Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ
کتاب: نماز میں قصر کرنے کا بیان
5. بَابُ يَقْصُرُ إِذَا خَرَجَ مِنْ مَوْضِعِهِ:
باب: جب آدمی سفر کی نیت سے اپنی بستی سے نکل جائے تو قصر کرے۔
حدیث نمبر: 1090
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتِ:" الصَّلَاةُ أَوَّلُ مَا فُرِضَتْ رَكْعَتَيْنِ، فَأُقِرَّتْ صَلَاةُ السَّفَرِ وَأُتِمَّتْ صَلَاةُ الْحَضَرِ"، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَقُلْتُ لِعُرْوَةَ: مَا بَالُ عَائِشَةَ تُتِمُّ، قَالَ: تَأَوَّلَتْ مَا تَأَوَّلَ عُثْمَانُ.
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے زہری سے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پہلے نماز دو رکعت فرض ہوئی تھی بعد میں سفر کی نماز تو اپنی اسی حالت پر رہ گئی البتہ حضر کی نماز پوری (چار رکعت) کر دی گئی۔ زہری نے بیان کیا کہ میں نے عروہ سے پوچھا کہ پھر خود عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیوں نماز پوری پڑھی تھی انہوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کی جو تاویل کی تھی وہی انہوں نے بھی کی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1090 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1090  
حدیث حاشیہ:
حضرت عثمان ؓ نے جب منیٰ میں پوری نماز پڑھی تو فرمایا کہ میں نے یہ اس لیے کیا کہ بہت سے عوام مسلمان جمع ہیں ایسا نہ ہو کہ وہ نماز کی دو ہی رکعت سمجھ لیں۔
حضرت عائشہ ؓ نے بھی حج کے موقعہ پر نماز پوری پڑھی اور قصر نہیں کیا، حالانکہ آپ مسافر تھیں۔
اس لیے آپ کو نماز قصر کرنی چاہیے تھی۔
مگر آپ سفر میں پوری نماز پڑھنا بہتر جانتی تھیں اور قصر کورخصت سمجھتی تھیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1090   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1090  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قصر کا تعلق سفر سے ہے اور اتمام کا حضر سے۔
جب سفر شروع ہو گا تو نماز قصر کا آغاز ہو گا جبکہ حضر میں نماز کو پورا کرنا ہو گا۔
(2)
سفر کرنے والا جب تک اپنے شہر میں ہے اسے مسافر نہیں کہا جائے گا اور نہ اسے قصر ادا کرنے کی اجازت ہی ہے، جب اپنے شہر سے نکل جائے تو قصر کا آغاز کرے۔
(3)
اس حدیث کا قطعاً یہ مقصد نہیں کہ دوران سفر میں قصر کرنا واجب ہے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو حضرت عائشہ ؓ جو اس حدیث کو بیان کرتی خود دوران سفر میں پوری نماز کیوں ادا کرتیں، البتہ حضرت عائشہ ؓ کا یہ موقف تھا کہ نماز قصر اس مسافر کے لیے ہے جو مسلسل سفر کرتا رہے اور کسی جگہ اقامت نہ کرے۔
جہاں کچھ دنوں کے لیے اقامت کرے گا وہاں نماز پوری ادا کرے گا، پھر جب سفر کا آغاز ہو گا تو قصر نماز ادا کرے گا۔
حضرت عثمان ؓ کے متعلق بھی احادیث میں ہے کہ وہ جب مکہ آتے تو پوری نماز پڑھتے، یعنی ظہر، عصر اور عشاء کی چار چار رکعت پڑھتے، پھر جب منیٰ اور عرفات جاتے تو قصر کرتے، اور جب حج سے فارغ ہو کر منیٰ میں قیام کرتے تو بھی پوری نماز پڑھتے کرتے۔
(فتح الباري: 737/2)
واللہ أعلم۔
(4)
حضرت عثمان ؓ کی تاویل کے متعلق مختلف اقوال ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ آپ نے مکہ مکرمہ میں شادی کر لی تھی۔
٭ آپ امیر المومنین تھے اور آپ کے لیے سارا علاقہ اقامت کے حکم میں تھا۔
٭ آپ نے مکہ میں رہائش رکھنے کا عزم کر لیا تھا۔
٭ آپ نے منیٰ میں زمین خرید لی تھی۔
