حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِالْمُؤْمِنِينَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَأَيُّكُمْ مَا تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيْعَةً، فَادْعُونِي فَأَنَا وَلِيُّهُ وَأَيُّكُمْ مَا تَرَكَ مَالًا، فَلْيُؤْثَرْ بِمَالِهِ عَصَبَتُهُ مَنْ كَانَ ".
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1965
´مقروض آدمی کی نماز جنازہ کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب کوئی مومن مرتا اور اس پر قرض ہوتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھتے: ”کیا اس نے اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ چھوڑا ہے؟“ اگر لوگ کہتے: جی ہاں، تو آپ اس کی نماز جنازہ پڑھتے، اور اگر کہتے: نہیں، تو آپ کہتے: ”تم اپنے ساتھی پر نماز (جنازہ) پڑھ لو۔“ پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر فتح و نصرت کا دروازہ کھولا، تو آپ نے فرمایا: ”میں مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتا ہوں، تو جو وفات پا جائے اور اس پر قرض ہو، تو (اس کی ادائیگی) مجھ پر ہے، اور اگر کوئی مال چھوڑ کر گیا تو وہ اس کے وارثوں کا ہے۔“ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1965]
1965۔ اردو حاشیہ: ابتدائی دور میں بھی صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی مقروض کے جنازے سے انکار فرماتے تھے (تاکہ لوگ قرض کی ادائیگی میں سستی نہ کریں)، دوسرے لوگ جنازہ پڑھتے تھے۔ ایسی کوئی مثال نہیں کہ کویئ گناہ گار مسلمان بغیر جنازے کے دفن ہوا ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1965
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2090
´ترکہ کے مستحق میت کے وارث ہیں۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے (مرنے کے بعد) کوئی مال چھوڑا تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، اور جس نے ایسی اولاد چھوڑی جس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے تو اس کی کفالت میرے ذمہ ہے۔“ [سنن ترمذي/كتاب الفرائض/حدیث: 2090]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
ایسے مسلمان یتیموں اوربیواؤں کی کفالت اس حدیث کی رُوسے مسلم حاکم کے ذمّے ہے کہ جن کا مورث اُن کے لیے کوئی وراثت چھوڑکرنہ مراہو۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2090
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4159
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، زمین پر جو بھی مؤمن ہے، میں سب لوگوں سے، اس کا زیادہ قریبی ہوں، (حقدار ہوں) تو تم میں جس نے بھی کوئی قرض چھوڑا یا بال بچے چھوڑے، تو میں اس کا کارساز یا مددگار ہوں، اور تم میں سے جس نے مال چھوڑا، تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، جو بھی ہوں۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4159]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
جو لوگ خود کمائی نہیں کر سکتے،
اور اگر ان کی نگہداشت نہ کی جائے تو وہ ہلاکت کا شکار ہو سکتے ہیں،
ان کی ضروریات کی فراہمی کی ذمہ دار اسلامی حکومت یا مسلمانوں کا بیت المال ہے،
اور اب اگر یہ کام حکومت نہیں کر رہی،
تو مسلمان لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے محلہ کی سطح پر اس کا انتظام کرنے کی کوشش کریں،
اور ایسے لوگوں کی کفالت کریں،
جو فقروفاقہ سے تنگ آ کر خودکشی کرنے لگتے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4159
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2298
