حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، حَدَّثَنِي النُّعْمَانُ بْنُ بَشِيرٍ : " أَنَّ أُمَّهُ بِنْتَ رَوَاحَةَ سَأَلَتْ أَبَاهُ بَعْضَ الْمَوْهِبَةِ مِنْ مَالِهِ لِابْنِهَا، فَالْتَوَى بِهَا سَنَةً ثُمَّ بَدَا لَهُ، فَقَالَتْ: لَا أَرْضَى حَتَّى تُشْهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَا وَهَبْتَ لِابْنِي، فَأَخَذَ أَبِي بِيَدِي وَأَنَا يَوْمَئِذٍ غُلَامٌ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُمَّ هَذَا بِنْتَ رَوَاحَةَ أَعْجَبَهَا أَنْ أُشْهِدَكَ عَلَى الَّذِي وَهَبْتُ لِابْنِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا بَشِيرُ أَلَكَ وَلَدٌ سِوَى هَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ: أَكُلَّهُمْ وَهَبْتَ لَهُ مِثْلَ هَذَا؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَلَا تُشْهِدْنِي إِذًا فَإِنِّي لَا أَشْهَدُ عَلَى جَوْرٍ ".
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ان کی ماں بنت رواحہ رضی اللہ عنہا نے ان کے باپ سے سوال کیا کہ اپنے مال میں سے کچھ ہبہ کر دیں، ان کے بیٹے کو (یعنی نعمان کو) لیکں بشیر نے ایک سال ٹالا۔ پھر وہ مستعد ہوئے ہبہ کرنے کو، ان کی ماں بولی: میں راضی نہیں ہوں گی جب تک تم گواہ نہ کرو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ہبہ پر، میرے باپ نے میرا ہاتھ پکڑا۔ اور میں ان دونوں لڑکا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی ماں بنت رواحہ نے جو یہ چاہا کہ آپ گواہ ہو جائیں اس ہبہ پر جو میں نے اس لڑکے کو کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بشیر! کیا سوا اس کے اور بھی تیرے لڑکے ہیں؟“ بشیر رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کو بھی تو نے ایسا ہی ہبہ کیا ہے؟“ بشیر رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر مجھے گواہ مت کر کیونکہ میں ظلم پر گواہ نہیں ہوتا۔“
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 283
´ساری اولاد کو (بیٹے ہوں یا بیٹیاں) برابر برابر تحفہ دینا بہتر اور افضل`
«. . . عن النعمان بن بشير انه قال: إن اباه اتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”اكل ولدك نحلته مثل هذا؟“ فقال: لا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم، ”فارجعه.“ . . .»
”. . . سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے ابا انہیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: میں نے اپنے اس بیٹے کو اپنا ایک غلام اپنی مرضی سے تحفہ دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو اسی طرح غلام تحفے میں دئیے ہیں؟“ تو انہوں (نعمان بن بشیر کے والد رضی اللہ عنہ) نے جواب دیا: نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اس (غلام) کو واپس لے لو . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 283]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2586، ومسلم 1623/9، من حديث مالك به .]
تفقه:
➊ اگر کوئی شخص بیماری سے پہلے اپنی اولاد کو کوئی چیز برابر برابر انصاف کے ساتھ بطور تحفہ ہبہ کرے تو جائز ہے۔ بیماری کی حالت میں کیا گیا ہبہ وصیت ہوتا ہے۔ صحیح احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں:
«والوصية للوارث باطلة» ”اور وارث کے لئے وصیت باطل ہے۔“ [التمهيد 225/7]
➋ ساری اولاد کو (بیٹے ہوں یا بیٹیاں) برابر برابر تحفہ دینا بہتر اور افضل ہے۔ اگر بعض اولاد کو دوسروں کی نسبت زیادہ تحفہ دیا جائے تو بعض علماء کے نزدیک یہ جائز ہے بشرطیکہ دوسری اولاد راضی ہو اورضرر نہ پایا جائے لیکن بہتر یہی ہے کہ یہ برابر برابر ہی ہو۔
➌ ایک آدمی تحفہ دینے میں اپنی بعض اولاد کو بعض پر فضیلت دینا چاہتا تھا تو قاضی شریح رحمہ اللہ نے اسے ظلم قرار دیا اور گواہی دینے سے انکار کر دیا۔ [مصنف ابن ابي شيبه 221/11، 222/11 ح 30989 وسنده صحيح، سعيد بن حيان تيمي ثقته]
➍ اس حدیث سے اشارتاً اور دوسری حدیث سے صراحتاً ثابت ہے کہ ہبہ واپس کرنا جائز نہیں ہے سوائے والد کے، وہ اپنی اولاد سے ہبہ واپس لے سکتا ہے۔ دیکھئے: [سنن ابي داود: 3539 وسنده صحيح، سنن الترمذي 1299، وقال: حسن صحيح، وصححه ابن الجارود: 994 وابن حبان، الاحسان:5101 5123 والحاكم 46/2 والذهبي]
● بعض علماء کے نزدیک والدہ کا بھی یہی حکم ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 33
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 788
´ھبہ عمری اور رقبی کا بیان`
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے والد ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنا ذاتی غلام اپنے اس بیٹے کو ہبہ کر دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ”کیا تو نے اپنی ساری اولاد کو اس طرح (غلام) ہبہ کیا ہے؟“ اس نے کہا نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تو پھر اسے واپس کر لو“ اور ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ میرے والد صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ میرے ہبہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا ”کیا تو نے ایسا اپنی ساری اولاد کے ساتھ کیا ہے؟“ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرو“ چنانچہ میرے والد نے وہ ہبہ واپس کر لیا۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تو پھر میرے سوا کسی اور کو اس پر گواہ بنا لو۔“ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کیا تجھے یہ پسند نہیں ہے کہ تیری ساری اولاد تیرے ساتھ یکساں بھلائی کا سلوک کرے؟“ وہ بولا کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تو پھر ایسا مت کر۔“۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 788»
تخریج: «أخرجه البخاري، الهبة، باب الإشهاد في الهبة، حديث:2587، ومسلم، الهبات، باب كراهة تفضيل بعض الأولاد في الهبة،حديث:1623.»
