو حنیفہ کے ایک قول کے مطابق دونوں کے لیے گڑھا کھودا جائے گا اور بعض مالکیہ کے نزدیک،
ثبوت بینہ کی صورت میں گڑھا کھودا جائے گا اور اقرار کی صورت میں نہیں،
شوافع کے نزدیک مرد کے لیے کسی صورت میں گڑھا نہیں کھودا جائے گا اور عورت کے بارے میں تین اقوال ہیں،
(1)
پردہ پوش کے لیے سینے تک گڑھا کھودا مستحب ہے۔
(2)
امام کو اختیار ہے۔
(3)
زنا،
بینہ سے ثابت ہوا ہے تو کھودنا بہتر ہے اور اگر اقرار سے ثابت ہے تو نہیں کھودا جائے گا،
علامہ تقی نے لکھا ہے کہ احناف کا مختار موقف یہ ہے کہ عورت کے لیے گڑھا کھودا جائے گا اور مرد کے لیے نہیں کھودا جائے گا،
امام نووی نے جو لکھا ہے وہ احناف کے اکثر کتابوں کے مخالف ہیں،
(تکملہ،
ج 2،
ص 451)
۔
اس روایت میں ماعز کے لیے گڑھا کھودنے کا مسئلہ بھی راوی کا وہم ہے،
اگر گڑھا کھودا ہوتا تو وہ بھاگ کیسے گئے۔
(4)
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ 8ھ ماہ صفر میں مسلمان ہو کر مدینہ آئے ہیں،
جس سے ثابت ہوتا ہے کہ غامدیہ کا واقعہ سورہ نور کے نزول کے بعد پیش آیا ہے کیونکہ سورہ نور 5 یا 1 ہجری میں اتری ہے اور جمہور فقہاء کے نزدیک اخبار آحاد سے قرآنی حکم کی تخصیص جائز ہے کیونکہ وہ بیان ہے فسخ نہیں ہے اور احناف کے نزدیک مشہور اور متواتر روایات سے تخصیص جائز ہے اور احادیث رجم معنی متواتر ہیں،
امام ابن ھمام اور علامہ آلوسی اور شاہ ولی اللہ نے اس کی تصریح کی ہے اور حدیث 52 صحابہ سے مروی ہے۔
(تفصیل کے لیے دیکھئے،
تکملہ،
ج 2،
ص 420 تا 423) (5)
لَوْ تَابَهَا صَاحِبُ مكس:
اگر اس قسم کی توبہ ظلما ٹیکس وصول کرنے والا کرتا تو اس کو بھی معافی مل جاتی،
اس سے ثابت ہوتا ہے،
ظلما،
چنگی،
محصول یا ٹیکس وصول کرنا بہت بڑا جرم اور گناہ ہے جو تباہی و ہلاکت کا باعث ہے،
کیونکہ بے شمار لوگوں سے بار بار وصول کیا جاتا ہے اور اس کو عیش و عشرت کے کاموں میں لٹا دیا جاتا ہے۔
(6)
فَصلي عَلَيْهَا:
بعض حضرات نے اس کو مجہول کا صیغہ بنایا ہے اور اس کی بناء پر امام مالک اور امام احمد کے نزدیک امام اور اصحاب علم و فضل مرجوم کا (جس کو رجم کیا گیا ہے)
جنازہ نہیں پڑھیں گے،
لیکن عام طور پر اس کو معروف کا صیغہ قرار دیا گیا ہے،
اس لیے امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کے نزدیک،
سب جنازہ میں شریک ہوں گے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4432