2298. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کے پاس کوئی میت لائی جاتی جس پر قرض ہوتا تو آپ پوچھتے: ” کیا اس نے قرض کی ادائیگی کے لیےکچھ مال چھوڑا ہے؟“ اگر بیان کیا جاتا کہ اس نے اتنا مال چھوڑاہے جس سے قرض کی ادائیگی ہو سکتی ہے توآپ اس کی نماز جنازہ پڑھ دیتے ورنہ مسلمانوں سے کہہ دیتے۔ ”تم اپنے ساتھی کی نمازجنازہ پڑھو۔“ جب اللہ تعالیٰ نے آپ پر فتوحات کے دروازے کھول دیے تو آپ نے فرمایا: ”میں اہل ایمان پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھتا ہوں۔ لہٰذا جو کوئی مومن فوت ہو جائے اور وہ قرض چھوڑجائے تو اس کی ادائیگی میرے ذمے ہوگی اور جو مال چھوڑے وہ اس کے وارثوں کے لیے ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2298]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ قرض داری بری بلا ہے۔
آنحضرت ﷺ نے اس کی وجہ سے نماز نہیں پڑھائی، اسی لیے قرض سے ہمیشہ بچنے کی دعا کرنا ضروری ہے۔
اگر مجبوراً قرض لینا پڑے تو اس کی ادائیگی کی کامل نیت رکھنا چاہئے۔
اس طرح اللہ پاک بھی اس کی مدد کرے گا۔
اور اگر دل میں بے ایمانی ہو تو پھر اللہ بھی ایسے ظالم کی مدد نہیں کرتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2298
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2399
2399. حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”دنیا میں کوئی مومن ایسا نہیں جس سے میرا دنیا وآخرت میں سب سے زیادہ قریب رشتہ نہ ہو۔ اگر چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھ لو:“ ”نبی اہل ایمان سے ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریبی رشتہ رکھتے ہیں۔“ ”لہٰذا جو کوئی مومن مرجائے اور مال چھوڑجائے تو وہ اس کے خاندان کو ملے گا جو اس کے وارث ہوں۔ اور جو کوئی قرض یا عیال چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آئے میں اس کا بندو بست کرنے والا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2399]
حدیث حاشیہ:
یعنی اس کے بال بچوں کی پرورش کرنا ہمارے ذمہ ہے۔
یعنی بیت المال میں سے یہ خرچہ دیا جائے گا۔
سبحان اللہ! اس سے زیادہ شفقت اور عنایت کیا ہوگی۔
جو حضرت رسول کریم ﷺ کو اپنی امت سے تھی۔
باپ بھی بیٹے پر اتنا مہربان نہیں ہوتا جتنے آنحضرت ﷺ کی مسلمانوں پر مہربانی تھی۔
یہی وجہ تھی کہ مسلمان سب برابر کے شریک تھے اور بیت المال یعنی خزانہ ملک سارے مسلمانوں کا حصہ تھا۔
یہ نہیں کہ وہ بادشاہ کا ذاتی سمجھا جائے کہ جس طرح چاہئے، اپنی خواہشوں میں اس کو اڑائے اور مسلمان فاقے مرتے رہیں۔
جیسے ہمارے زمانے میں عموماً مسلمان رئیسوں اور نوابوں کا حال ہے اللہ ان کو ہدایت کرے۔
﴿النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ﴾ (الأحزاب: 6)
یعنی جتنا ہر مومن خود اپنی جان پر آپ مہربان ہوتا ہے اس سے زیادہ آنحضرت ﷺ اس پر مہربان ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی گناہ اور کفر کرکے اپنے تئیں ہلاکت ابدی میں ڈالنا چاہتا ہے۔
اور آنحضرت ﷺ اس کو بچانا چاہتے ہیں۔
اور فلاح ابدی کی طرف لے جانا۔
اس لیے آپ ہر مومن پر خود اس کے نفس سے بھی زیادہ مہربان ہیں۔
اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ جو نادار غریب مسلمان بحالت قرض انتقال کر جائیں، بات المال سے ان کے قرض کی ادائیگی کی جائے گی۔
بیت المال سے وہ خزانہ مراد ہے جو اسلامی خلافت کی تحویل میں ہوتا ہے۔
جن میں اموال غنائم، اموال زکوٰۃ اور دیگر قسم کی اسلامی آمدنیاں جمع ہوتی ہیں۔
اس بیت المال کا ایک مصرف نادار غریب مساکین کے قرضوں کی ادائیگی بھی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2399
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4781