تشریح:
یہ حدیث دلیل ہے کہ اولاد کو‘ خواہ مذکر ہو یا مؤنث‘ عطیہ دینے میں مساویانہ سلوک کرنا چاہیے۔
امام احمد‘ ثوری اور اسحاق رحمہم اللہ وغیرہ کا قول ہے کہ جب برابری نہ ہو تو ہبہ باطل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت بشیر رضی اللہ عنہ کو یہ فرمانا کہ غلام کو واپس لے لو اسی کی تائید کرتا ہے۔
مگر جمہور علماء کے نزدیک یہ برابری مستحب ہے‘ واجب نہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 788
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3702
´عطیہ و ہبہ (بخشش) کے سلسلہ میں نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کی حدیث کے ناقلین کے سیاق کے اختلاف کا ذکر۔`
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہیں ان کے والد نے ایک غلام ہبہ کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے کہ آپ کو اس پر گواہ بنائیں۔ آپ نے پوچھا: ”کیا تم نے اپنے سبھی بیٹوں کو یہ عطیہ دیا ہے؟“ انہوں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”تو تم اسے واپس لے لو۔“ اس حدیث کے الفاظ محمد (راوی) کے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب النحل/حدیث: 3702]
اردو حاشہ:
(1) باپ اور اولاد کا باہمی رشتہ بہت قریبی ہے۔ اس میں ذرہ بھر خرابی بھی بہت سے مفاسد کا موجب ہے‘ لہٰذا شریعت کی طرف سے ہدایت ہے کہ بچوں میں مساوات سے کام لیا جائے تاکہ کسی کو احساس محرومی نہ ہو۔ صرف ایک بیٹے کو عطیہ دینا دوسرے بیٹوں میں اس بھائی اور باپ کے خلاف نفرت پیدا کرسکتا ہے جس کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں‘ اس لیے اس سے روک دیا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ عطیہ دینا ہے تو سب کو دیا جائے۔ ایسی صریح روایت کی موجودگی میں احناف کا یہ کہنا تعجب ہے کہ اولاد میں مساوات کی کوئی ضروری نہیں۔“
(2) یہ مساوات صرف تحفہ اور عطیہ میں ہے۔ باقی رہے نفقات تو اس میں حصہ بقدر جبثہ ہوگا‘ مثلاً: کھانے پینے‘ پہننے‘ تعلیم‘ نکاح وغیرہ کے اخراجات سب کے برابر نہیں ہوسکتے۔ یہ ضرورت کے مطابق ہوں گے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3702
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3703
´عطیہ و ہبہ (بخشش) کے سلسلہ میں نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کی حدیث کے ناقلین کے سیاق کے اختلاف کا ذکر۔`
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد انہیں ساتھ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہا: میرے پاس ایک غلام تھا جسے میں نے اپنے (اس) بیٹے کو دے دیا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے اپنے سبھی بیٹوں کو غلام دیے ہیں؟“، کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”تو تم اسے واپس لے لو۔“ [سنن نسائي/كتاب النحل/حدیث: 3703]
اردو حاشہ:
صحیح حدیث میں ہے کہ تحفہ دے کر واپس لینا منع ہے مگر باپ اپنی اولاد سے واپس لے سکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3703
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3706
´عطیہ و ہبہ (بخشش) کے سلسلہ میں نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کی حدیث کے ناقلین کے سیاق کے اختلاف کا ذکر۔`
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد نے انہیں ایک عطیہ دیا، تو ان کی ماں نے ان کے والد سے کہا کہ آپ نے جو چیز میرے بیٹے کو دی ہے اس کے دینے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا دیجئیے، چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے اس کے لیے گواہ بننے کو ناپسند کیا۔ [سنن نسائي/كتاب النحل/حدیث: 3706]
اردو حاشہ:
(1) ”گواہ بنالیں“ کہیں کل کو دوسرے بیٹے جھگڑا نہ کریں۔
(2) ”پسند نہیں فرمایا“ کیونکہ یہ ظلم تھا اور ظلم پر گواہ بننا ظلم میں شرکت کے مترادف ہے۔ 3707- حضرت بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے ایک بیٹے کو غلام تحفے میں دیا۔ پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس تحفے پر گواہ بنالیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم نے پوری اولاد کو ایسے تحفے دیے ہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا‘ پھر اسے بھی واپس کر۔“
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3706
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3711
´عطیہ و ہبہ (بخشش) کے سلسلہ میں نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کی حدیث کے ناقلین کے سیاق کے اختلاف کا ذکر۔`
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کی ماں رواحہ کی بیٹی نے ان کے باپ سے مال میں سے بعض چیزیں ہبہ کرنے کا مطالبہ کیا تو وہ انہیں سال بھر ٹالتے رہے، پھر ان کے جی میں کچھ آیا تو اس (بیٹے) کو وہ عطیہ دے دیا۔ ان کی ماں نے کہا: میں اتنے سے مطمئن اور خوش نہیں ہوں جب تک کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر گواہ نہیں بنا دیتے تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے اس بچے ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النحل/حدیث: 3711]
