حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَبِي مُسْلِمٍ، عَنْ طَاوُسٍ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ يَتَهَجَّدُ , قَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ لَكَ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ الْحَقُّ، وَوَعْدُكَ الْحَقُّ، وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ، وَقَوْلُكَ حَقٌّ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ , وَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقٌّ , وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ وَبِكَ خَاصَمْتُ وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ، فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَوْ لَا إِلَهَ غَيْرُكَ"، قَالَ سُفْيَانُ: وَزَادَ عَبْدُ الْكَرِيمِ أَبُو أُمَيَّةَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ , قَالَ سُفْيَانُ: قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ أَبِي مُسْلِمٍ، سَمِعَهُ مِنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1120
حدیث حاشیہ:
مسنون ہے کہ تہجد کی نماز کے لیے اٹھنے والے خوش نصیب مسلمان اٹھتے ہی پہلے یہ دعا پڑھ لیں۔
لفظ تہجد باب تفعل کا مصدر ہے، اس کا مادہ ہجود ہے۔
علامہ قسطلانی ؒ فرماتے ہیں:
أصله ترك الھجود وھو النوم قال ابن فارس المتھجد المصلي لیلا فتھجد به أي اترك الھجود للصلٰوة۔
یعنی اصل اس کا یہ ہے کہ رات کو سونا نماز کے لیے ترک دیا جائے۔
پس اصطلاحی معنی متہجد کے مصلّی (نمازی)
کے ہیں جو رات میں اپنی نیند کو خیرباد کہہ کر نماز میں مشغول ہو جائے۔
اصطلاح میں رات کی نماز کو نماز تہجد سے موسوم کیا گیا۔
آیت شریفہ کے جملہ نافلة لك کی تفسیر میں علامہ قسطلانی لکھتے ہیں۔
فریضة زائدة لك علی الصلوات المفروضة خصصت بھامن بین أمتك روی الطبراني بإسناد ضعیف عن ابن عباس أن النافلةَ للنبيِ صلی اللہ علیه وسلم خاصة لأنهُ أَمرَ بقیامِ اللیلِ وکتب علیهِ دونَ أُمتهِ۔
یعنی تہجد کی نماز آنحضرت ﷺ کے لیے نماز پنجگانہ کے علاوہ فرض کی گئی اور آپ کو اس بارے میں امت سے ممتاز قرار دیا گیا کہ امت کے لیے یہ فرض نہیں مگر آپ پر فرض ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے بھی لفظ نافلة لك کی تفسیر میں فرمایا کہ یہ خاص آپ کے لیے بطور ایک فرض نماز کے ہے۔
آپ رات کی نماز کے لیے مامور کیے گئے اور امت کے علاوہ آپ پر اسے فرض قرار دیا گیا لیکن امام نووی ؒ نے بیان کیا کہ بعد میں آپ کے اوپر سے بھی اس کی فرضیت کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔
بہرحال نماز تہجد فرائض پنجگانہ کے بعد بڑی اہم نماز ہے جو پچھلی رات میں ادا کی جاتی ہے اور اس کی گیارہ رکعات ہیں جن میں آٹھ رکعتیں دو دو کرکے سلام سے ادا کی جاتی ہیں اورآخر میں تین وتر پڑھے جاتے ہیں۔
یہی نماز رمضان میں تراویح سے موسوم کی گئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1120
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1120
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کے ظاہر سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو مذکورہ دعا پڑھتے بلکہ امام ابن خزیمہ ؒ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
”رسول اللہ ﷺ مذکورہ دعا تکبیر تحریمہ کے بعد پڑھتے تھے۔
“ ان کی بیان کردہ روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ أکبر کہنے کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے۔
(2)
واضح رہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے جب اپنی خالہ ام المومنین حضرت میمونہ ؓ کے گھر میں رات گزاری تھی تو اس وقت انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے مذکورہ دعا سنی تھی۔
(فتح الباري: 6/3) (3)
امام بخاری ؒ نے روایت کے آخر میں سفیان کے حوالے سے راوئ حدیث سلیمان کا حضرت طاؤس سے سماع ثابت کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1120
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 165
´رات کے آخری پہر، اللہ سے دعا مانگنا `
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا قام إلى الصلاة من جوف الليل يقول: ”اللهم لك الحمد انت نور السموات والارض . . .»
”. . . جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری تہائی حصے میں نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو کہتے: اے میرے اللہ! حمد و ثنا تیری ہی ہے اور تو ہی آسمانوں اور زمین کا نور (منور کرنے والا) ہے حمد و ثنا تیری ہی ہے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 165]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 769، من حديث ما لك به ورواه سليمان الحول عن طاوس به عند مسلم وهٰذا متابعة تامة والحمد لله]
تفقه
➊ «قَّيام، قَّيوم، قّيم» کا ایک ہی مطلب ہے یعنی قائم رکھنے والا جس کے علم سے زمین و آسان قائم ہیں۔
➋ انتہائی خشوع و خضوع سے اللہ کی حمد و ثنا بیان کر کے اس سے دعا مانگنی چاہئے۔
➌ رات کے آخری پہر، اللہ سے دعا مانگنا انتہائی پسندیدہ کام اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
➍ بعض دعائیں رات کی نماز (تہجد) میں پڑھی جاتی ہیں، مذکورہ دعا بھی انہی میں سے ایک ہے۔ یہ دعائے افتتاح مثلاً: «اللهم باعد بيني» يا «سبحانك اللهم» کے بعد یا پھر اس کی جگہ مذکورہ دعا پڑھی جائے گی۔ واللہ اعلم
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 111
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 771
´نماز کے شروع میں کون سی دعا پڑھی جائے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا پڑھتے: «اللهم لك الحمد أنت نور السموات والأرض ولك الحمد أنت قيام السموات والأرض ولك الحمد أنت رب السموات والأرض ومن فيهن أنت الحق وقولك الحق ووعدك الحق ولقاؤك حق والجنة حق والنار حق والساعة حق اللهم لك أسلمت وبك آمنت وعليك توكلت وإليك أنبت وبك خاصمت وإليك حاكمت فاغفر لي ما قدمت وأخرت وأسررت وأعلنت أنت إلهي لا إله إلا أنت» ”اے اللہ! تیرے لیے حمد و ثنا ہے، تو ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے، تیرے لیے حمد و ثنا ہے، تو ہی آسمانوں اور زمین کو قائم رکھنے والا ہے، تیرے لیے حمد و ثنا ہے، تو آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے، سب کا رب ہے، تو حق ہے، تیرا قول حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، تجھ سے ملاقات حق ہے، جنت حق ہے، جہنم حق ہے اور قیامت حق ہے، اے اللہ! میں تیرا فرماں بردار ہوا، تجھ پر ایمان لایا، صرف تجھ پر بھروسہ کیا، تیری ہی طرف توبہ کی، تیرے ہی لیے جھگڑا کیا، اور تیری ہی طرف فیصلہ کے لیے آیا، تو میرے اگلے اور پچھلے، چھپے اور کھلے سارے گناہ معاف فرما، تو ہی میرا معبود ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔“ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 771]
771۔ اردو حاشیہ:
تمام ہی نمازوں میں ثناءکے موقع پر اس دعا کا پڑھنا مستحب ہے، بالخصوص تہجد میں، اس دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس انداز سے اظہار عبودیت کیا ہے وہ آپ ہی کا مقام ہے۔ ان میں ایمان اسلام اور احسان کا خلاصہ آ گیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 771
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1620
´قیام اللیل کس دعا سے شروع کی جائے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو تہجد پڑھنے کے لیے اٹھتے تو کہتے: «اللہم لك الحمد أنت نور السموات والأرض ومن فيهن ولك الحمد أنت قيام السموات والأرض ومن فيهن ولك الحمد أنت ملك السموات والأرض ومن فيهن ولك الحمد أنت حق ووعدك حق والجنة حق والنار حق والساعة حق والنبيون حق ومحمد حق لك أسلمت وعليك توكلت وبك آمنت» ”اے اللہ! تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں، تو آسمانوں اور زمین کا اور جو ان میں ہیں سب کا روشن کرنے والا ہے، تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں، تو آسمانوں اور زمین کا اور جو ان میں ہیں سب کا قائم و برقرار رکھنے والا ہے، تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں، تو آسمانوں اور زمین اور جوان میں ہیں سب کا بادشاہ ہے، تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں، تو حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، جنت حق ہے، جہنم حق ہے، قیامت حق ہے، انبیاء حق ہیں، اور محمد حق ہیں، میں نے تیری ہی فرمانبرداری کی، اور تجھی پر میں نے بھروسہ کیا، اور تجھی پر ایمان لایا“، پھر قتیبہ نے ایک بات ذکر کی اس کا مفہوم ہے (کہ آپ یہ بھی کہتے:) «وبك خاصمت وإليك حاكمت اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أعلنت أنت المقدم وأنت المؤخر لا إله إلا أنت ولا حول ولا قوة إلا باللہ» ”اور تیرے ہی لیے میں نے جھگڑا کیا، تیری ہی طرف میں فیصلہ کے لیے آیا، بخش دے میرے اگلے پچھلے، چھپے اور کھلے گناہ، تو ہی آگے اور پیچھے کرنے والا ہے، نہیں ہے کوئی حقیقی معبود مگر تو ہی، اور نہ ہی کسی میں زور و طاقت ہے سوائے اللہ کے۔“ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1620]
1620۔ اردو حاشیہ:
➊ ”نور ہے“ یعنی آسمانوں اور زمینوں میں نور پیدا کرنے والا ہے۔ یا تو بے عیب ہے یا تو آسمانوں اور زمینوں کی زینت ہے۔
