Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْبُيُوعِ
لین دین کے مسائل
21. باب الأَرْضِ تُمْنَحُ:
باب: زمین ہبہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3961
وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ، فَإِنَّهُ أَنْ يَمْنَحَهَا أَخَاهُ خَيْرٌ ".
سفیان نے ہمیں عمرو اور ابن طاوس سے حدیث بیان کی اور انہوں نے طاوس سے روایت کی کہ وہ (نقدی کے عوض) بٹائی پر زمین دیتے تھے۔ عمرو نے کہا: میں نے ان سے کہا: ابو عبدالرحمٰن! اگر آپ مخابرہ چھوڑ دیں (تو بہتر ہے) کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مخابرہ سے منع فرمایا ہے۔ انہوں نے کہا: عمرو! مجھے اس مسئلے کو ان سب کی نسبت زیادہ جاننے والے، یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بتایا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں فرمایا، آپ نے تو صرف فرمایا تھا: "تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو (زمین) عاریتا دے یہ اس کے لیے اس کی نسبت بہتر ہے کہ اس پر متعین پیداوار وصول کرے۔" (بلا عوض دینے سے اسے غیر متعین، وسیع منفعت حاصل ہو گی
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس زمین ہے، تو اس کا اپنے بھائی کو پیداوار حاصل کرنے کے لیے دینا بہتر ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 3961 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3961  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے زمین مالک ہی کی رہے گی،
دوسرے کو وہ صرف خیرخواہی کرتے ہوئے پیداوار حاصل کرنے کا موقع ہو گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3961   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3904  
´زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ طاؤس اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ آدمی اپنی زمین سونے، چاندی کے بدلے کرائے پر اٹھائے۔ البتہ (پیداوار کی) تہائی یا چوتھائی کے بدلے بٹائی پر دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ تو ان سے مجاہد نے کہا: رافع بن خدیج کے لڑکے (اسید) کے پاس جاؤ اور ان سے ان کی حدیث سنو، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3904]
اردو حاشہ:
(1) حضرت طاوس مقررہ رقم کے ٹھیکے کو شاید‘ اس کے لیے ناپسند فرماتے ہوں گے کہ اس میں مزارع کے نقصان کا احتمال ہے۔ مالک زمین نے تو مقررہ وصول کرلی۔ زمین میں اتنی فصل ہو یا نہ ہو۔ البتہ بٹائی میں ایک فریق کے نقصان کا خطرہ نہیں۔ نقصان ہوگا تو دونوں کا‘ نفع ہوگا تو دونوں کا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ مزارع کے لیے بٹائی ٹھیکے سے بہتر ہے‘ البتہ ٹھیکہ بھی مجبوری کی بنا پر جائز ہے۔ ٹھیکہ دراصل زمین کا کرایہ ہے۔ جب دوسری چیزوں کا کرایہ جائز ہے تو زمین کا کرایہ بھی جائز ہے‘ نیز بٹائی میں تنازع کا امکان ہے۔ ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی بھی ہوسکتی ہے‘ جبکہ ٹھیکہ کی صورت میں تنازع اور بدگمانی کا خطرہ نہیں رہتا۔
(2) مقررہ پیداوار یعنی نصف یا تہائی یا چوتھائی وغیرہ‘ نہ کہ وزن کے لحاظ سے معین کیونکہ یہ تو قطعاً جائز نہیں۔
(3) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے خیال کے مطابق یہ آپ نے بطور ہمدردی نصیحت فرمائی ہے نہ کہ شرعی قانون بیان فرمایا ہے۔ اور یہ صحیح بات ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3904   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2462  
´تہائی یا چوتھائی پیداوار پر بٹائی کی رخصت کا بیان۔`
عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے طاؤس سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! کاش آپ اس بٹائی کو چھوڑ دیتے، اس لیے کہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، تو وہ بولے: عمرو! میں ان کی مدد کرتا ہوں، اور ان کو (زمین بٹائی پر) دیتا ہوں، اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے ہماری موجودگی میں لوگوں سے ایسا معاملہ کیا ہے، اور ان کے سب سے بڑے عالم یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں کیا، بلکہ یوں فرمایا: اگر تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو یوں ہی بغیر کرایہ کے دی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2462]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