اردو حاشہ:
”گواہ نہ بناؤ“ یہ مطلب نہیں کہ کسی اور کو بنالو بلکہ یہ ڈانٹنے کا ایک انداز ہے کہ ایسا مت کرو‘ جیسے کہ قرآن مجید میں ہے: ﴿فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ﴾ (الکھف: 18:29) تبھی تو اسے ظلم کہا گیا ہے۔ اور ظلم حرام ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3711
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3717
´عطیہ و ہبہ (بخشش) کے سلسلہ میں نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کی حدیث کے ناقلین کے سیاق کے اختلاف کا ذکر۔`
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما نے خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”(لوگو!) اپنے بیٹوں کے درمیان انصاف کرو، اپنے بیٹوں کے درمیان انصاف کرو“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب النحل/حدیث: 3717]
اردو حاشہ:
(1) مذکورہ بالا بعض روایات میں مطلق اولاد کا ذکر ہے۔ لفظ اولاذ مذکر اور مؤنث دونوں پر بولا جاتا ہے‘ اس لیے اگر آدمی اپنی زندگی میں اولاد کو ہبہ کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی تمام اولاد (مذکرومؤنث) میں برابری کرے۔ وراثت کی تقسیم میں مذکر و مؤنث کا فرق کیا جائے گا ہبہ اور عطیہ میں نہیں۔ واللہ أعلم۔
(2) جمہور اہل علم نے بیٹوں میں برابری کو مستحب قراردیا ہے‘ واجب نہیں‘ مگر ایسی صحیح اور صریح روایات کی موجودگی میں یہ موقف درست نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3717
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3542
´باپ اپنے بعض بیٹوں کو زیادہ عطیہ دے تو کیسا ہے؟`
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے کوئی چیز (بطور عطیہ) دی، (اسماعیل بن سالم کی روایت میں ہے کہ انہیں اپنا ایک غلام بطور عطیہ دیا) اس پر میری والدہ عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جایئے (اور میرے بیٹے کو جو دیا ہے اس پر) آپ کو گواہ بنا لیجئے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (آپ کو گواہ بنانے کے لیے) حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا اور کہا کہ میں نے اپنے بیٹے نعمان کو ایک عطیہ دیا ہے اور (میری بیوی) عمرہ نے کہا ہے کہ میں آپ کو اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3542]
فوائد ومسائل:
1۔
والدین پرواجب ہے عطیہ وہدیہ کے سلسلے میں سب اولاد لڑکے اور لڑکیوں میں بلا امتیاز برابری رکھیں۔
اور اگر کوئی بچہ زیادہ خدمت کرتا ہو۔
تو وہ اس کی اپنی سعادت ہے۔
جس کا اجر اسے اللہ کے ہاں ملے گا۔
علاوہ ازیں اسے ماں باپ کی شفقت اور دعایئں بھی زیادہ حاصل ہوں گی۔
لیکن والدین مالی لحاظ سے اسے دوسروں پرترجیح نہیں دے سکتے۔
اگر ایسا کریں گے تو یہ ظلم ہوگا۔
2۔
اولاد پر واجب ہے کہ اپنے والدین کی خدمت اور احسان مندی کو سعادت جانیں اور اس طرح مت سوچیں کہ فلاں تو کرتا نہیں۔
بلکہ یوں سوچیں کہ یہ خدمت میں نے ہی کرنی ہے۔
3۔
ظلم کا گواہ بننا بھی ناجائز اور گناہ میں تعاون ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
(وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ) (المائدة: 2) یعنی گناہ اورزیادتی پر ایک دوسرے پر تعاون مت کرو
4۔
داعی اور مربی پر لازم ہے کہ حق سمجھانے میں مخاطب کو فکری اور نظری اعتبار سے قائل اور مطمین کرے۔
5۔
اس روایت میں مجالد کے الفاظ کا اضافہ صحیح نہیں ہے۔
(علامہ البانی)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3542
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3544
´باپ اپنے بعض بیٹوں کو زیادہ عطیہ دے تو کیسا ہے؟`
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی اولاد کے درمیان انصاف کیا کرو، اپنے بیٹوں کے حقوق کی ادائیگی میں برابری کا خیال رکھا کرو“ (کسی کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی نہ ہو)۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3544]
فوائد ومسائل:
فائدہ: جب کوئی شخص اپنی اولاد کو عطیہ دینا چاہے تو لازم ہے کہ لڑکے لڑکی خدمت گزار غیر خدمت گزار چھوٹے بڑے عالم جاہل اور عاقل غبی وغیرہ میں کوئی تمیز نہ کرے۔
کسی کو محروم نہ رکھے۔
اور جس طرح ممکن ہو سب کو برابر دے۔
البتہ اگر عطیے یا ہدیے کی بجائے کسی شخص کی سرے سے نیت ہی یہ ہو کہ اس کے مرنے کے بعد جو کچھ ترکہ یا ورثہ ہوگا اسے موت سے پہلے وارثوں میں تقسیم کردیا جائے۔
تو اس صورت میں ورثے کے بارے میں اللہ کے احکام کی پابندی لازمی ہوگی۔
پابندی نہ کی گئی تو زندگی میں تقسیم اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حصوں میں کمی بیشی کرنے کا ایک حیلہ قرارپائے گی جو کسی مسلمان کے لئے مناسب نہیں۔