➋ ”تو برحق ہے“ یعنی صرف تیرا وجود حقیقی ہے، باقی تو کالعدم (بت) ہیں یا تیرا وجود اور توحیدحقیقت ہے۔
➌ ”جو ابھی نہیں کیے“ مگر بعد میں ہوں گے، بعد میں ہونے والے گناہوں کی معافی مانگنے میں کوئی استحالہ نہیں کیونکہ ان کا ہونا طبعی بات ہے۔
➍ ”نہ فائدہ حاصل کرنے کی طاقت“ اس میں ہر نقصان اور فائدہ داخل ہے، مثلاً: گناہ، نیکی اور دیگر دنیوی و اخروی نقصانات و فوائد۔
➎ ”آگے پیچھے کرنے والا“ یعنی مرتبہ اور شان بڑھانے اور گھٹانے والا ہے یا موت و حیات کے لحاظ سے یا عزت و ذلت کے لحاظ سے یا ہدایت اور گمراہی کے لحاظ سے۔ یہ معنی بھی کیے گئے ہیں کہ تو سب سے اول اور سب سے آخر ہے۔
➏ اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں یہ حدیث انتہائی جامع ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی وصف بھی ان اوصاف سے خارج نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1620
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1355
´رات میں آدمی جاگے تو کیا دعا پڑھے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں تہجد پڑھتے تو یہ دعا پڑھتے: «اللهم لك الحمد أنت نور السموات والأرض ومن فيهن ولك الحمد أنت قيام السموات والأرض ومن فيهن ولك الحمد أنت مالك السموات والأرض ومن فيهن ولك الحمد أنت الحق ووعدك حق ولقاؤك حق وقولك حق والجنة حق والنار حق والساعة حق والنبيون حق ومحمد حق اللهم لك أسلمت وبك آمنت وعليك توكلت وإليك أنبت وبك خاصمت وإليك حاكمت فاغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت أنت المقدم وأنت المؤخر لا إله إلا أنت ولا إله غيرك ولا حول ولا قوة إلا بك» ”اے اللہ! تیری حمد و ث۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1355]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نماز تہجد کے لئے جاگیں تو پہلے یہ دعا پڑھیں۔
پھر وضو وغیرہ کرکےنماز شروع کریں۔
(2)
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب انوار اسی کے دیئے ہوئے اور پیدا کیے ہوئے ہیں۔
اللہ کی ذات کی تجلی برداشت کرنا اس دنیا میں تو پہاڑ کے لئے بھی ممکن نہیں البتہ جنت میں مومنوں کو اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا۔
جیسے کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، باب معرفة طریق الرویة، حدیث: 182)
(3)
تو حق ہے۔
اس میں اللہ کے وجود کا اقرار بھی ہے۔
اور یہ اظہار بھی کہ اس کے تمام احکام درست ہیں۔
خواہ ہمیں ان کی حکمت کا علم ہو یا نہ ہو۔
(4)
اللہ کے وعدوں سےمراد وہ امور ہیں۔
جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے کہ فلاں کام کا یہ ثواب ہے۔
اور فلاں کام کے نتیجے میں دنیا وآخرت میں یہ سزا ملے گی۔
(5)
اللہ کی ملاقات سے مراد یہ ہے کہ موت کے بعد جی اٹھنا یقینی ہے۔
جس کے بعد اپنی زندگی کے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔
اور یہ مطلب بھی ہے کہ جنت میں اللہ تعالیٰ کی زیارت ہوگی۔
(6)
اللہ کے فرمان کے حق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے ذریعے سے ہمیں ماضی کے جو واقعات بتائے ہیں۔
وہ یقیناً اس طرح پیش آئے تھے۔
جس طرح بیان کئے گئے ہیں اسی میں کائنات کی تخلیق کے مسائل بھی آ جاتے ہیں۔
اورانبیاء کرام کا اپنی اقوام کو تبلیغ کرنا ایذائوں پر صبر کرنا قوم میں سے انکار کرنے والوں پر عذاب آنا وغیرہ بھی شامل ہیں۔
اس میں وہ ابدی اور دائمی قوانین بھی شامل ہیں۔
جو انبیاء کرام علیہ السلام کے ذریعے سے ہمیں بتائے گئے ہیں۔
مثلاً ﴿مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ﴾ (النساء: 123)
”جو شخص برا کام ہوگا۔
اسے اس کی سزا مل جائے گی“ اور (مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ وَمَا زَادَ اللَّهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ) (صحیح مسلم، البر والصلة والأدب، باب استحباب العفو والتواضع، حدیث: 2588)
”صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا اور معاف کرنے سے اللہ بندے کی عزت ہی میں اضافہ فرماتا ہے اور جو کوئی بھی اللہ کی رضا کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اسے ضرور بلندی عطا فرماتا ہے۔
(7)
جنت اور جہنم کے حق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حقیقت میں موجود ہیں۔
ان کا ذکر تشبیہ اور استعارہ کے طورپر نہیں کیا گیا ان کی نعمتو ں اور عذاب کی جو تفصیل قرآن مجید اور صحیح احادیث میں وار د ہے وہ شک وشبہ سے بالاتر ہے۔
(8)
قیامت حق ہے۔
یعنی اس لے لئے اللہ نے جو وقت مقرر کیا ہے۔
اس وقت یقیناً آئے گی۔
اور اس کی جو تفصیلات قرآن وحدیث میں مذکور ہیں وہ سب یقینی ہیں۔
(9)
تمام انبیاء کرام اور بالخصوص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ تمام حضرات اپنے اپنے وقت پر اللہ کی طرف سے مبعوث ہوئے وہ سچے تھے۔
اور کردار کی تمام خوبیوں کے حامل اور ہرقسم کی عملی اور اخلاقی کمزوریوں سے پاک تھے۔
انھوں نے اللہ کے احکام اپنی اپنی امت تک پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔
اور اپنی طرف سے مسائل گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب نہیں کئے۔