4781. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جتنے بھی مومن ہیں، میں ان سب کا دنیا و آخرت کے کاموں میں سب سے زیادہ خیرخواہ ہوں، اگر تمہارا دل چاہے تو یہ آیت پڑھ لو: ﴿النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ﴾ اس لیے جو مومن مرتے وقت مال و دولت چھوڑ جائے تو اس کے وارث اس کے عزیز و اقارب ہوں گے جو بھی ہوں، لیکن اگر کسی مومن نے قرض چھوڑا ہے یا اولاد چھوڑی ہے تو وہ میرے پاس آ جائیں میں ان کا ذمہ دار ہوں۔'' [صحيح بخاري، حديث نمبر:4781]
حدیث حاشیہ:
ان کا قرض ادا کرنا میرے ذمہ ہوگا اور ان کی اولاد کی پرورش میں کروں گا۔
سبحان اللہ اس شفقت اورمہر بانی کا کیا کہنا۔
(صلی اللہ علیه وسلم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4781
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5371
5371. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب کسی ایسے شخص کا جنازہ لایا جاتا جس پر قرض ہوتا تو آپ دریافت فرماتے: مرنے والے نے اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے کوئی ترکہ چھوڑا ہے؟ اگر بتایا جاتا کہ اس نے اتنا ترکہ چھوڑا ہے جس سے قرض ادا ہو سکتا ہے تو آپ اس کا جنازہ پڑھتے بصورت دیگر آپ دوسرے مسلمانوں سے فرماتے: ”تم خود ہی اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو۔“ پھر جب اللہ تعالٰی نے آپ پر فتوحات کے دروزاے کھول دیے تو آپ نے فرمایا: ”میں اہل ایمان سے خود ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہوں، اس لیے ان میں سے جب کوئی وفات پا جائے اور قرض چھوڑ دے تو اس کی ادائیگی میرے ذمے ہے اور اگر کوئی مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کے لیے ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5371]
حدیث حاشیہ:
لفظ ''صلوا علی صاحبکم'' کہنے سے یہ مقصد تھا کہ لوگ قرض ادا کرنے کی فکر رکھیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5371
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6731
6731. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میں اہل ایمان کا خود ان کی جانوں سے زیادہ تعلق دار ہوں، چنانچہ جو شخص فوت ہو جائے اور اس پر قرض ہو اور اس کی ادائیگی کے لیے اس نے کچھ نہ چھوڑا ہو تو اس کا ادا کرنا ہمارے ذمے ہے اور جو شخص مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وراثوں کے لیے ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6731]
حدیث حاشیہ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم امت کے لئے بمنزلہ باپ کے تھے اس لئے آپ نے یہ ارشاد فرمایا اور اسی لئے آپ اپنے ذمہ لے لیتے اور ادا فرما دیتے آپ کا یہی طرز عمل رہا (صلی اللہ علیہ وسلم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6731
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6763
6763. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جس نے مال چھوڑا وہ اس کے وراثوں کے لیے ہے اور جس نےقرض یا محتاج اہل عیال چھوڑا وہ ہمارے ذمے ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6763]
حدیث حاشیہ:
یہ ﴿اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ﴾ کے تحت آپ نے فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6763
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2298
2298. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کے پاس کوئی میت لائی جاتی جس پر قرض ہوتا تو آپ پوچھتے: ” کیا اس نے قرض کی ادائیگی کے لیےکچھ مال چھوڑا ہے؟“ اگر بیان کیا جاتا کہ اس نے اتنا مال چھوڑاہے جس سے قرض کی ادائیگی ہو سکتی ہے توآپ اس کی نماز جنازہ پڑھ دیتے ورنہ مسلمانوں سے کہہ دیتے۔ ”تم اپنے ساتھی کی نمازجنازہ پڑھو۔“ جب اللہ تعالیٰ نے آپ پر فتوحات کے دروازے کھول دیے تو آپ نے فرمایا: ”میں اہل ایمان پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھتا ہوں۔ لہٰذا جو کوئی مومن فوت ہو جائے اور وہ قرض چھوڑجائے تو اس کی ادائیگی میرے ذمے ہوگی اور جو مال چھوڑے وہ اس کے وارثوں کے لیے ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2298]