عطا۔
شریح۔
اسحاق۔
اور محمد بن حسین۔
جیسے فقہاء زندگی میں دیے جانے والے عام عطیے کو بھی وراثت کے حصوں کے مطابق تقسیم کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔
(المغني لابن قدامة، کتاب الھبة والعطیة، بیان من یقبض الھبة للصبي۔
۔
۔
) لیکن ان کی رائے سے اتفاق کرنا اس لئے ممکن نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے۔
عطیہ دیتے ہوئے اپنی اولاد میں مساوات رکھو۔
اگر میں نے کسی کو ترجیح دینی ہوتی تو عورتوں کو ترجیح دیتا (فتح الباري،کتاب الهبة وفضلھا، باب الشھادة في الهبة) کسی بچے کو عاق کہہ کرمحروم کرنا بھی جائز نہیں ماں خدانخواستہ کوئی دائرہ اسلام سے نکل جائے تو نہ وہ وارث بن سکتا ہے۔
نہ اس کا ورثہ مسلمان لے سکتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3544
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2376
´اپنی اولاد کو عطیہ دینے اور ہبہ کرنے کا بیان۔`
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان کے والد نے ان کو ایک غلام دیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تاکہ آپ کو اس پر گواہ بنائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اپنے سارے بیٹوں کو ایسے ہی دیا ہے“؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تب اس کو واپس لے لو۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الهبات/حدیث: 2376]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اولاد سے برابراسلوک کرنا چاہيے۔
روز مرہ کی ضروریات میں برابری یہ ہے کہ ہر ایک کواس کی ضرورت کےمطابق دیا جائے، مثلاً:
جس بچے کولباس کی ضرورت ہو اسےلباس مہیا کیا جائے۔
جسے علاج کی ضرورت ہو اس کاعلاج کرایا جائے۔
اس کے علاوہ عطیات میں برابر ضروری ہے۔
(2)
وراثت میں لڑکے اورلڑکی کےحصے میں فرق ہے لیکن عطیے میں یہ فرق نہیں۔
(3)
خریدوفروخت کی طرح قیمتی چیز ہبہ کرتے وقت بھی گواہ بنا لینا مناسب ہے۔
(4)
اولاد سے برابر حسن سلوک کا یہ فائدہ ہے کہ سب بچوں کےدل میں والدین کی محبت برابر ہو گی لہٰذا وہ بھی برابر احترام اورخدمت کرنے کی کوشش کریں گے۔
(5)
شرعی حکم بیان کرکے اس کی حکمت بھی بیان کردینے کا یہ فائدہ ہے کہ سائل مطمئن ہوجاتا ہےاورخوشی سےاس پرعمل کرتا ہے۔
(6)
والدین اپنی اولاد کوبہہ کی ہوئی چیز واپس لےسکتے ہیں۔
(7)
اگر لاعلمی میں کوئی ایسا کام ہو جائے جوشرعاً ممنوع ہوتو اس کی ہرممکن تلافی کرنا ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2376
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1367
´عطیہ دینے اور اولاد کے درمیان برابری کرنے کا بیان۔`
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کے باپ (بشیر) نے اپنے ایک بیٹے کو ایک غلام دیا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تاکہ آپ کو اس پر گواہ بنائیں، تو آپ نے ان سے پوچھا: کیا تم نے اپنے تمام لڑکوں کو ایسا ہی غلام عطیہ میں دیا ہے ۱؎ جیسا اس کو دیا ہے؟“ کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”تو اسے واپس لے لو۔“ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1367]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اولاد کو ہبہ کر نے میں مساوات کا یہ حکم جمہور کے نزدیک استحباب کے لیے ہے،
موطا میں صحیح سند سے مذکور ہے کہ ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے اپنے مرض الموت میں عائشہ رضی الله عنہا سے فرمایا تھا ”إني كنت نحلت نحلا فلو كنت اخترتيه لكان لك وإنما هو اليوم للوارث“ (میں نے تم کو کچھ ہبہ کے طور پر دینا چاہا تھا اگر وہ تم لے لیتی تو وہ تمہارا ہو جاتا،
اور اب تو وہ وارثوں ہی کا ہے،
) اسی طرح عمر رضی الله عنہ کا واقعہ طحاوی وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے عاصم کو کچھ ہبہ کے طور پر دیا تھا،
امام احمد بن حنبل وغیرہ کی رائے ہے کہ اولاد کے درمیان ہبہ میں عدل کرنا واجب ہے اور ایک کو دوسرے سے زیادہ دینا حرام ہے،
یہ لوگ شیخین (ابوبکر وعمر رضی الله عنہما) کے ان اقدامات کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ان اقدامات پر ان کے دیگر بچے راضی تھے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1367
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:948
948- سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میرے والد نے ایک غلام مجھے عطیے کے طور پر دیا تو میری والدہ سیدہ عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا نے ان سے گزارش کی آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر انہیں گواہ بنالیں، تو میرے والد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنانے کے لیے حاضر ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”کیا تم نے اپنی ہرا ولاد کو اسی کی مانند عطیہ دیا ہے؟“ انہوں نے عرض کی: جی نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں صرف حق بات پر گواہ بن سکتا ہوں“، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر گواہ بننے سے انکار کرد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:948]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اولاد کے درمیان انصاف کرنا چاہیے، یہ بھی ثابت ہوا کہ جھوٹ پر گوا ہی نہیں دینی چاہیے، اور لوگوں سے پہلے تحقیق کر لینی چاہیے، تا کہ جھوٹ پر گواہی نہ ہو سکے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 947
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:951
951- سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ان کے والد نے انہیں کوئی عطیہ دیا پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنانے کے لئے حاضر ہوئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: کیا تم نے اپنی ہر اولاد کو اسی کی مانند عطیہ دیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: جی نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تم اسے واپس لے لو۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:951]
فائدہ:
تقدم شرحه: 947، نیز اس حدیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ اولاد کو تحفہ تحائف اور عطیات میں برابر رکھنا چاہیے، بلکہ اگر باپ اپنی زندگی میں وراثت تقسیم کرے تو بیٹے اور بیٹیوں کو برابر برابر حصہ دیا جائے گا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 950
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4177
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرا باپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا، اور عرض کیا، میں نے اپنے اس بچہ کو اپنا غلام ہبہ کر دیا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو نے اپنی تمام اولاد کو اسی قسم کا عطیہ دیا ہے؟“ تو اس نے کہا، نہیں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس (غلام) کو واپس لو۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4177]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت نعمان رضی اللہ عنہ جب پیدا ہوئے،
تو ان کی والدہ عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا نے یہ مطالبہ کیا کہ میرے اس بچے کو کوئی عطیہ دو،
وگرنہ میں اس کی پرورش و پرداخت نہیں کرتی،
تو ان کے والد بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیوی کو راضی کرنے کے لیے ایک بہترین باغ،
اپنے بیٹے کو ہبہ کر دیا،
پھر بعد میں واپس لے لیا،
پھر ٹال مٹول سے کام لیتے رہے،
جب بیوی کا اصرار بڑھا،
تو انہوں نے ایک غلام دینے کا اظہار کیا،
تو بیوی نے پہلے واقعہ کے پیش نظر یہ کہا کہ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بناؤ تاکہ پھر واپس نہ لے سکو،
اس لیے وہ اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے،
بعض راویوں نے،
گواہی کے واقعہ کو باغ کے ہبہ کے ساتھ ہی بیان کر دیا ہے،
جو وہم ہے،
کیونکہ اگر پہلے وہ مسئلہ سن چکے تھے،
تو وہ دوبارہ یہ کام نہ کرتے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4177
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4178
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرا باپ مجھے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام کا عطیہ دیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تو نے تمام اولاد کو عطیہ دیا ہے؟“ اس نے کہا، نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ”اسے واپس لے لو۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4178]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ تحفہ،
تحائف اور ھبہ میں اولاد کے درمیان بلا ضرورت اور بلا وجہ امتیاز کرنا درست نہیں ہے،
ہاں اگر کوئی سبب یا وجہ یا ضرورت ہو،
تو پھر درست ہے،
مثلا ایک چھوٹا ہے،
اس کی ضروریات کم ہیں،
ایک بڑا ہے،
اس کی ضروریات زیادہ ہیں،
ایک ان پڑھ ہے،
دوسرا علمی کاموں میں مصروف ہے،
اس لیے اس کو زیادہ رقم کی ضرورت ہے،
اور یہ چیزیں درحقیقت عطیہ یا ھبہ اور تحفہ نہیں ہیں،
بلکہ ان کی ضروریات ہیں،
جن میں برابری ممکن نہیں ہے۔
ایک شادی شدہ ہے،
ایک غیر شادی شدہ ہے،
ایک باپ کے ساتھ رہتا ہے اور اس کی خدمت کرتا ہے،
دوسرا پوچھتا ہی نہیں ہے،
ان امور میں کمی و بیشی کو امتیاز یا تفضیل نہیں سمجھا جاتا،
اس لیے جہاں صحابہ کرام سے کوئی ایسا واقعہ منقول ہے،
کہ انہوں نے اپنی کسی اولاد کو دیا اور کسی کو نہیں دیا،
تو اس میں اس کی ضرورت کا لحاظ رکھا گیا ہے،
یا دوسروں کی رضامندی سے ایسے ہوا ہے،
اس لیے امام احمد،
امام اسحاق،
ائمہ محدثین اور اہل ظاہر کے نزدیک تحفہ اور عطیہ میں برابری ضروری ہے،
