Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْقَسَامَةِ
قسموں کا بیان
6. باب النَّهْيِ عَنِ الإِصْرَارِ عَلَى الْيَمِينِ فِيمَا يَتَأَذَّى بِهِ أَهْلُ الْحَالِفِ مِمَّا لَيْسَ بِحَرَامٍ:
باب: جب قسم سے گھر والوں کا نقصان ہو تو قسم نہ توڑنا منع ہے بشرطیکہ وہ کام حرام نہ ہو۔
حدیث نمبر: 4291
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَاللَّهِ لَأَنْ يَلَجَّ أَحَدُكُمْ بِيَمِينِهِ فِي أَهْلِهِ آثَمُ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ أَنْ يُعْطِيَ كَفَّارَتَهُ الَّتِي فَرَضَ اللَّهُ ".
ہمام بن منبہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: یہ احادیث ہیں جو ہمیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیں، پھر انہوں نے چند احادیث بیان کیں، ان میں سے یہ تھی: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کی قسم! تم میں سے کسی کا اپنے گھر والوں کے بارے میں اپنی قسم پر اصرار کرنا اس کے لیے اللہ کے ہاں اس سے زیادہ گناہ کا باعث ہے کہ وہ اس قسم کے لیے اللہ کا مقرر کردہ کفارہ دے۔" (اور اسے توڑ کر درست کام کرے اور گھر والوں کو آرام پہنچائے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! تم میں سے کسی ایک کا اپنے گھر والوں کے بارے میں قسم کھا کر اس پر جم جانا یا اصرار کرنا، اللہ کے ہاں اس کے لیے اس سے زیادہ گناہ کا سبب ہے کہ وہ اس کا وہ کفارہ ادا کرے جو اللہ نے فرض قرار دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4291 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4291  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اگر ایک انسان کوئی ایسی قسم اٹھا لیتا ہے،
جس پر اصرار کرنے یا اڑ جانے سے اس کے بیوی،
بچوں کو اذیت و تکلیف سے دوچار ہونا پڑتا ہے،
اور وہ کام کرنا معصیت یا گناہ نہیں ہے،
اگر وہ تصور کر کے قسم پر اصرار کرتا ہے کہ قسم توڑنا گناہ ہے،
تو یہ محض اس کا نظریہ اور خیال ہے،
گناہ تو ایسی صورت میں قسم پر اڑنا ہے نہ کہ قسم توڑنا،
یہاں آثم اسم تفضیل کا صیغہ اس کے تصور کے اعتبار سے لایا گیا ہے،
کیونکہ وہ قسم توڑنا گناہ سمجھتا ہے،
یا علي سبيل التنزل ہے کہ اگر بالفرض قسم توڑنا گناہ ہے،
تو گھر والوں کو اذیت و تکلیف پہنچانا اس سے بڑھ کر گناہ ہے،
اور قسم کا تو کفارہ دے کر گناہ سے بچا جا سکتا ہے،
ان کی تکلیف و اذیت کو رفع کرنے کی کیا صورت ہو گی اور اسم تفضیل کو اضافہ و زیادتی سے مجرد بھی کیا جا سکتا ہے،
یعنی یہ اصرار اس کے لیے گناہ کا باعث ہے،
اور اہل کا لفظ عموم کے اعتبار سے ہے،
وگرنہ کسی کو تکلیف و اذیت پہنچانے والی قسم پر اصرار کرنا،
اس بنیاد پر کہ میں نے قسم کھا لی ہے،
میں اس کو توڑ نہیں سکتا،
درست نہیں ہے،
اس کو قسم توڑ کر اس کا کفارہ ادا کرنا چاہیے۔
قسم توڑنے کا کفارہ دس مسکینوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا یا انہیں لباس پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے،
اگر ان تینوں کاموں میں سے کوئی بھی کام نہ کر سکتا ہو تو پھر تین دن کے روزے رکھنا ہے۔
(سورہ المائدہ،
آیت نمبر 89)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4291