یہ تاویلیں اس لیے بے بنیاد ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ کے متعلق ان میں سے کوئی بھی منقول نہیں، ویسے بھی ان تاویلات پر کوئی دلیل نہیں۔
رسول اللہ ﷺ اپنی بیویوں کے ہمراہ سفر کرتے تھے اور نماز قصر پڑھتے تھے، اس کے مقابلے میں حضرت عثمان سے متعلق پہلی تاویل کی کوئی حیثیت نہیں ہے، پھر امیر المومنین کے حوالے سے جو تاویل ذکر کی گئی ہے وہ بھی بے بنیاد ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی حیثیت تو ان سے بڑھ کر تھی، لیکن آپ تو دوران سفر میں قصر کرتے تھے۔
تیسری تاویل اس لیے درست نہیں کہ مہاجرین کے لیے مکہ مکرمہ میں اقامت منع ہے، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔
ممکن ہے کہ حضرت عروہ نے یہ تشبیہ صرف نماز کو پورا ادا کرنے میں دی ہو، اس لے نہیں کہ ان حضرات کی تاویلات میں یکسانیت تھی۔
حضرت عائشہ ؓ کے متعلق ایک تاویل حسب ذیل ہے جسے ابن جریر نے اپنی تفسیر جامع البیان (تفسیر طبري)
میں بیان کیا ہے۔
حضرت عائشہ ؓ دوران سفر پوری نماز پڑھتی تھیں۔
جب انہیں اس کے متعلق کہا جاتا تو جواب میں فرماتیں:
رسول اللہ ﷺ کو دشمنان اسلام کی طرف سے ہر وقت اندیشۂ جنگ رہتا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نماز قصر کی اجازت دی تھی، کیا تمہیں بھی کوئی دشمن کی طرف سے خطرہ لاحق ہے؟ (تفسیر الطبري: 245/4)
گویا حضرت عائشہ ؓ کے نزدیک دوران سفر قصر کرنا اندیشۂ جنگ کے ساتھ مشروط تھا۔
واللہ أعلم۔
بیہقی کی روایت میں حضرت عائشہ ؓ کا دوران سفر نماز پوری پڑھنا بایں الفاظ بیان ہوا ہے، حضرت عروہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ دوران سفر چار رکعت پڑھتی تھیں۔
میں نے عرض کیا آپ دوگانہ کیوں نہیں پڑھتیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ دوران سفر نماز کو پورا ادا کرنا مجھ پر گراں نہیں گزرتا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک دوران سفر قصر کرنا ایک رخصت ہے۔
جس انسان پر اتمام گراں نہ ہو اس کے حق میں یہی افضل ہے کہ وہ اسے پورا کرے۔
(فتح الباري: 737/2)
حضرت عثمان ؓ کے متعلق ایک اور تاویل کتب حدیث میں مروی ہے، جسے امام بیہقی نے بیان کیا ہے:
حضرت عثمان ؓ نے منیٰ میں قیام کے دوران میں نماز پوری ادا کی پھر خطبہ دیا کہ بلاشبہ قصر کرنا رسول اللہ ﷺ اور صاحبین ؓ کی سنت ہے لیکن اعراب (دیہاتی لوگ)
بکثرت ہیں، مجھے اندیشہ ہے کہ مبادا وہ دوگانہ نماز کو ہمیشہ کے لیے سمجھ لیں گے۔
اس کی تائید ابن جریج سے مروی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ ایک دیہاتی نے منیٰ میں برسرعام پکار کر کہا:
اے امیر المومنین! جب سے میں نے آپ کو دوگانہ پڑھتے دیکھا ہے میں اس وقت سے دوگانہ پڑھ رہا ہوں۔
ممکن ہے حضرت عثمان ؓ نے اس وجہ سے منیٰ میں اتمام (پوری نماز)
کو اختیار کیا ہو، بہرحال حضرت عثمان اور حضرت عائشہ ؓ کی تاویلات میں کوئی مماثلت نہیں۔
(فتح الباري: 737/2)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے بھی شرح تراجم بخاری میں حضرت عثمان ؓ کے قصر نہ کرنے کا یہی سبب بیان کیا ہے اور اسے مستحسن قرار دیا ہے، کیونکہ خیر کثیر کو شر قلیل کی وجہ سے ترک کرنا بھی خیر کثیر ہی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1090   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 455  
´نماز کیسے فرض ہوئی؟`