حتی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں مذکر اور مؤنث میں امتیاز کرنا جائز نہیں ہے،
ایک اخلاقی فرض ہے،
کیونکہ اس سے اولاد کے باہمی تعلقات اور والدین کے ساتھ رویہ میں خلل اور بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے،
اس لیے یہ ناپسندیدہ حرکت ہے،
اگرچہ جائز ہے۔
امام ابو حنیفہ،
امام مالک،
امام شافعی،
امام لیث وغیرہم کا یہی موقف ہے،
امام ابو یوسف کے نزدیک اگر امتیاز کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے ہو،
تو پھر جائز نہیں ہے،
اور حسن بصری کے نزدیک دیانۃ جائز نہیں ہے،
اگرچہ قضاء یعنی قانونی رو سے جائز ہے،
اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے،
باپ،
عطیہ یا ھبہ کردہ چیز واپس لے سکتا ہے،
جمہور نے اس حدیث کی تاویل میں تقریبا دس (10)
پیش کیے ہیں اور صاحب سبل السلام نے لکھا ہے کہ وہ سب ناقابل قبول ہیں۔
(سبل السلام،
ج 3،
ص 109)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4178
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4180
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے باپ نے اسے ایک غلام دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”یہ غلام کیوں آیا ہے؟“ میں نے کہا، مجھے میرے باپ نے دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا اس کے سب بھائیوں کو بھی اس طرح دیا ہے، جیسے اسے دیا ہے؟“ اس نے کہا، نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غلام لوٹا دو۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4180]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے،
اگر بلا سبب و ضرورت اولاد میں امتیاز برتا جائے،
تو باپ کے لیے ایسے ہبہ یا عطیہ کی واپسی ضروری ہے،
اور اس کی یہ تاویل کرنا درست نہیں ہے کہ حضرت عمرہ رضی اللہ عنہا نے،
اس ہبہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت پر موقوف کیا تھا،
کیونکہ اس نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واپسی کے خطرہ کے پیش نظر گواہ بنانے کے لیے کہا تھا،
نہ کہ آپﷺ سے اجازت لینے کے لیے،
جیسا کہ اگلی روایت میں اس کی صراحت آ رہی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4180
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4185
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی سندوں سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ میرا باپ مجھے اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! گواہ ہو جائیے کہ میں نے نعمان کو اپنے مال سے یہ یہ دیا ہے، تو آپﷺ نے فرمایا: ”کیا تم نے اپنے سب بیٹوں کو نعمان جیسا عطیہ دیا ہے؟“ اس نے کہا، نہیں، آپﷺ نے فرمایا: ”تو اس پر میرے سوا کسی اور کو گواہ بنا لے۔“... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4185]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نعمان کے والد،
ان کو کچھ مسافت اٹھا کر بھی لے گئے،
جیسا کہ کچھ فاصلہ ہاتھ پکڑ کر لے گئے،
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا،
کہ میرے سوا کسی اور کو گواہ بنا لو،
کا یہ مقصد نہیں تھا کہ کسی اور کو گواہ بنا لو،
کیونکہ یہ معاملہ تو جائز ہے،
لیکن پسندیدہ نہیں ہے،
کیونکہ آگے آپﷺ کا یہ فرمانا،
(فلا اذا)
تو تب ایسا مت کرو،
اس بات کی دلیل ہے کہ تیری بیوی کو میرا گواہ بنانا مقصود ہے اور میں اس ظلم پر گواہ نہیں بنتا،
اور میرے انکار پر اور کوئی گواہ کیسے بنے گا یا تیری بیوی کیسے مطمئن ہو گی،
اور پھر یہ بات بھی سمجھا دی کہ اگر تم سب اولاد کو یکساں نہیں سمجھتے،
تو ان سے یکساں سلوک کی امید کیسے رکھ سکتے ہو،
اور اس علت سے یہ ثابت ہوا،
یہ صرف بشیر رضی اللہ عنہ کے احوال و ظروف کا لحاظ کر کے،
صرف انہیں کے لیے حکم نہیں تھا،
بلکہ سب باپوں کو خطاب ہے،
کیونکہ یہ علت سب جگہ موجود ہے،
اور یہ بھی معلوم ہوا،
عطیہ میں مذکر اور مؤنث میں فرق نہیں ہے،
کیونکہ ان سے بھی حسن سلوک اور وفا مطلوب ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4185
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2587
2587. حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے برسرمنبر کہا کہ میرے والد نے مجھے کچھ عطیہ دیا تو میری والدہ حضرت عمر ہ بنت رواحہ ؓ نے کہا: میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گی جب تک تم رسول اللہ ﷺ کو اس پر گواہ نہ بناؤ۔ لہذا وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا: میں نے حضرت عمرہ بنت رواحہ ؓ کے بطن سے پیدا ہونے والے اس بیٹے کو کچھ عطیہ دیاہے۔ اللہ کے رسول ﷺ!عمرہ کے کہنے کے مطابق آپ کو اس پر گواہ بنانا چاہتا ہوں۔ آپ نے دریافت کیا: ” آیا تم نے اپنی تمام اولاد کو اتنا ہی دیا ہے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل وانصاف کیا کرو۔“ حضرت نعمان ٍ کا بیان ہے کہ(یہ سن کر) میرے والد لوٹ آئے اور انھوں نے دی ہوئی چیز واپس لے لی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2587]
