صحيح مسلم
كِتَاب الْقَسَامَةِ وَالْمُحَارِبِينَ وَالْقِصَاصِ وَالدِّيَاتِ
قتل کی ذمہ داری کے تعین کے لیے اجتماعی قسموں، لوٹ مار کرنے والوں (کی سزا)، قصاص اور دیت کے مسائل
11. باب دِيَةِ الْجَنِينِ وَوُجُوبِ الدِّيَةِ فِي قَتْلِ الْخَطَإِ وَشِبْهِ الْعَمْدِ عَلَى عَاقِلَةِ الْجَانِي:
باب: پیٹ کے بچے کی دیت اور قتل خطا اور شبہ عمد کی دیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4392
وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: اقْتَتَلَتِ امْرَأَتَانِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِقِصَّتِهِ، وَلَمْ يَذْكُرْ " وَوَرَّثَهَا وَلَدَهَا وَمَنْ مَعَهُمْ " وَقَالَ: فَقَالَ قَائِلٌ: كَيْفَ نَعْقِلُ وَلَمْ يُسَمِّ حَمَلَ بْنَ مَالِكٍ؟.
معمر نے زہری سے، انہوں نے ابوسلمہ سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: دو عورتیں باہم لڑ پڑیں۔۔۔ اور پورے قصے سمیت حدیث بیان کی اور یہ ذکر نہیں کیا: آپ نے اس کے بیٹے اور اس کے ساتھ موجود دوسرے حقداروں کو اس کا وارث بنایا۔ اور کہا: اس پر ایک کہنے والے نے کہا: ہم کیسے دیت دیں؟ اور انہوں نے حمل بن مالک کا نام نہیں لیا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ دو عورتیں لڑ پڑیں، آگے مذکورہ بالا واقعہ بیان کیا، لیکن امام صاحب کے اس استاد نے یہ بات بیان نہیں کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اولاد اور دوسرے ساتھ موجود وارثوں کو وارث قرار دیا اور یہ کہا ایک کہنے والے نے کہا، ہم دیت کیونکر ادا کریں؟ اور حمل بن مالک کا نام نہیں لیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4392 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4392
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مقتولہ عورت کی دیت اور اس کے جنین کا تاوان آپﷺ نے عاقلہ پر ڈالا،
لیکن جب قاتلہ فوت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا وارث اس کی اولاد اور خاوند کو ٹھہرایا اور یہاں قصاص کی بجائے دیت کی ادائیگی کا حکم دیا،
کیونکہ یہ قتل،
قتل عمد نہیں تھا،
بلکہ شبہ العمد تھا اور قتل خطاء اور قتل شبہ العمد کی حد دیت ہے،
قصاص نہیں ہے،
یہاں تک کہ قاتلہ کے خاوند نے کہا کہ جنین کی دیت ناقابل فہم ہے،
کیونکہ اسے عصبہ ہونے کی وجہ سے دیت ادا کرنا پڑ رہی تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قافیہ بندی کو کہانت قرار دیا،
کیونکہ اس نے یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے بعد کہی تھی اور حق کے مقابلہ میں سجع بندی تصنع اور بناوٹ کے ساتھ کی تھی،
اگر قافیہ بندی جائز امور میں بلاتکلف اور بلا تصنع ہو تو وہ ناپسندیدہ نہیں ہے۔
عاقلہ سے مراد،
عصبات ہیں اور بقول ابن قدامہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے،
لیکن اس میں اختلاف ہے،
کیا باپ اور قاتل یا قاتلہ کی اولاد اس میں داخل ہے یا نہیں،
امام ابو حنیفہ اور امام مالک کے نزدیک اس میں قاتل کا باپ،
اولاد،
بھائی،
چچے اور ان کی اولاد سب داخل ہیں،
امام احمد کا ایک قول یہی ہے،
جسے ابوبکر نے اختیار کیا ہے،
(المغني،
ج 12،
ص 39)
لیکن امام شافعی کے نزدیک باپ اور اولاد عاقلہ میں داخل نہیں ہے،
امام احمد کا دوسرا قول یہی ہے،
(المغني،
ج 12،
ص 40)
اگر عاقلہ سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جو اس کا تحفظ اور دفاع کرتے ہیں،
کیونکہ عقل کا معنی بندش و رکاوٹ اور تحفظ ہے تو پھر یہ لوگ اس میں داخل ہونے چاہئیں،
جاہلیت کے دور میں تحفظ و دفاع،
انسان کا خاندان اور قبیلہ ہی کرتا تھا،
لیکن آج کل تحفظ مزدوروں کی انجمنیں تاجران کی انجمنیں اور سیاسی جماعتیں فراہم کرتی ہیں اور اگر عدالت خاندان و قبیلہ کے بجائے انجمنوں اور سیاسی جماعتوں کو عاقلہ بنا لے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ کے مطابق کہ انہوں نے جب دفاتر کا نظام رائج کیا تو اہل دیوان کو ایک دوسرے کا عاقلہ ٹھہرایا،
اگر قاتل کا تعلق اہل دیوان (کسی محکمہ)
سے نہ ہوتا تو اس کے عصبات کو عاقلہ ٹھہراتے،
اس کی گنجائش موجود ہے اور قتل کی اکثر ائمہ نے تین قسمیں کی ہیں،
اگرچہ تفصیلات میں اختلاف ہے:
(1)
قتل عمد کہ قاتل کا مقصد قتل کرنا ہو۔
(2)
شبہ العمد،
جس میں مقصد سرزنش و توبیخ ہو یا اس کو مارنا پیٹنا ہو اور اس کے لیے ایسا آلہ استعمال کیا ہو،
جو عام طور پر قتل کا باعث نہیں بنتا،
جیسے ڈنڈا،
مکا،
چھوٹا پتھر وغیرہ لیکن چونکہ مار پیٹ عمدا کی ہے،
اس لیے اس کو شبہ بالعمد کہتے ہیں،
جس میں دیت شدید ہوتی ہے،
قتل عمد کی طرح قصاص حد نہیں ہے،
یعنی اس سے قصاص نہیں لیا جا سکتا۔
(3)
قتل خطاء جس میں کسی انسان کو نشانہ بنایا مقصود نہ ہو،
شکار پر تیر چلایا یا کسی ایسی جگہ اسلحہ چلایا جہاں کوئی انسان نہ تھا،
لیکن غیر شعوری طور پر نشانہ انسان بن گیا ہے،
یہاں دیت خفیفہ ہے اور شبہ عمد اور قتل خطاء میں دیت عاقلہ کے ذمہ ہوتی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4392