(10) (محمد حق)
تک وہ عقیدہ بیان ہوا ہے جو ہر مسلمان کو رکھنا چاہیے۔
اور اس کے بعد ایک مخلص مومن کا اللہ کے ساتھ تعلق اور اس کے مختلف پہلو اجاگر کیے گئے ہیں۔
(11)
یہ دعا اس لحاظ سے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔
کہ اس میں صحیح عقیدے کا اقرار۔
اللہ کے صحیح تعلق کی وضاحت اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا اور آخر میں پھر اللہ کی تعریف اور اپنے عجز کا اظہار ہے رات کے آخری حصے کی تنہائی میں جب بندہ اللہ کے سامنے عبودیت کا اس انداز سے اظہار کرتا ہے۔
تویقیناً اسے اللہ کی رضا اور قرب کے عظیم درجات حاصل ہوتے ہیں۔
وباللہ التوفیق
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1355
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3418
´رات میں نماز تہجد پڑھنے کے لیے اٹھے تو کیا کہے؟`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں تہجد کے لیے اٹھتے تو یہ دعا پڑھتے: «اللهم لك الحمد أنت نور السموات والأرض ولك الحمد أنت قيام السموات والأرض ولك الحمد أنت رب السموات والأرض ومن فيهن أنت الحق ووعدك الحق ولقاؤك حق والجنة حق والنار حق والساعة حق اللهم لك أسلمت وبك آمنت وعليك توكلت وإليك أنبت وبك خاصمت وإليك حاكمت فاغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت أنت إلهي لا إله إلا أنت» ”اے اللہ! تیرے ہی لیے سب تعریف ہے تو ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے، (اور آسمان و زمین کے درمیان روشنی پی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3418]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے اللہ! تیرے ہی لیے سب تعریف ہے تو ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے،
(اور آسمان وزمین کے درمیان روشنی پیدا کرنے والا) تیرے ہی لیے سب تعریف ہے تو ہی آسمانوں اور زمین کو قائم کرنے والا ہے،
تیرے لیے ہی سب تعریف ہے تو آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کا رب ہے،
تو حق ہے تیرا وعدہ حق (سچا) ہے تیری ملاقات حق ہے،
جنت حق ہے جہنم حق ہے،
قیامت حق ہے۔
اے اللہ! میں نے اپنے کو تیرے سپرد کر دیا،
اور تجھ ہی پر ایمان لایا،
اور تجھ ہی پر بھروسہ کیا،
اور تیری ہی طرف رجوع کیا،
اور تیرے ہی خاطر میں لڑا اور تیرے ہی پاس فیصلہ کے لیے گیا۔
اے اللہ! میں پہلے جو کچھ کر چکا ہوں اور جو کچھ بعد میں کروں گا اور جو پوشیدہ کروں اور جو کھلے عام کروں میرے سارے گناہ اور لغزشیں معاف کر دے،
تو ہی میرا معبود ہے،
اور تیرے سوا میرا کوئی معبود برحق نہیں ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3418
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:503
503- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کے وقت نماز تہجد ادا کرنے کے لئے اٹھتے تھے، تو یہ دعا مانگا کرتے تھے: ”اے اللہ! حمد تیرے لئے مخصوص ہے، تو آسمانوں اور زمین میں موجود سب چیزوں کو روشن کرنے والا ہے، حمد تیرے لئے مخصوص ہے، تو آسمانوں، زمین اور ان میں موجود سب چیزوں کو قائم رکھنے ولا ہے، حمد تیرے لئے مخصوص ہے، تو آسمانوں، زمین اور ان میں موجود سب چیزوں کا بادشاہ ہے، حمد تیرے لئے مخصوص ہے، تو حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، تیری بارگاہ میں حاضری حق ہے، جہنم حق ہے، قیامت حق ہے، (سیدنا) محمد(ﷺ) حق ہیں، تمام انبیاء حق ہیں۔ اے اللہ! میں نے تیر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:503]
فائدہ:
اس حدیث میں قیام الیل کے وقت کی ایک دعا کا ذکر ہے، یاد رہے کہ نفلی اور فرضی نمازوں کے ایک ہی مسائل ہیں، الا کہ فرق کی کوئی واضح دلیل مل جائے۔ تمام دعاؤں میں زبردست عقیدہ بیان کیا گیا ہے، خواہ وہ دعائیں قرآن کریم میں ہوں یا احادیث مبارکہ میں۔ افسوس کہ اکثر لوگوں کو تو دعائیں آتی ہی نہیں ہیں، اگر کچھ کو آتی بھی ہیں تو ان کا ترجمہ نہیں آتا، دعائیں بھی یاد کرنی چاہئیں اور ان کا ترجمہ بھی یاد کرنا چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 503
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1808
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آدھی رات کو نماز کے لئے اٹھتے تو فرماتے: ”اے اللہ! تو ہی حمد کاحقدار ہے، تو ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اور تو ہی شکر کا مستحق ہے تو آسمانوں اور زمین نگران ہے اور تیرے ہی لئے حمد ہے تو آسمانوں اور زمین کا (اور جو کچھ ان میں ہے) ان کا مالک ہے، اور تو برحق ہے، اور تیرا وعدہ شدنی ہے اور تیرا قول اٹل ہے اور تیری ملاقات قطعی ہے اور جنت موجود ہے اور... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1808]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
نُوْرُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ:
آسمان و زمین تجھ ہی سے منور اور روشن ہے۔
اور تیرے نور ہی سے آسمان و زمین والے ہدایت و راہنمائی حاصل کر رہے ہیں،
اور تیرے ہی نور سے آسمان و زمین کی ہر چیز اپنی ذمہ داری سے عہدہ بر آ ہو رہی۔
