Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْحُدُودِ
حدود کا بیان
1. باب حَدِّ السَّرِقَةِ وَنِصَابِهَا:
باب: چوری کی حد اور اس کے نصاب کا بیان۔
حدیث نمبر: 4399
وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ كلهم، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِمِثْلِهِ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ.
، سلیمان بن کثیر اور ابراہیم بن سعد سب نے زہری سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی
امام صاحب اپنے تین اساتذہ کی دو سندوں سے، زہری کی مذکورہ بالا سند سے ہی مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4399 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4399  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
حد لغوی طور پر،
بندش اور رکاوٹ کو کہتے ہیں،
اس لیے دربان کو جو لوگوں کو اندر نہیں آنے دیتا،
حداد کہتے ہیں اور جو چیز دو چیزوں کے درمیان حائل ہو،
ان کو آپس میں ملنے نہ دے،
اس کو بھی حد کہتے ہیں اور حد کا لفظ بعض دفعہ،
گناہ پر بھی بولا جاتا ہے،
کیونکہ وہ سزا کا باعث بنتا ہے اور زانی کی سزا کو حد کہتے ہیں،
کیونکہ وہ دوبارہ اس جرم کے ارتکاب کے درمیان حائل ہوتی ہے یا اس لیے کہ اس کو شارع نے مقرر کیا ہے،
جس میں کمی و بیشی کا کسی کو اختیار نہیں ہے۔
(2)
اس حدیث سے جو متفق علیہ (بخاری و مسلم)
ہے سے ثابت ہوتا ہے کہ چوری کا نصاب جس پر چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا،
تاکہ وہ آئندہ اس قبیح حرکت کا ارتکاب نہ کرے اور دوسروں کے لیے سامان عبرت بنے اور لوگوں کا مال دوسروں کی دستبرد سے محفوظ ہو جائے،
چوتھائی دینار یا تین درہم ہے،
اس سے کم مالیت کی چیز کی چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا،
ائمہ حجاز امام مالک،
شافعی اور احمد کا موقف یہی ہے اور احناف کے نزدیک دس درہم یا ایک دینار اور علامہ تقی نے بلا دلیل اس حدیث کو مضطرب بنانے کی سعی لا حاصل کی ہے،
کیونکہ ایک روایت میں ہے،
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں چور کا ہاتھ ڈھال سے کم قیمت کی چیز پر نہیں کاٹا گیا،
یہ ڈھال جحفہ ہو جو بغیر لکڑی کے چمڑے کی ڈھال کو کہتے ہیں یا ترس ہو یعنی ڈھال ہو،
دوسری روایت میں،
جحفہ اور ترس دونوں قیمتی اشیاء ہیں،
تیسری روایت وہ ہے جو اوپر مذکورہ ہو چکی ہے،
ان روایات میں اضطراب و اختلاف کیا ہے اور نسائی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے،
مجن ڈھال کی قیمت اس وقت ربع دینار تھی،
ان مرفوع روایات کے مقابلہ میں صحابہ کے اقوال کو حجت بنانا،
جبکہ یہ بھی ممکن ہو کہ بعد میں ڈھال کی قیمت بڑھ گئی ہے،
اس لیے انہوں نے ڈھال کی قیمت بڑھنے کی بنا پر ڈھال کی قیمت کے اعتبار سے یہ کہہ دیا ہو،
اعتبار ڈھال کا ہے،
جس کی قیمت اب یہ ہے،
جیسا کہ موجودہ دور میں ربع دینار یا تین درہم کی قیمت بہت بڑھ چکی ہے اور یہ روایت صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول نہیں ہے،
بلکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے،
جیسا کہ آگے آ رہا ہے،
جس میں صراحت موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈھال کی چوری پر چور کا ہاتھ کاٹا جس کی قیمت تین درہم تھی،
اس لیے یہ کہنا کہ مجن کی قیمت کا تعین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی طرف سے کیا،
حالانکہ ڈھال کی قیمت زیادہ تھی،
درست نہیں ہے،
جبکہ اس کے مقابلہ میں جو حدیث دس درہم والی پیش کی جاتی ہے،
وہ ضعیف ہے،
تفصل کے لیے دیکھئے،
(فتح الباري،
ج: 12،
ص 124-125)

حافظ ابن حجر نے نصاب کے سلسلہ میں بیس (20)
اقوال نقل کیے ہیں،
لیکن مرفوع روایت کے مقابلہ میں کسی کا قول حجت نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4399