صحيح مسلم
كِتَاب الْقَسَامَةِ
قسموں کا بیان
3. باب نَدْبِ مَنْ حَلَفَ يَمِينًا فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا أَنْ يَأْتِيَ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ وَيُكَفِّرَ عَنْ يَمِينِهِ:
باب: جو شخص قسم کھائے کسی کام پر پھر اس کے خلاف کو بہتر سمجھے تو اس کو کرے اور قسم کا کفارہ دے۔
حدیث نمبر: 4279
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَدِيَّ بْنَ حَاتِمٍ " وَأَتَاهُ رَجُلٌ يَسْأَلُهُ مِائَةَ دِرْهَمٍ، فَقَالَ: تَسْأَلُنِي مِائَةَ دِرْهَمٍ وَأَنَا ابْنُ حَاتِمٍ وَاللَّهِ لَا أُعْطِيكَ، قَالَ: لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ ثُمَّ رَأَى خَيْرًا مِنْهَا، فَلْيَأْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ "،
محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے سماک بن حرب سے حدیث بیان کی اور انہوں نے تمیم بن طرفہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے سنا، ان کے پاس ایک آدمی ایک سو درہم مانگنے کے لیے آیا تھا، (غلام کی قیمت میں سے سو درہم کم تھے) انہوں نے کہا: تو مجھ سے (سرف) سو درہم مانگ رہا جبکہ میں حاتم طائی کا بیٹا ہوں؟ اللہ کی قسم! میں تمہیں (کچھ) نہیں دوں گا، پھر انہوں نے کہا: اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا: "جس نے کوئی قسم کھائی، پھر اس سے بہتر کام دیکھا تو وہ وہی کرے جو بہتر ہے۔" (تو میں تمہیں کچھ نہ دیتا
تمیم بن طرفہ بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا، جبکہ ان کے پاس ایک آدمی سو درہم (100) مانگنے کے لیے آیا، تو انہوں نے کہا، تو مجھ سے سو (100) درہم مانگ رہا ہے، حالانکہ میں حاتم کا بیٹا ہوں؟ اللہ کی قسم! میں تمہیں نہیں دوں گا، پھر کہنے لگے، اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہوتا، ”جس نے کسی کام کے لیے قسم اٹھائی، پھر اس کے سامنے بہتر سوچ آئی، تو وہ کام کرے جو بہتر ہے۔“ (تو میں تمہیں نہ دیتا، یہ جواب محذوف ہے۔)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4279 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4279
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
تسئلني مائة درهم؟ وانا ابن حاتم کا مقصد بقول امام قرطبی یہ ہے،
کہ میں حاتم کا بیٹا ہوں،
جو جودو سخاورت کی کثرت میں معروف و مشہور ہے،
اور تم مجھ سے اس قدر کم رقم کا مطالبہ کررہے ہو،
اور بقول قاضی عیاض،
سائل نے حضرت عدی سے اس وقت سوال کیا،
جبکہ اسے پتہ تھا کہ فی الحال ان کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں ہے،
اور سائل کا مقصد حضرت عدی کے بخل اور کچھ دینے سے انکار کرنے کا اظہار تھا،
اس لیے حضرت عدی رضی اللہ عنہ نے ناراضی کی حالت میں یہ کہا،
کہ تم جان بوجھ کر مجھے رسوا کرنے کے لیے کہ حاتم کا بیٹا بخیل و کنجوس ہے،
یہ سوال کر رہےہو،
حالانکہ تمہیں پتہ اس وقت میرے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں ہے،
جاؤ میں اپنے گھر والوں کو لکھ دیتا ہوں،
وہ تمہارا سوال پورا کر دیں،
لیکن وہ اس پر راضی نہ ہوا،
اس لیے انہوں نے کچھ نہ دینے کی قسم اٹھائی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4279
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3816
´قسم توڑنے کے بعد کفارہ دینے کا بیان۔`
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کسی بات کی قسم کھائے پھر اس کے علاوہ کو اس سے بہتر پائے تو وہی کرے جو بہتر ہے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3816]
اردو حاشہ:
سابقہ احادیث میں کفارے کا ذکر قسم توڑنے سے پہلے تھا اور اس حدیث (اور آئندہ احادیث) میں قسم توڑنے کا ذکر پہلے ہے اور کفارے کا بعد میں۔ گویا دونوں جائز ہیں۔ کسی ایک کے ضروری ہونے کی صراحت نہیں۔ اگر کوئی ایک صورت ضروری ہوتی تو آپ صراحتاً اسے اختیار کرنے کی تلقین فرما دیتے‘ لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ بہر حال یہ مسلک جمہور اہل علم کا ہے اور یہی درست ہے۔ احادیث صحیحہ پر عمل کرنا قیاسات پر عمل کرنے سے کہیں بہتر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3816