حدیث حاشیہ:
(1)
ہر پیغمبر کا یہ منصب ہے کہ وہ اہل ایمان کا سب سے زیادہ خیر خواہ ہوتا ہے، اس کے بعد اسلامی حکومت پر یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ قرض چھوڑنے والوں کا قرض اتارنے کا بندوبست کرے، بشرطیکہ اس کا ترکہ قرض کی ادائیگی کے لیے ناکافی ہو۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرض انتہائی بری بلا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس کی موجودگی میں نماز جنازہ نہیں پڑھائی، نیز آپ ﷺ قرض سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے تھے۔
اگر کسی مجبوری کی وجہ سے قرض لینا پڑے تو اس کی ادائیگی کی فکر دامن گیر ہونی چاہیے۔
اگر اسے ادا کرنے کی نیت ہے تو اللہ تعالیٰ مقروض کی مدد کرتا ہے اور اگر دل میں قرض کی ادائیگی کے متعلق فتور ہے تو ایسے ظالم انسان کی اللہ مدد نہیں کرتا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2298
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2398
2398. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جس نے کوئی مال چھوڑاتو وہ اس کے ورثاء کا حق ہے اور جس نے کوئی بوجھ (اہل وعیال یا قرض) چھوڑا تو وہ ہمارے ذمے ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2398]
حدیث حاشیہ:
(1)
بظاہر اس عنوان کا مقام کتاب الجنائز ہے، پھر اس حدیث میں نماز جنازہ کا کوئی ذکر نہیں ہے؟ دراصل امام بخاری ؒ نے آغاز کار کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ابتدائے اسلام میں اگر کوئی مر جاتا اور اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ نہ چھوڑ جاتا تو آپ اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھایا کرتے تھے۔
بعد میں جب فتوحات کا زمانہ آیا تو آپ نے میت کا قرض بیت المال کے ذمے کر دیا۔
(2)
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مرنے والے کے پاس قرض کی ادائیگی کا سامان نہیں ہے تو اس کا قرض بیت المال کی طرف سے ادا کیا جائے گا، لیکن اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ لوگ قرض لے کر فضول خرچیاں کریں اور اس امید پر اسراف کریں کہ بیت المال کی طرف سے ادا کر دیا جائے گا۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ اس پہلو پر کڑی نظر رکھے تاکہ لوگ اس سہولت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2398
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2399
2399. حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”دنیا میں کوئی مومن ایسا نہیں جس سے میرا دنیا وآخرت میں سب سے زیادہ قریب رشتہ نہ ہو۔ اگر چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھ لو:“ ”نبی اہل ایمان سے ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریبی رشتہ رکھتے ہیں۔“ ”لہٰذا جو کوئی مومن مرجائے اور مال چھوڑجائے تو وہ اس کے خاندان کو ملے گا جو اس کے وارث ہوں۔ اور جو کوئی قرض یا عیال چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آئے میں اس کا بندو بست کرنے والا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2399]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ اہل ایمان پر بہت مہربان ہیں کیونکہ انسان گناہ کر کے خود کو ہلاکت اور بربادی میں ڈالنا چاہتا ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ اسے بچانا چاہتے ہیں، اس لیے آپ اہل ایمان پر خود ان سے زیادہ مہربان ہیں، اسی مہربانی کا نتیجہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو مومن فوت ہو جائے تو اس کے مال کے وارث اس کے قریبی رشتہ دار ہوں گے اور جو قرض یا بے سہارا بچے چھوڑ جائیں اس کی سرپرستی رسول اللہ ﷺ کے ذمے ہے۔
