Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْمُسَاقَاةِ
سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری اور زمین دے کر بٹائی پر کاشت کرانا
12. باب تَحْرِيمِ بَيْعِ الْخَمْرِ:
باب: شراب بیچنا حرام ہے۔
حدیث نمبر: 4043
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى أَبُو هَمَّامٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ بِالْمَدِينَةِ قَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يُعَرِّضُ بِالْخَمْرِ وَلَعَلَّ اللَّهَ سَيُنْزِلُ فِيهَا أَمْرًا، فَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ مِنْهَا شَيْءٌ فَلْيَبِعْهُ وَلْيَنْتَفِعْ بِهِ، قَالَ: فَمَا لَبِثْنَا إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى حَرَّمَ الْخَمْرَ، فَمَنْ أَدْرَكَتْهُ هَذِهِ الْآيَةُ وَعِنْدَهُ مِنْهَا شَيْءٌ، فَلَا يَشْرَبْ وَلَا يَبِعْ ". قَالَ: فَاسْتَقْبَلَ النَّاسُ بِمَا كَانَ عِنْدَهُ مِنْهَا فِي طَرِيقِ الْمَدِينَةِ، فَسَفَكُوهَا.
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ مدینہ میں خطبہ دے رہے تھے، آپ نے فرمایاؒ "لوگو! اللہ تعالیٰ شراب (کی حرمت) کے بارے میں اشارہ فرما رہا ہے اور شاید اللہ تعالیٰ جلد ہی اس کے بارے میں کوئی (قطعی) حکم نازل کر دے۔ جس کے پاس اس (شراب) میں سے کچھ موجود ہے وہ اسے بیچ دے اور اس سے فائدہ اٹھا لے۔" کہا: پھر ہم نے تھوڑا ہی عرصہ اس عالم میں گزارا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے یقینا شراب کو حرام کر دیا ہے، جس شخص تک یہ آیت پہنچے اور اس کے پاس اس (شراب) میں سے کچھ (حصہ باقی) ہے تو نہ وہ اسے پیے اور نہ فروخت کرے۔" کہا: لوگوں کے پاس جو بھی شراب تھی وہ اسے لے کر مدینہ کے راستے میں نکل آئے اور اسے بہا دیا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدینہ منورہ میں خطبہ دیتے ہوئے یہ فرمان سنا: اے لوگو! بلاشبہ اللہ تعالیٰ شراب کی حرمت کا اشارہ دے رہے ہیں، اور شاید اللہ تعالیٰ جلدی اس کے بارے میں کوئی (قطعی) حکم نازل فرمائے گا، تو جس کے پاس کچھ شراب ہو، وہ اسے بیچ کر اس سے فائدہ اٹھا لے۔ وہ بیان کرتے ہیں، تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے شراب کو حرام قرار دے دیا ہے، تو اب اس آیت کے نزول کے بعد، جس کے پاس کچھ شراب ہو، تو وہ نہ پئے اور نہ فروخت کرے۔ تو وہ بیان کرتے ہیں، تو جن لوگوں کے پاس کچھ شراب تھی، وہ اسے مدینہ کی گلیوں یا رستوں میں لے آئے اور اسے بہا دیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4043 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4043  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
عرب شراب کے بہت رسیا تھے،
اور اس سے بہت کم افراد بچے ہوئے تھے،
اس لیے قرآن مجید میں اسے آہستہ آہستہ تدریجاً حرام ٹھہرایا گیا ہے،
سب سے پہلے سورہ نحل کی آیت ص 67 اتری کہ کھجوروں اور انگوروں کے پھلوں سے تم نشہ آور چیزیں بناتے ہو اور کھانے کی اچھی چیزیں بھی،
تو اس آیت میں رزق (غذا)
کے ساتھ حسن پاکیزہ اور اچھائی کی قید (صفت)
لا کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کر دیا کہ کھجور اور انگور سے نشہ آور چیزیں تیار کرنا،
ان کا صحیح استعمال نہیں ہے،
