سلیمان بن بلال نے یحییٰ بن سعید سے، انہوں نے بشیر بن یسار سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عبداللہ بن سہل بن زید انصاری اور محیصہ بن مسعود بن زید انصاری، جن کا تعلق قبیلہ بنو حارثہ سے تھا، خیبر کی طرف نکلے، ان دنوں وہاں صلح تھی، اور وہاں کے باشندے یہودی تھے، تو وہ دونوں اپنی ضروریات کے پیش نظر الگ الگ ہو گئے، بعد ازاں عبداللہ بن سہل قتل ہو گئے اور کھجور کے تنے کے ارد گرد بنائے گئے پانی کے ایک گڑھے میں مقتول حالت میں ملے، ان کے ساتھی نے انہیں دفن کیا، پھر مدینہ آئے اور مقتول کے بھائی عبدالرحمان بن سہل اور (چچا زاد) محیصہ اور حویصہ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عبداللہ اور ان کو قتل کیے جانے کی صورت حال اور جگہ بتائی۔ بشیر کا خیال ہے اور وہ ان لوگوں سے حدیث بیان کرتے ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو پایا کہ آپ نے ان سے فرمایا: "کیا تم پچاس قسمیں کھا کر اپنے اتل۔۔ یا اپنے ساتھی۔۔ (سے بدلہ/دیت) کے حق دار بنو گے؟" انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! نہ ہم نے دیکھا، نہ وہاں موجود تھے۔ ان (بشیر) کا خیال ہے کہ آپ نے فرمایا: "تو یہود پچاس قسمیں کھا کر تمہیں (اپنے دعوے کے استحقاق سے) الگ کر دیں گے۔" انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم کافر لوگوں کی قسمیں کیسے قبول کریں؟ بشیر کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے اس کی دیت ادا فرما دی
حضرت بشیر بن یسار سے روایت ہے کہ عبداللہ بن سہل بن زید اور محیصہ بن مسعود بن زید ا نصاری رضی اللہ تعالی عنہم، جو بنو حارثہ سے تعلق رکھتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں خیبر کی طرف گئے، اور وہاں کے باشندوں سے صلح تھی، اور وہاں کے باشندے یہودی تھے، تو وہ دونوں ضرورت کے تحت الگ الگ ہو گئے، اس کے بعد عبداللہ بن سہل رضی اللہ تعالی عنہ قتل کر دئیے گئے اور ایک پانی کے حوض سے لاش ملی، ان کے ساتھی نے اسے دفن کر دیا، پھر مدینہ کی طرف بڑھا، تو مقتول کا بھائی عبدالرحمٰن بن سہل، محیصہ اور حویصہ رضی اللہ تعالی عنہم آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کا معاملہ پیش کیا، اور قتل گاہ کا تذکرہ بھی کیا، بشیر کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے مجھے ملنے والوں نے بتایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”کیا تم پچاس قسمیں اٹھا کر، اپنے قاتل کے حقدار بننا چاہتے ہو؟“ یا قاتل کی جگہ صاحب کا لفظ کہا، انہوں نے کہا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! نہ ہم نے دیکھا اور نہ وہاں موجود تھے، تو بشیر کے خیال میں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو یہود پچاس قسمیں اٹھا کر تمہیں اس سے (قسمیں اٹھانے سے) بری کر دیتے ہیں؟“ انہوں نے کہا اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! ہم کافر لوگوں کی قسمیں کیسے قبول کریں؟ بشیر کا خیال ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت اپنی طرف سے ادا کر دی۔