حدیث حاشیہ:
اس واقعہ سے ہبہ کے اوپر گواہ کرنا ثابت ہوا۔
نعمان ؓ کی والدہ نے آنحضرت ﷺ کو ہبہ پر گواہ بنانا چاہا۔
اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2587
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2650
2650. حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میری والدہ نے میرے باپ سے میرے لیے کچھ مال ہبہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ والد نے کچھ سوچ و بچار کے بعد اسے میرے لیے کچھ مال دے دیا۔ پھر والدہ نے کہا: جب تک نبی ﷺ کو اس بات پر گواہ نہ کرلو میں راضی نہیں، چنانچہ میرے والد نے میرا ہاتھ پکڑا کیونکہ میں اس وقت کمسن بچہ تھا۔ اور مجھے نبی ﷺ کے پاس لے آئے اور عرض کیا: اس لڑکے کی ماں بنت رواحہ نے اس کے لیے مجھ سے ہبہ کا مطالبہ کیا ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ” کیا اس کے علاوہ تمھاری اور اولاد بھی ہے؟“ انھوں نے عرض کیا: جی ہاں!حضرت نعمان ؓ کہتے ہیں۔ میرے خیال کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے اس ظلم پر گواہ نہ بناؤ۔“ ابو حریز کی شعبی سے بیان کردہ روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ”میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2650]
حدیث حاشیہ:
گواہ پر اگر یہ ظاہر ہے کہ یہ ظلم ہے تو اس کا فرض ہے کہ اس کے حق میں ہرگز گواہی نہ دے ورنہ وہ بھی اس گناہ میں شریک ہوجائے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2650
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2586
2586. حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد انھیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا: میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہبہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ” کیا تو نے اپنی تمام اولاد کو اس جیسا (غلام) دیا ہے؟“ انھوں نے کہا: نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: ”اپنا عطیہ واپس لے لو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2586]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ اولاد کے لیے ہبہ یا عطیہ کے سلسلے میں انصاف ضروری ہے جو دیا جائے سب کو برابر برابر دیا جائے، ورنہ ظلم ہوگا۔
والد کے لیے ثابت ہوا کہ وہ اولاد سے اپنا عطیہ واپس بھی لے سکتا ہے اور اولاد کے مال میں سے ضرورت کے وقت دستور کے موافق کھا بھی سکتا ہے۔
ابن حبان اور طبرانی کی روایت میں یوں ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا، میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا۔
ہمارے امام احمد بن حنبل ؒ کا یہی قول ہے کہ اولاد میں عدل کرنا واجب ہے اور ایک کو دوسرے سے زیادہ دینا حرام ہے۔
ایک روایت میں یوں ہے کہ نعمان کے باپ نے اس کو باغ دیا تھا اور اکثر روایتوں میں غلام مذکور ہے۔
حافظ نے کہا، طاؤس اور ثوری اور اسحاق بھی امام احمد کے ساتھ متفق ہیں۔
بعض مالکیہ کہتے ہیں کہ ایسا ہبہ ہی باطل ہے اور امام احمد صحیح کہتے ہیں پر رجوع واجب جانتے ہیں اور جمہور کا قول یہ ہے کہ اولاد کو ہبہ کرنے میں عدل اور انصاف کرنا مستحب ہے۔
اگر کسی اولاد کو زیادہ دے تو ہبہ صحیح ہوگا لیکن مکروہ ہوگا، حنفیہ بھی اس کے قائل ہیں۔
(وحیدی)
حافظ ابن حجر نے یہاں عمل الخلیفتین کو نقل کیا ہے اور بتلایا ہے کہ اولاد کو ہبہ کرنے میں مساوات کا حکم استحباب کے لیے ہے۔
مؤطا میں سند صحیح کے ساتھ مذکور ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؒ نے اپنے مرض وفات میں حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا تھا، إنی کنت نحلت نحلا فلولا کنت أخترتیي لکان لك و إنما هو الیوم للوارث یعنی میں نے تجھ کوکچھ بطور بخشش دیناچاہا تھا، اگر تم اس کو قبول کرلیتیں تو وہ تمہارا ہوجاتا اور اب تو وہ وارثوں ہی میں تقسیم ہوگا۔
حضرت عمر ؓ کا واقعہ طحاوی وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے عاصم کو کچھ بطور بخشش دیا تھا۔
مانعین نے ان کا یہ جواب دیا ہے کہ شیخین کے ان اقدامات پر ان کے دیگر بچے سب راضی تھے۔
اس صورت میں جواز میں کوئی شبہ نہیں۔
بہر حال بہتر و اولیٰ مساوات ہی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2586
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2586