عالم سے مسئلہ پوچھنے میں احترام پوری طرح ملحوظ رکھنا چاہیے۔

(2)
عالم کو چاہیے کہ مسئلہ پوچھنے والے کو وضاحت سے مسئلہ سمجھا کر مطمئن کرے۔
اپنے موقف کی تائید میں اپنے سے بڑے عالم کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جس طرح تابعی حضرت طاوس رحمت اللہ علیہ نے دو صحابیوں حضرت معاذ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا حوالہ دیا اس سے عام سائل کو زیادہ اطمینان ہو جاتا ہے۔

(3)
مقرر معاوضہ سے مراد متعین رقم کا معاہدہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2462   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2464  
´تہائی یا چوتھائی پیداوار پر بٹائی کی رخصت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو صرف یہ فرمایا تھا: کوئی اپنے بھائی کو اپنی زمین یوں ہی مفت کھیتی کے لیے دیدے، تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اس سے کوئی معین محصول لے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2464]
اردو حاشہ:
فائدہ:
زمین کو بٹائی یا حصے پردینا حرام یاناجائز نہیں لیکن اگر بلا عوض دے دے توبہتر ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2464   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3957  
امام مجاہد نے، امام طاؤس سے کہا، رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے کے ہاں میرے ساتھ چلو، اس سے اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت سنو! تو طاؤس نے اسے جھڑکا، کہا، اللہ کی قسم! اگر میں یہ جان لوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بٹائی پر زمین دینے سے منع فرمایا ہے، تو میں یہ کام نہ کروں، لیکن مجھے اس شخصیت (ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ) نے جو ان سب سے زیادہ اس مسئلہ سے آگاہ ہیں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3957]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
فاسمع منه الحديث میں فاسمع کو امر کا صیغہ بنایا جائے،
کیونکہ امام طاؤس بٹائی پر زمین دیتے تھے،
اس لیے امام مجاہد نے انہیں روکنے کے لیے یہ حدیث سننے کے لیے کہا اور انہوں نے جواباً ان کو سرزنش کی،
کہ مجھے معلوم ہے،
مزارعت کی کون سی قسم ممنوع ہے،
جس صورت میں،
میں بٹائی پر زمین دیتا ہوں،
وہ ممنوع نہیں ہے،
کیونکہ معین مقدار میں پیداوار نہیں لیتا ہوں جو کہ ممنوع صورت ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3957   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3958  
امام طاؤس مخابرہ پر زمین دیتے تھے، تو انہیں عمرو بن دینار نے کہا، اے ابو عبدالرحمٰن! اے کاش! آپ مخابرہ کو ترک کر دیں، کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مخابرہ سے منع فرمایا ہے، تو انہوں نے جواب دیا، اے عمرو! مجھے اس مسئلہ کو سب سے بہتر طور پر جاننے والے یعنی ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے بتایا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں فرمایا، آپﷺ نے تو بس یہ فرمایا تھا، تم میں سے کوئی پیداوار اٹھانے کے لیے اپنے بھائی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3958]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ ہے کہ آپﷺ نے محض خیرخواہی اور ہمدردی کے جذبات پیدا کرنے کے لیے یہ بات فرمائی ہے کہ معین آمدنی لینے سے بہتر ہے کہ بھائی کو پیداوار لگانے کا موقع دیا جائے اور یہ بھی اس صورت میں ہے کہ جب انسان کے پاس فالتو زمین ہو،
جسے وہ خود کاشت نہ کرتا ہو،
یا کر نہ سکتا ہو،
اپنی ضرورت کی زمین کے بارے میں نہیں ہے،
جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3958   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2330  
2330. حضرت عمرو بن دینار سے روایت ہے انھوں نے حضرت طاوس سے کہا: بہتر ہے کہ تم بٹائی پر زمین دیناچھوڑ دو کیونکہ لوگوں کے بقول نبی کریم ﷺ نے بٹائی کامعاملہ کرنے سےمنع فرمایا ہے۔ حضرت طاوس نے جواب دیا: اے عمرو!میں لوگوں کو زمین دے کر انھیں فائدہ پہنچاتا ہوں۔ اور لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والے، یعنی حضرت ابن عباس ؓ نے مجھے خبر دی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس (مزارعت) سے نہیں روکا تھا بلکہ یہ فرمایا تھا: تم میں سے کوئی شخص زمین اپنے بھائی کو یوں ہی مفت دے دے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اس کا متعین محصول وصول کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2330]
حدیث حاشیہ:
امام طحاوی ؒنے زید بن ثابت ؓ سے نکالا۔
انہوں ے کہا، اللہ رافع بن خدیج کو بخشے، میں ان سے زیادہ اس حدیث کو جانتا ہوں۔
ہوا یہ تھا کہ دو انصاری آدمی آنحضرت ﷺ کے پاس لڑتے آئے۔
آپ ﷺ نے فرمایا اگر تمہارا یہ حال ہے تو کھیتوں کو کرایہ پر مت دیا کرو۔
رافع نے یہ لفظ سن لیا کہ کھیتوں کو کرایہ پر مت دیا کرو۔
حالانکہ آنحضرت ﷺ نے کرایہ پر دینے کو منع نہیں فرمایا۔
بلکہ آپ نے یہ برا سمجھا کہ اس کے سبب سے لوگوں میں فساد اور جھگڑا پیدا ہو۔
وہاں یہ مفہوم بھی درست ہے کہ اگر کسی کے پاس فالتو زمین بے کار پڑی ہوئی ہے تو بہتر ہے کہ وہ اپنے کسی بھائی کو بطور بخشش دے دے کہ وہ اس زمین سے فائدہ حاصل کرسکے۔
ایسے قانونی حیثیت میں تو بہرحال وہ اس کا مالک ہے۔
اور بٹائی یا کرایہ پر بھی دے سکتا ہے۔
لفظ مخابرہ بٹائی پر کسی کے کھیت کو جوتنے اور بونے کو کہتے ہیں۔
جب کہ بیج بھی کام کرنے والے ہی کا ہو۔
عام اصطلاح میں اسے بٹائی کہا جاتا ہے۔
خبرہ حصہ کو بھی کہتے ہیں۔
اسی سے مخابرہ نکلا ہے۔
بعض نے کہا کہ یہ لفظ خیبر سے ماخود ہے۔
کیوں کہ آنحضرت ﷺ نے خیبر والوں سے یہی معاملہ کیا تھا کہ آدھی پیداوار وہ لے لیں آدھی آپ کو دیں۔
بعض نے کہا کہ یہ لفظ خبار سے نکلا ہے جس کے معنی نرم زمین کے ہیں۔
کہا گیا ہے کہ فدفعنا في خبار من الأرض یعنی ہم نرم زمین میں پھینک دیئے گئے۔
نووی ؒنے کہا کہ مخابرہ اور مزارعہ میں یہ فرق ہے کہ مخابرہ میں تخم عامل کا ہوتا ہے نہ کہ مالک زمین کا۔
اور مزارعہ میں تخم مالک زمین کا ہوتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2330   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2634  
2634. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، کہ نبی ﷺ ایک کھیت کے پاس سے گزرے جس میں کھیتی لہلہا رہی تھی۔ آپ نے فرمایا: یہ کس کی زمین ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: یہ کھیت فلاں آدمی نے کرائے پر لے رکھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر اس کا مالک منیحہ کے طور پر بخش دیتا تو اس پر ایک مقررہ اجرت وصول کرنے سے بہتر تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2634]
حدیث حاشیہ:
مطلب آنحضرت ﷺ کا یہ تھا کہ اگر زمین بے کار پڑی ہو تو اپنے مسلمان بھائی کو مفت زراعت کے لیے دے دے۔
اس کا کرایہ لینے سے یہ امر افضل ہے اور کرایہ لینے سے آپ نے منع نہیں فرمایا۔
دوسری روایت میں عمرو نے طاؤس سے کہا، کاش! تم بٹائی کرنا چھوڑدو، کیوں کہ لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اس سے منع کیا ہے۔
انہوں نے کہاعمرو! میں تو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہوں اور صحابہ میں جو سب سے زیادہ علم رکھتے تھے یعنی ابن عباس ؓ انہوں نے مجھ سے بیان کیا، آخر تک یہ نہ بھولنا چاہئے کہ عہد نبوی نہ صرف عرب بلکہ ساری دنیا میں انسانی، تمدنی، معاشرتی ترقی کا ابتدائی دور تھا۔
اس دور میں غیر آباد زمینوں کو آباد کرنے کی سخت ضرورت تھی۔