ولید کہتے ہیں کہ ابوعمرو اوزاعی نے مجھے خبر دی ہے کہ انہوں نے زہری سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں پوچھا کہ مدینہ کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے مکہ میں آپ کی نماز کیسی ہوتی تھی، تو انہوں نے کہا: مجھے عروہ نے خبر دی ہے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر دو دو رکعت نماز فرض کی، پھر حضر میں چار رکعت کر کے انہیں مکمل کر دی، اور سفر کی نماز سابق حکم ہی پر برقرار رکھی گئی۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 455]
455 ۔ اردو حاشیہ: اس حدیث میں سابقہ حدیث ہی کی کچھ تفصیل آئی ہے، یعنی سوال معراج سے قبل مکی زندگی کی نماز کے بارے میں تھا کیونکہ معراج، محقق قول کے مطابق ہجرت سے صرف چھ ماہ قبل ہوئی، قرب کی بنا پر معراج اور ہجرت مدینہ کو ایک ہی سمجھ لیا گیا۔ اب مطلب صاف ہے جیسا کہ حدیث: 454 کے فوائد میں بیان کیا گیا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 455   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1198  
´مسافر کی نماز کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سفر اور حضر دونوں میں دو دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر سفر کی نماز (حسب معمول) برقرار رکھی گئی اور حضر کی نماز میں اضافہ کر دیا گیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1198]
1198۔ اردو حاشیہ:
یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے، اس کا مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ مکہ مکرمہ میں نماز فرض ہونے سے پہلے لوگ اپنے طور پر دو دو رکعت نماز ادا کرتے ہوں۔ «والله اعلم»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1198   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3935  
3935. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ آغاز میں نماز صرف، دو رکعت فرض ہوئی تھی۔ پھر نبی ﷺ نے ہجرت کی تو فرض نماز چار رکعت کر دی گئی، البتہ نماز سفر کو سابقہ حالت میں باقی رکھا گیا۔ معمر سے روایت کرنے میں عبدالرزاق نے یزید بن زریع کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3935]
حدیث حاشیہ:
روایت میں ہجرت کا ذکر ہے باب سے یہی وجہ مناسبت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3935   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3935  
3935. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ آغاز میں نماز صرف، دو رکعت فرض ہوئی تھی۔ پھر نبی ﷺ نے ہجرت کی تو فرض نماز چار رکعت کر دی گئی، البتہ نماز سفر کو سابقہ حالت میں باقی رکھا گیا۔ معمر سے روایت کرنے میں عبدالرزاق نے یزید بن زریع کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3935]
حدیث حاشیہ:

مغرب کی نماز پہلے سے ہی تین رکعات تھی، جبکہ صبح کی نماز سفروحضر میں دورکعت فرض ہے، اور ظہرعصر اور عشاء کی چاررکعت کی گئیں۔
ان میں اضافہ رسول اللہ ﷺ کی مدینہ طیبہ میں تشریف آوری کے ایک ماہ بعد کیا گیا۔
اسی مناسبت سے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو یہاں بیان کیا ہے۔
(فتح الباري336/7)

جب دنیا کی آبادی زیادہ ہوگئی تو حضرت آدم ؑ کے وقت سے تاریخ کا شمار ہونے لگا۔
اب تواریخ کی تفصیل درج ہے:
۔
حضرت آدم ؑ سے طوفان نوح تک ایک تاریخ۔
۔
طوفان نوح سے حضرت ابراہیم ؑ کے آگ میں ڈالنے جانے تک دوسری تاریخ۔
۔
اس کے بعد حضرت یوسف ؑ تک تیسری۔
۔
وہاں سےحضرت موسیٰ ؑ کے مصر سے روانہ ہونے تک چوتھی۔
۔
وہاں سے حضرت داؤد ؑ تک پانچویں۔
۔
پھر حضرت سلیمان ؑتک چھٹی۔
۔
حضرت سلیمان ؑ سے حضرت عیسیٰ ؑ تک ساتویں تاریخ ہے۔
اس کے بعد مسلمانوں کی تاریخ کا آغاذ یکم محرم سے ہوا۔
(عمدة القاري: 654/11)
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3935