(2)
قَيَّامُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ:
آسمان و زمین کو تو ہی قائم رکھے ہوئے ہے تو ہر چیز کا نگہبان اور محافظ ہے اور آسمان و زمین تیرے ہی زیر انتظام چل رہے ہیں۔
(3)
رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ:
رب کا معنی ہوتا ہے جس کی بات مانی جائے،
جو ہر چیز کی ضرورت و حاجت کو پورا کرے یعنی مشکل اور حاجت روا ہو،
آقا و مالک اور منتظم و مدبِّر ہو یعنی ہر چیز کا تو ہی مالک و آقا ہے۔
اور ہر جگہ تیری فرمانروائی ہے اور تو ہی ہر چیز کی ضروریات پوری کر رہا ہے۔
(4)
اَنْتَ الْحَقُّ:
حق کا استعمال مختلف معانی کے لیے ہوتا ہے جو چیز اپنے ظہور اور وجود کے لحاظ سے بالکل واضح اور بیِّن ہو اس کو بھی حق کہتے ہیں،
اس لیے اللہ تعالیٰ کو حق کہا گیا۔
یہ اور جس کا واقع ہونا قطعی اور یقینی ہو،
یعنی جو چیز شدنی ہو اس کو بھی حق کہتے ہیں،
اس لیے قیامت اور اللہ کی ملاقات کو حق کہا گیا ہے،
اور جس کے وجود اور تحقق میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ ہو وہ بھی حق ہے۔
اس لیے اللہ کے وعدے اور جنت و دوزخ کو حق کہا گیا ہے،
اور جو چیز جھگڑے اور اختلاف کے درمیان قول فیصل کی حیثیت رکھتی ہے اس کو بھی حق کہتے ہیں،
اس لیے اللہ کے قول اور قرآن کو حق کہا گیا ہے۔
باطل کے مقابلہ میں بھی یہ لفظ آتا ہے،
اور غایت و مقصد کے لیے بھی،
اس لیے آسمان و زمین کی تخلیق کو بالحق قرار دیا گیا ہے۔
(5)
لَكَ اَسْلَمْتُ:
اسلام کا معنی ہے،
اپنے آپ کو کسی کے حوالہ اور سپرد کر دینا،
سرتسلیم خم کر دینا،
اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا۔
(6)
اِلَيْكَ اَنَبْتُ:
انابت،
رجوع اور واپسی کو کہتے ہیں،
یعنی میں نے ہر امر و معاملہ میں تیری طرف ہی رجوع کیا،
اور تیری ہی طرف متوجہ ہوا۔
(7)
بِكَ خَاصَمْتُ:
تیرے مخالفین و منکرین سے تیرے ہی عطاء کردہ دلائل و براہین اور قوت و طاقت سے مقابلہ کیا۔
(8)
اِلَيْكَ حَاكَمْتُ:
میں ہر فیصلہ تیری ہی عدالت میں لایا،
تجھے ہی حکم و فیصل تسلیم کیا،
تیرے سوا کسی کو بھی حکم نہیں مانا،
اور جب میں ہر اعتبار اور ہر حیثیت سے تیرا ہوں تو تو ہی میرے ہر قسم کے قصور اور کوتاہیاں معاف فرما۔
کیونکہ تو ہی میرا معبود اور اِلٰہ ہے۔
(9)
مَا قَدَّمْتُ وَمَا اَخَّرْتُ:
جو اس وقت کر چکا ہوں یا آئندہ مجھ سے صادر ہوں گے یا جو کام بعد میں کرنا چاہیے تھا،
وہ میں نے پہلے کر دیا اور جو پہلے کرنا چاہیے تھا اس کو مؤخّر کر دیا،
پس تقدیم اور تاخیر کی کوتاہی کو معاف فرما۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1808
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7385
7385. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ رات کے وقت اکثر یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اےاللہ! تیرے ہی لیے تعریف ہے۔ تو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔ حمدوثنا تیرے ہی لیے ہے۔ تو آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے ان سب کو قائم کرنے والا ہے۔ تعریف تجھے ہی سزاوار ہے۔ تو آسمانوں وزمین کا نور ہے۔ تیرا قول، برحق، تیرا وعدہ مبنی بر حقیقت ہے تیری ملاقات برحق، جنت سچ اور جہنم برحق نیز روز قیامت بھی حق ہے، اے اللہ! میں نے تیرے حضور اپنا سر جھکا دیا۔ میں تجھی پر ایمان لایا۔ میں نے تجھی پر بھروسا کیا اور تیری ہی طرف رجوع کیا۔ میں تیری ہی مدد سے باطل کے خلاف برسرپیکار ہوں اور تجھی سے انصاف کا طلب گار ہوں۔ میرے ان تمام گناہوں کو معاف کردے جو میں پہلے کرچکا ہوں اور جو بعد میں مجھ سے صادر ہوں۔ وہ گناہ بھی معاف کردے جو میں نے پوشیدہ طور پر کیے ہیں اور جو میں نے اعلانیہ کیے ہیں، تو ہی میرا معبود۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7385]
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت یہ ہے کہ اللہ پاک پر لفظ حق کا اطلاق درست ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7385
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7442
7442. سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ جب رات کے وقت تہجد کی نماز پڑھتے تو یہ دعا پڑھتے: اے اللہ! اے ہمارے رب! تیرے ہی لیے حمد وثنا ہے، تو آسمان وزمین کو تھامنے والا ہے۔ تیرے ہی لیے ساری تعریف ہے۔ تو آسمان وزمین اور جوان کے درمیان ہے سب کا رب ہے۔ اور تو ہی ہر قسم کی تعریف کی سزاوار ہے۔ توآسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب کو روشن کرنے والا ہے۔ تو سچا تیری بات سچی، تیرا وعدہ مبنی برحقیقت اور تیری ملاقات بھی حقیقت ہے، جنت سچ، دوذخ برحق اور قیامت بھی مبنی برحقیقت ہے۔ اے اللہ! میں نے تیرے حضور سر تسلیم خم کر دیا، میں تجھ پر ایمان لایا اور تجھی پر بھروسا کیا۔ تیرے پاس ہی اپنے جھگڑے لے گیا اور تیری ہی مدد سے میں نے مقابلہ کیا۔ اے اللہ! مجھے معاف کر دے جو میں پہلے کر چکا ہوں اور جو بعد میں کروں گا اور وہ گناہ بھی جو چھپ کر کیے، نیز وہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7442]
حدیث حاشیہ:
قیام مبالغہ کا صیغہ ہے معنی وہی ہے یعنی خوب تھامنے والا۔
قیس کی روایت کو مسلم اور ابوداؤد نےاور ابوالزبیر کی روایت کو امام مالک نے مؤطا میں وصل کیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7442
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7499
7499. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب رات کو تہجد کے لیے اٹھتے تو پڑھتے: ”اے اللہ! حمد تیرے ہی لیے ہے۔ تو آسمانوں اور زمین کو روشن کرنے والا ہے تعریف تیرے ہی لیے ہے۔ تو آسمانوں اور زمین کو کنٹرول کرنے والا ہے۔ حمد تیرے ہی لیے ہے تو آسمانوں کا، زمین کا اور جو کچھ ان میں ہے سب کا رب ہے۔ تو برحق ہے۔ تیرا وعدہ سچا ہے۔ تیرا کلام بھی برحق ہے۔ تیری ملاقات مبنی حقیقت ہے۔ جنت حق ہے اور دوزخ بھی حق ہے۔ تمام انبیاء سچے ہیں اور قیامت بھی برحق ہے، تیری ملاقات مبنی برحقیقت ہے۔ جنت حق ہے اور دوزخ بھی حق ہے۔ تمام انبیاء سچے ہیں اور قیامت بھی برحق ہے۔ اے اللہ! میں تیرے حضور سرنگوں ہوا، تجھ پر ایمان لایا، میں نے تجھی پر توکل کیا تیری ہی طرف رجوع کیا۔ میں تیرے ہی سامنے اپنا مقدمہ پیش کرتا ہوں اور تجھی سے اپنا فیصلہ چاہتا ہوں، اس لیے میرے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دے جو میں نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7499]
حدیث حاشیہ:
دعائے مبارکہ میں لفظ قولك الحق سے ترجمہ باب نکلا کہ یااللہ! تیرا کلام کرنا حق ہے۔
اس سے ہی ان لوگوں کی تردید ہوئی جو اللہ کے کلام میں حروف اورآواز کے منکر ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7499
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6317
6317. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ جب رات کے وقت تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا پڑھتے: اے اللہ! تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں۔ آسمان وزمین اور جو کچھ ان میں موجود ہے تو ان سب کو روشن کرنے والا ہے۔ تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں۔ تو آسمان وزمین اور ان میں موجود تمام چیزوں کو قائم رکھنے والا ہے تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں۔ تو حق ہے، تیرا وعدہ برحق تیری بات مبنی بر حقیقت تیری ملاقات بھی حق، جنت حق دوزرخ حق، قیامت حق، تمام انبیاء برحق اور محمد رسول اللہ ﷺ بھی برحق ہیں۔ اے اللہ! میں نے تیرے سپرد کیا، تجھ پر بھروسا کیا تجھ پر ایمان لایا، تیری طرف رجوع کیا، تیرے سبب خصومت کرتا ہوں اور تیری طرف فیصلہ لے جاتا ہوں، اس لیے میری اگلی پچھلی خطاؤں کو معاف کردے، وہ خطائیں بھی جو میں نے خفیہ کی ہیں اور وہ جو برسرعام کی ہیں۔ تو ہی سب سے پہلے ہے اور سب سے بعد میں ہے۔ تیرے سوا کوئی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6317]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ اس کے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ''ولا حول ولا قوة الا بالله العلي العظيم'' بھی پڑھا کرتے تھے۔
(السنن الکبریٰ للنسائي، رقم: 1321، و سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث: 1355، و فتح الباري: 143/11) (2)
تمام نمازوں میں دعائے استفتاح کے طور پر اس دعا کا پڑھنا مستحب ہے۔
خاص طور پر نماز تہجد میں اس کا اہتمام کیا جائے۔
اس دعا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس انداز سے اللہ تعالیٰ کے حضور اظہار عبودیت کیا ہے وہ آپ ہی کا مقام ہے۔
۔
۔
صلی اللہ علیه وسلم۔
۔
۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6317
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7385
7385. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ رات کے وقت اکثر یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اےاللہ! تیرے ہی لیے تعریف ہے۔ تو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔ حمدوثنا تیرے ہی لیے ہے۔ تو آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے ان سب کو قائم کرنے والا ہے۔ تعریف تجھے ہی سزاوار ہے۔ تو آسمانوں وزمین کا نور ہے۔ تیرا قول، برحق، تیرا وعدہ مبنی بر حقیقت ہے تیری ملاقات برحق، جنت سچ اور جہنم برحق نیز روز قیامت بھی حق ہے، اے اللہ! میں نے تیرے حضور اپنا سر جھکا دیا۔ میں تجھی پر ایمان لایا۔ میں نے تجھی پر بھروسا کیا اور تیری ہی طرف رجوع کیا۔ میں تیری ہی مدد سے باطل کے خلاف برسرپیکار ہوں اور تجھی سے انصاف کا طلب گار ہوں۔ میرے ان تمام گناہوں کو معاف کردے جو میں پہلے کرچکا ہوں اور جو بعد میں مجھ سے صادر ہوں۔ وہ گناہ بھی معاف کردے جو میں نے پوشیدہ طور پر کیے ہیں اور جو میں نے اعلانیہ کیے ہیں، تو ہی میرا معبود۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7385]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس امر کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ آیت کریمہ میں "حق" سے مراد کلمہ (كُنْ)
ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی صفت ہے، کیونکہ جو چیز کلمہ (كُنْ)