ان کا صحیح استعمال یہی ہے کہ ان سے ایسی غذا ہی حاصل کی جائے،
جس سے جسم اور عقل کو طاقت و توانائی حاصل ہو،
نہ کہ وہ غذا جو جسم کو سست و کاہل اور عقل و بدن کو ماؤف کر دے،
پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی،
اے اللہ کے رسولﷺ! شراب مال کو برباد کرتی ہے اور عقل کو معطل کر دیتی ہے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں،
وہ اس کے بارے میں حکم نازل فرمائے،
اس لیے یہ اصول ہے کہ جب تک کسی چیز کے بارے میں شریعت کا حکم نازل نہ ہو،
اس کا استعمال جائز ہے،
کیونکہ انسان پابند یا مکلف شریعت کے نزول کے بعد ٹھہرتا ہے،
اور اس پر ثواب و عقاب یا مؤاخذہ شروع ہوتا ہے،
اس کے بعد سورہ بقرہ کی آیت نمبر 219 اتری،
وہ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں سوال کرتے ہیں،
آپ فرما دیجئے،
ان دونوں کے اندر بڑا گناہ ہے،
اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں،
لیکن ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے۔
عربوں کے ہاں ایک دستور یہ بھی تھا،
کہ قحط کے زمانے میں مالدار لوگ شراب پی کر جوا کھیلتے اور اس میں جو کچھ جیتتے،
وہ غریبوں میں بانٹ دیتے،
اس طرح اس میں ایک اخلاقی اور انسانی خوبی پیدا ہو جاتی تھی،
اس لیے یہاں اس کے طبی اور مادی فوائد کی طرف اشارہ مقصود نہیں ہے،
اس لیے یہاں نفع کا مدمقابل،
إثم لایا گیا ہے،
جو اخلاقی مفاسد اور گناہوں کے لیے استعمال ہوتا ہے،
ضرر کا لفظ نہیں لایا گیا جو مادی مفاسد کے لیے آتا ہے،
گویا اس طرف اشارہ مقصود ہے،
کہ جو چیز اخلاقی طور پر مضر ہے،
اگر اس سے کوئی مادی فائدہ بھی پہنچتا ہو یا پہنچایا جا سکتا ہو،
تب بھی اس کے اخلاقی نقصان کے غلبہ کی بنا پر،
اس سے روکا جائے گا،
کوئی سود لے کر اس سے مسجد تعمیر کر دے،
یا لاٹری کی سکیموں میں حصہ لے کر،
اس کی رقم سے دینی مدرسہ تعمیر کر دے،
فلم اسٹار امدادی شو منعقد کر کے جہاد فنڈ میں ڈال دیں،
تو کیا ان کو جائز قرار دیا جا سکے گا،
اس آیت کے نزول کے بعد کچھ لوگ شراب اور جوئے سے باز آ گئے،
لیکن کلی طور پر یہ سلسلہ رکا نہیں،
اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر دعا کی،
تو سورہ نساء کی آیت نمبر 43 اتری کہ اے ایمان والو! نشہ کی حالت میں نماز کے قریب نہ جایا کرو،
یہاں تک کہ جو کچھ تم زبان سے کہتے ہو اس کو سمجھنے لگو،
اور جنابت کی حالت میں بھی یہاں نشہ کو جنابت کے ساتھ لا کر اشارہ کر دیا کہ نشہ بھی ایک قسم کی نجاست ہے،
نشہ عقل کی نجاست ہے اور جنابت جسم کی،
اس طرح شراب کی حرمت کا اشارہ کر دیا،
اس لیے آیت کے نزول کے بعد آپﷺ نے فرمایا:
(يايها الناس! ان الله يعرض بالخمر)
اے لوگو! اللہ شراب کی حرمت کی طرف اشارہ فرما رہا ہے۔
(جامع الاصول لابن اثیر،
ج 5،
ص 113)

اس کے تھوڑا عرصہ بعد سورہ مائدہ کی قطعی حرمت کی آیت نمبر 90-91 نازل ہوئی،
اور صحابہ کرام نے تعمیل حکم کرتے ہوئے شراب کو بہا دیا،
اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا،
جس چیز کا استعمال جائز نہیں ہے،
اس کی خرید و فروخت بھی حرام ہے،
اور شراب خمر کسے کہتے ہیں،
اس کی تفصیلات مشروبات کے باب میں آئے گی،
جس کو خمر کہا جاتا ہے،
اس کے پینے اور خرید و فروخت کے حرام ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4043