2586. حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد انھیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا: میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہبہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ” کیا تو نے اپنی تمام اولاد کو اس جیسا (غلام) دیا ہے؟“ انھوں نے کہا: نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: ”اپنا عطیہ واپس لے لو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2586]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ روایت اپنے مفہوم میں واضح ہے، البتہ فقہاء نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے کہ کوئی شخص اپنے بیٹوں کو عطیہ دیتے وقت فرق کر سکتا ہے یا نہیں؟ امام احمد ؒ اور دیگر کئی ائمہ کا موقف ہے کہ لڑکے کو لڑکی سے دوگنا دینا جائز ہے، تاہم جمہور کا موقف یہ ہے کہ اولاد میں مساوات اور عدل و انصاف ضروری ہے۔
انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ فرق نہ کیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرق پر مبنی عطیہ واپس لینے کا حکم دیا، پھر دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
”میں اس ظلم پر گواہی نہیں دے سکتا۔
“ (صحیح البخاري، الشھادات، حدیث: 2650) (2)
اگر کوئی بیٹا وغیرہ معذور ہے، وہ کام کاج کے قابل نہیں تو عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ ایسی اولاد کو باپ امتیازی حیثیت سے کچھ دے۔
اگر مساوات کا خیال رکھتے ہوئے اسے کچھ نہیں دے گا تو زندگی کے مسائل سلجھانے کے لیے اس نے معذور اولاد کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔
ایسا کرنا دین اسلام کے خلاف ہے۔
باپ کو چاہیے کہ معذور اولاد کے لیے کوئی رقم یا جائیداد مختص کر دے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2586
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2587
2587. حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے برسرمنبر کہا کہ میرے والد نے مجھے کچھ عطیہ دیا تو میری والدہ حضرت عمر ہ بنت رواحہ ؓ نے کہا: میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گی جب تک تم رسول اللہ ﷺ کو اس پر گواہ نہ بناؤ۔ لہذا وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا: میں نے حضرت عمرہ بنت رواحہ ؓ کے بطن سے پیدا ہونے والے اس بیٹے کو کچھ عطیہ دیاہے۔ اللہ کے رسول ﷺ!عمرہ کے کہنے کے مطابق آپ کو اس پر گواہ بنانا چاہتا ہوں۔ آپ نے دریافت کیا: ” آیا تم نے اپنی تمام اولاد کو اتنا ہی دیا ہے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل وانصاف کیا کرو۔“ حضرت نعمان ٍ کا بیان ہے کہ(یہ سن کر) میرے والد لوٹ آئے اور انھوں نے دی ہوئی چیز واپس لے لی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2587]
حدیث حاشیہ:
ہبہ دیتے ہوئے گواہ بنانا جائز ہے جیسا حضرت نعمان کی والدہ ماجدہ نے رسول اللہ ﷺ کو ہبہ پر گواہ بنانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن رسول اللہ ﷺ نے عدل و انصاف سے ہٹ کر عطیہ دینے پر گواہی نہیں دی اور نہ اسے منظور ہی فرمایا بلکہ آپ نے عدل و انصاف اور مساوات کا حکم دیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2587
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2650
2650. حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میری والدہ نے میرے باپ سے میرے لیے کچھ مال ہبہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ والد نے کچھ سوچ و بچار کے بعد اسے میرے لیے کچھ مال دے دیا۔ پھر والدہ نے کہا: جب تک نبی ﷺ کو اس بات پر گواہ نہ کرلو میں راضی نہیں، چنانچہ میرے والد نے میرا ہاتھ پکڑا کیونکہ میں اس وقت کمسن بچہ تھا۔ اور مجھے نبی ﷺ کے پاس لے آئے اور عرض کیا: اس لڑکے کی ماں بنت رواحہ نے اس کے لیے مجھ سے ہبہ کا مطالبہ کیا ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ” کیا اس کے علاوہ تمھاری اور اولاد بھی ہے؟“ انھوں نے عرض کیا: جی ہاں!حضرت نعمان ؓ کہتے ہیں۔ میرے خیال کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے اس ظلم پر گواہ نہ بناؤ۔“ ابو حریز کی شعبی سے بیان کردہ روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ”میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2650]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے پر ظلم کرتا ہے یا کسی کا حق مارتا ہے، پھر وہ اپنی زیادتی پر کسی کی تائید بھی حاصل کرنا چاہتا ہے، کچھ احباب اس مقصد کے لیے تیار بھی ہو جاتے ہیں۔
ایسا کرنا خود ایک زیادتی اور جرم میں شریک ہونے کے مترادف ہے، اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ ظالم کے حق میں ہرگز گواہی نہ دے بصورت دیگر وہ بھی اس گناہ میں شریک ہو جائے گا۔
(2)
ہبہ کے معاملے میں تمام بچوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جائے۔
ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا ایک ناپسندیدہ عمل ہے جس کی مذکورہ حدیث سے ممانعت ثابت ہے۔
ابو حریز کی روایت کو امام ابن حبان ؒ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(صحیح ابن حبان(ابن بلبان)
: 11/506)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2650