سے پیدا ہوگی اور مخلوق اور کلمہ (كُنْ)
غیر مخلوق ہے۔
جس کلمے سے مخلوق کو پیدا کیا ہے وہ کسی صورت میں مخلوق کے مماثل نہیں ہو سکتا، اس لیے اللہ تعالیٰ کے قول اور اس کی مخلوق کے درمیان فرق کرنا انتہائی ذمہ داری ہے۔
اللہ تعالیٰ کا کلام، اس کی صفت ہے اور جو چیز اس کے باعث معرض وجود میں آئی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔
2۔
اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا محل استشہاد (قولُك الحقَ)
ہے۔
آپ نے مسئلہ کلام اللہ میں فرق جہمیہ اور اشاعرہ کا رد کیا ہے۔
کلامُ اللہ کے متعلق جہمیہ کا نظریہ یہ ہے کہ کلام، اللہ تعالیٰ کی صفت نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سے ہوا میں پیدا کیا ہے یا جس جگہ سے کلام سنائی دیتا ہے وہاں پیدا فرمایا۔
اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت اضافت خلق ہے جیساکہ ناقۃاللہ یا اضافت تشریف ہے جیسا کہ بیت اللہ۔
اس کے متعلق اشاعرہ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام فرمانا اس کی ایک صفت ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے لیکن اس کی مشیت سے متعلق نہیں۔
سنے جانے والے حروف والفاظ اور آوازیں اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں جو اس نے اپنی ذاتی صفت کلام کی تعبیر کے لیے پیدا فرمائے ہیں۔
ان دونوں فرقوں کے موقف کا جائزہ ہم آئندہ پیش کریں گے۔
اس سلسلے میں ہمارا رجحان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے صفت کلام کو بلاتحریف وتعطیل اور بلاتکییف وتمثیل ثابت کیا جائے اور اسے حقیقت تسلیم کیا جائے جیسا کہ اس کی ذات کے لائق ہے۔
اور اس کا کلام فرمانا اس کی مشیت کے تابع ہے اور وہ حروف اورسنی جانے والی آواز کےساتھ کلام فرماتا ہے۔
اس موقف پر سلف صالحین کا اتفاق ہے۔
واللہ أعلم۔
3۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے آخر میں حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے کچھ زائد الفاظ بیان کیے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ راوی حدیث قبیصہ نے جب یہ حدیث سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے بیان کی ہے تو اس (قولُك الحقَ)
سے پہلے (أَنْتَ الْحَقُّ)
کے الفاظ ساقط ہوگئے۔
جبکہ ثابت بن محمد نے حضرت سفیان سے ان الفاظ کو بیان کیا ہے۔
یہ الفاظ مکمل سیاق کے ساتھ آگے بیان ہوں گے۔
(صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7442)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7385
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7442
7442. سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ جب رات کے وقت تہجد کی نماز پڑھتے تو یہ دعا پڑھتے: اے اللہ! اے ہمارے رب! تیرے ہی لیے حمد وثنا ہے، تو آسمان وزمین کو تھامنے والا ہے۔ تیرے ہی لیے ساری تعریف ہے۔ تو آسمان وزمین اور جوان کے درمیان ہے سب کا رب ہے۔ اور تو ہی ہر قسم کی تعریف کی سزاوار ہے۔ توآسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب کو روشن کرنے والا ہے۔ تو سچا تیری بات سچی، تیرا وعدہ مبنی برحقیقت اور تیری ملاقات بھی حقیقت ہے، جنت سچ، دوذخ برحق اور قیامت بھی مبنی برحقیقت ہے۔ اے اللہ! میں نے تیرے حضور سر تسلیم خم کر دیا، میں تجھ پر ایمان لایا اور تجھی پر بھروسا کیا۔ تیرے پاس ہی اپنے جھگڑے لے گیا اور تیری ہی مدد سے میں نے مقابلہ کیا۔ اے اللہ! مجھے معاف کر دے جو میں پہلے کر چکا ہوں اور جو بعد میں کروں گا اور وہ گناہ بھی جو چھپ کر کیے، نیز وہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7442]
حدیث حاشیہ:
1۔
ان احادیث میں اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا ذکر ہے جو قیامت کے دن ہوگی۔
اس ملاقات سے مراد بھی اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے جو برحق ہے اور اس کا انکار کرنے والے گمراہ اور بے دین ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے بیس سے زیادہ آیات میں اپنی ملاقات کا ذکر کیا ہے۔
اہل سنت نے ان آیات سے دیدار الٰہی کو ثابت کیا ہے۔
حدیث میں ہے:
”قیامت کے دن تم میں سے ہر ایک اپنے رب سے ملاقات کرے گا۔
اس کے اور رب کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا۔
“ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7443)
اللہ تعالیٰ نے اس ملاقات سے انکار اور تکذیب کو کفر قرار دیا ہے۔
اس انکار کی موجودگی میں کوئی عمل کارگر نہیں ہوگا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اور جن لوگوں نے اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا وہ میری رحمت سے مایوس ہوچکے ہیں اور یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔
“ (العنکبوت 23)
ایسے لوگوں کی رحمت الٰہی کی اُمید کیسے ہو سکتی ہے جبکہ وہ اس ملاقات کے قائل ہی نہیں ہیں، لہذا وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم اور مایوس ہی رہیں گے جبکہ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملنے کی توقع رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہواوقت جلد ہی آنے والا ہے۔