رسول اللہ ﷺ پہلے مقروض کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے تھے لیکن فتوحات کے بعد ایسے شخص کی نماز جنازہ پڑھنا شروع کر دی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2399
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4781
4781. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جتنے بھی مومن ہیں، میں ان سب کا دنیا و آخرت کے کاموں میں سب سے زیادہ خیرخواہ ہوں، اگر تمہارا دل چاہے تو یہ آیت پڑھ لو: ﴿النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ﴾ اس لیے جو مومن مرتے وقت مال و دولت چھوڑ جائے تو اس کے وارث اس کے عزیز و اقارب ہوں گے جو بھی ہوں، لیکن اگر کسی مومن نے قرض چھوڑا ہے یا اولاد چھوڑی ہے تو وہ میرے پاس آ جائیں میں ان کا ذمہ دار ہوں۔'' [صحيح بخاري، حديث نمبر:4781]
حدیث حاشیہ:
دینی اعتبار سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ اہل ایمان کے خیر خواہ ہیں کیونکہ انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ذریعے سے ہدایت کا راستہ ملا ہے جس میں ہماری دنیوی اور اخروی کا میابی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حد درجہ خیر خواہی کا تقاضا یہ ہے کہ تمام مسلمان بھی آپ کا دوسرے سب لوگوں سے بڑھ کر احترام کریں اور آپ کی اطاعت کو بجا لائیں تاکہ آپ کی تعلیم وتربیت سے پوری طرح فیض یاب ہوا جا سکے جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تم میں کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اسے میرے ساتھ، اپنی اولاد اپنے والدین اور سب لوگوں سے زیادہ محبت نہ ہو۔
“(صحیح البخاري۔
الإیمان، حدیث: 15)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4781
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5371
5371. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب کسی ایسے شخص کا جنازہ لایا جاتا جس پر قرض ہوتا تو آپ دریافت فرماتے: مرنے والے نے اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے کوئی ترکہ چھوڑا ہے؟ اگر بتایا جاتا کہ اس نے اتنا ترکہ چھوڑا ہے جس سے قرض ادا ہو سکتا ہے تو آپ اس کا جنازہ پڑھتے بصورت دیگر آپ دوسرے مسلمانوں سے فرماتے: ”تم خود ہی اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو۔“ پھر جب اللہ تعالٰی نے آپ پر فتوحات کے دروزاے کھول دیے تو آپ نے فرمایا: ”میں اہل ایمان سے خود ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہوں، اس لیے ان میں سے جب کوئی وفات پا جائے اور قرض چھوڑ دے تو اس کی ادائیگی میرے ذمے ہے اور اگر کوئی مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کے لیے ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5371]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورۂ احزاب کی آیت: 6 تلاوت کرتے اور فرماتے:
”جس نے قرض یا لاوارث اولاد چھوڑی ہو، میں ان کا سرپرست ہوں اور ان کی نگہداشت میری ذمہ داری ہے۔
“ (صحیح البخاري، الاستقراض، حدیث: 2399) (2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو کتاب النفقات میں اس لیے بیان کیا ہے کہ مسلمانوں میں اگر کوئی نادار اولاد چھوڑ جائے تو اس اولاد کی پرورش بیت المال سے کی جائے گی۔
دور حاضر میں ایسے لا وارث بچوں کا خرچہ مال زکاۃ سے ادا کیا جا سکتا ہے۔
یہ مسلمانوں کا انتہائی اہم فریضہ ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5371
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6731