“ (العنکبوت: 5)
یعنی موت کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت انھیں اپنی آغوش میں لے لے گی۔
یہ دونوں طرح کی آیات ایک دوسرے کا عکس ہیں۔
2۔
بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے دیدار الٰہی ثابت کیا ہے جو مبنی برحقیقت ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے درج ذیل آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
”اور اللہ اہل ایمان پر بڑا مہربان ہے۔
جس دن وہ اس(اللہ)
سے ملاقات کریں گے،ان کی دعا سلام ہوگی۔
“ (الأحزاب 43۔
44)
اہل لغت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ ملاقات سے مراد روبرو ہونا اور ایک دوسرے کو کھلی آنکھ سے دیکھناہے۔
(فتاویٰ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ: 488/6)
3۔
واضح رہے کہ ملاقات میں دو چیزوں کا پایا جانا ضروری ہے:
ایک تو چل کر دوسرے کی طرف جانا اور دوسرا اسے کھلی آنکھ سے دیکھنا جبکہ بعض اہل کلام نے اس ملاقات کی تاویل کی ہے کہ اس سے مراد اعمال کی جزا دینا ہے۔
یہ تاویل صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کےموقف کے خلاف ہےکیونکہ قرآنی آیات سے ملاقات اور جزا کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”جس دن وہ اس(اللہ)
سے ملاقات کریں گے، ان کی دعا، سلام ہوگی اور اس نے ان کے لیے عمدہ اجر تیار کررکھا ہے۔
“ (الأحزاب: 44)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ملاقات اور اجر کریم دو الگ الگ نعمتیں ہیں، نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ تیرا وعدہ برحق، تیری ملاقات مبنی برحقیقت اور جنت ودوزخ بھی سچ ہیں۔
اس حدیث میں ملاقات اور جنت و دوزخ کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے اگر ملاقات سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزا وسزا ہو تو اس کے بعد جنت ودوزخ کو الگ بیان کرنے کا کیا مطلب؟ کیونکہ جنت فرمانبردار لوگوں کی جزا اور جہنم نافرمانوں کے لیے بطورسزا ہے۔
بہرحال ان احادیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دیدار الٰہی پر استدلال کیا ہے جو آپ کی دقت فہم اور قوت استنباط کی واضح دلیل ہے۔
4۔
واضح رہے کہ قیس بن سعد کی روایت کو امام مسلم (حدیث: 769)
اور ابوداؤد علیہ السلام (حدیث: 771)
نے، نیز ابوالزبیر کی روایت کو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے موطا(حدیث: 511)
میں متصل سندسے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 531/13)
غزوہ حنین کے موقع پر مال غنیمت کی تقسیم پر کچھ انصار کو ملال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تسلی دی۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث (7241)
میں اس تسلی کا بیان ہے۔
5۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کے دن دو حوض ملیں گے:
ایک میدان محشر میں ہوگا جہاں سے فرشتے بعض مرتدین کو پانی پینے سے روک دیں گے اور دوسرا حوض جنت میں ہوگا، جبکہ معتزلہ نے حوض کا انکار کیا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7442
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7499
7499. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب رات کو تہجد کے لیے اٹھتے تو پڑھتے: ”اے اللہ! حمد تیرے ہی لیے ہے۔ تو آسمانوں اور زمین کو روشن کرنے والا ہے تعریف تیرے ہی لیے ہے۔ تو آسمانوں اور زمین کو کنٹرول کرنے والا ہے۔ حمد تیرے ہی لیے ہے تو آسمانوں کا، زمین کا اور جو کچھ ان میں ہے سب کا رب ہے۔ تو برحق ہے۔ تیرا وعدہ سچا ہے۔ تیرا کلام بھی برحق ہے۔ تیری ملاقات مبنی حقیقت ہے۔ جنت حق ہے اور دوزخ بھی حق ہے۔ تمام انبیاء سچے ہیں اور قیامت بھی برحق ہے، تیری ملاقات مبنی برحقیقت ہے۔ جنت حق ہے اور دوزخ بھی حق ہے۔ تمام انبیاء سچے ہیں اور قیامت بھی برحق ہے۔ اے اللہ! میں تیرے حضور سرنگوں ہوا، تجھ پر ایمان لایا، میں نے تجھی پر توکل کیا تیری ہی طرف رجوع کیا۔ میں تیرے ہی سامنے اپنا مقدمہ پیش کرتا ہوں اور تجھی سے اپنا فیصلہ چاہتا ہوں، اس لیے میرے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دے جو میں نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7499]
حدیث حاشیہ:
اس دعائے مبارکہ میں ہے کہ اے اللہ! تیرا کلام برحق ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کا کلام مبنی برحقیقت ہے۔
اس سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے کلام میں حروف اور آواز کے منکر ہیں کیونکہ اس حدیث میں کلام الٰہی کو "قول" سے تعبیر کیا گیا ہے جو آواز اور حروف پر مشتمل ہوتا ہے نیز اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے قول کی صفت "حق" بیان ہوئی ہے جس کے معنی ثابت اورلازوال کے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے قول میں ہدایت اور عدل ہے جبکہ منافقین اور کفار اس کی حقانیت سے پہلوتہی کر کے اسے تبدیل کرنا چاہتے ہیں ایسا کردار ادا کرنے سے انھیں خود نقصان ہوگا۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7499