6731. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میں اہل ایمان کا خود ان کی جانوں سے زیادہ تعلق دار ہوں، چنانچہ جو شخص فوت ہو جائے اور اس پر قرض ہو اور اس کی ادائیگی کے لیے اس نے کچھ نہ چھوڑا ہو تو اس کا ادا کرنا ہمارے ذمے ہے اور جو شخص مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وراثوں کے لیے ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6731]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو یہاں مختصر طور پر بیان کیا ہے۔
ایک دوسری روایت میں تفصیل ہے۔
اس کے الفاظ یہ ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی میت لائی جاتی اور اس کے ذمے قرض ہوتا تو آپ اس کے متعلق دریافت فرماتے:
”کیا اس نے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ مال چھوڑا ہے؟“ اگر بتایا جاتا کہ اس نے مال چھوڑا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھتے بصورت دیگر فرماتے:
”تم خود اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھو۔
“ جب اللہ تعالیٰ نے فتوحات کا دروازہ کھول دیا تو آپ فرماتے:
”میں اہل ایمان کا خود ان سے زیادہ حق دار ہوں۔
ان میں سے اگر کوئی مقروض فوت ہو اور ادائیگی کے لیے کچھ نہ چھوڑا ہو تو ہم پر اس کی ادائیگی ہے اور جس نے مال چھوڑا ہے تو وہ اس کے ورثاء کے لیے ہے۔
“ (صحیح البخاري، الکفالة، حدیث: 2298)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میں دنیا و آخرت میں اہل ایمان سے زیادہ قربت رکھنے والا ہوں، اگر چاہو تو یہ پڑھ لو:
”بلاشبہ نبی اہل ایمان کے لیے ان کی اپنی ذات سے بھی زیادہ خیرخواہ ہے، لہذا اگر کوئی مومن فوت ہو جائے اور اس کا مال ہو تو وہ اس کے ورثاء کے لیے ہے، وہ جو بھی ہوں اور اگر قرض اور بال بچے چھوڑ گیا ہے تو وہ میرے پاس آئیں میں ان کا ضامن ہوں۔
“ (صحیح البخاري، الاستقراض، حدیث: 2399) (2)
غریب، تنگدست میت کا قرض اتارنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے جو آپ اپنے مال خالص سے ادا کرتے تھے۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ آپ بیت المال سے دیتے تھے، ان کے ہاں یہ ذمہ داری اسلامی حکومت کی ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6731
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6763
6763. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جس نے مال چھوڑا وہ اس کے وراثوں کے لیے ہے اور جس نےقرض یا محتاج اہل عیال چھوڑا وہ ہمارے ذمے ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6763]
حدیث حاشیہ:
(1)
سعید بن مسیّب کہتے ہیں کہ جو شخص، دشمن کے ہاتھوں قیدی ہو اسے وراثت میں حصہ دار نہ بنایا جائے لیکن جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ قیدی کو وراثت میں حصہ دار بنایا جائے گا اور اس کی وصیت کو بھی نافذ کیا جائے گا کیونکہ جب قیدی مسلمان ہے تو وہ درج بالا حدیث کے عموم میں داخل ہے کہ جس نے مال چھوڑا وہ اس کے ورثاء کے لیے ہے۔
قیدی بھی اس کا وارث ہے۔
صرف قید ہونے کی بنا پر اسے وراثت سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح جب تک وہ زندہ ہے اس کی بیوی کسی دوسرے شخص سے نکاح نہیں کر سکتی اور اس کا مال بھی تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔
اگر اس کی زندگی کا علم نہ ہو اور نہ اس کے مقام ہی کا کوئی اتاپتا ہو تو اسے مفقود کے حکم میں شامل کیا جائے گا۔
(2)
دوران حراست میں اگر اس کے مرتد ہونے کی خبر ملے تو جب تک اس بات کا علم نہ ہو کہ وہ اپنی مرضی سے مرتد ہوا ہے اس وقت تک اس پر مرتد کے احکام بھی جاری نہیں ہوں گے۔
ممکن ہے کہ دوران حراست میں کسی مجبوری کی وجہ سے اس نے ارتداد کا لبادہ اوڑھا ہو۔
(فتح الباري: 60/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6763