ان ہی مقاصد کے پیش نظر پیغمبر اسلام ﷺ نے زمین کو آباد کرنے کے سلسلہ میں ہر ممکن آسانی و سہولت کو مدنظر رکھا اور اس کو زیادہ عوامی بنانے کی رغبت دلائی، مگر بعد کے زمانوںمیں جاگیرداری نظام نے زمیندار اور کاشت کار دو طبقے پیدا کردئیے جن کے نتائج بد کی سنگین سزائیں آج تک یہ دونوں گروہ باہمی کش مکش کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔
کاش اسلامی نظام دنیا میں برپا ہو، جس کی برکت سے نوع انسانی کو ان مصائب سے نجات مل سکے۔
آمین
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2634   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2330  
2330. حضرت عمرو بن دینار سے روایت ہے انھوں نے حضرت طاوس سے کہا: بہتر ہے کہ تم بٹائی پر زمین دیناچھوڑ دو کیونکہ لوگوں کے بقول نبی کریم ﷺ نے بٹائی کامعاملہ کرنے سےمنع فرمایا ہے۔ حضرت طاوس نے جواب دیا: اے عمرو!میں لوگوں کو زمین دے کر انھیں فائدہ پہنچاتا ہوں۔ اور لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والے، یعنی حضرت ابن عباس ؓ نے مجھے خبر دی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس (مزارعت) سے نہیں روکا تھا بلکہ یہ فرمایا تھا: تم میں سے کوئی شخص زمین اپنے بھائی کو یوں ہی مفت دے دے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اس کا متعین محصول وصول کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2330]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر کوئی عنوان قائم نہیں کیا کیونکہ یہ عنوانِ سابق کا تتمہ ہے۔
مزارعت کی دو صورتیں ہیں:
ایک یہ ہے کہ پیداوار کے طے شدہ حصے پر کسی کو زمین دی جائے۔
قبل ازیں یہ صورت بیان کی گئی تھی۔
دوسری صورت یہ ہے کہ زمین کے عوض طے شدہ اجرت لی جائے۔
وہ اس حدیث میں بیان ہوئی ہے، چنانچہ کتب حدیث میں وضاحت ہے کہ امام طاؤس زمین سونے یا چاندی کے عوض اجرت پر دینے کو ناپسند کرتے تھے لیکن تہائی یا چوتھائی پیداوار کے عوض دینے میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے تھے۔
امام مجاہد نے ان سے کہا کہ رافع بن خدیج کے بیٹے کے پاس جاؤ ان سے رافع بن خدیج کی بیان کردہ حدیث سنو۔
انہوں نے کہا:
اگر مجھے علم ہو جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے تو میں اسے کیوں عمل میں لاؤں لیکن مجھے حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے۔
آگے مذکورہ حدیث کا حوالہ ہے۔
(2)
حضرت ابن عباس ؓ کی بیان کردہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس فالتو زمین ہے تو بہتر ہے کہ وہ اپنے بھائی کو یوں ہی کاشت کے لیے مفت دے دے، یعنی یہ فضیلت اور احسان کا طریقہ ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ نے معاملے کی حقیقت کو خوب سمجھا جس سے اس مسئلے کی وضاحت ہو گئی۔
(فتح الباري: 19/5)
ایک روایت میں نہی کی علت ایک دوسرے انداز سے بیان ہوئی ہے، حضرت زید بن ثابت ؓ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ رافع بن خدیج کو معاف فرمائے! میں ان سے زیادہ اس حدیث کو جاننے والا ہوں۔
واقعہ یہ ہے کہ دو انصاری رسول اللہ ﷺ کے پاس لڑتے جھگڑتے ہوئے آئے تو آپ نے فرمایا:
اگر تمہارا یہی حال ہے تو زمینوں کو کرائے پر مت دیا کرو۔
حضرت رافع ؓ نے یہ لفظ سن لیا کہ کھیتوں کو کرائے پر مت دیا کرو، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کرائے پر دینے سے منع نہیں کیا بلکہ آپ نے اس بات کو برا خیال کیا کہ اس کی وجہ سے لوگوں میں فساد اور شر پیدا ہو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اخلاقی اعتبار سے آپ نے اسے اچھا خیال نہیں کیا لیکن اس کی قانونی حیثیت وہی ہے کہ زمین کا مالک بااختیار ہے اسے خود کاشت کرے یا بٹائی اور کرائے پر کسی کو دے یا مفت میں کسی کو دے دے۔
(عمدة القاري: 25/9) (3)
اگر آدمی اپنے ہاتھ سے کھیتی باڑی نہ کر سکے تو اسے اجرت یا بٹائی پر دینے کی قانونی اجازت ہے لیکن اس قانونی اجازت کے باوجود اخلاقی اعتبار سے یہ بات زیادہ پسندیدہ ہے کہ اگر وہ کھیتی باڑی نہیں کر پاتا اور اس کے پاس دوسرا ذریعۂ معاش بھی ہے اور اس کا کوئی دوسرا بھائی بالکل بے سہارا اور بے وسیلہ ہے تو وہ اپنی زمین بغیر کسی معاوضے کے دوسرے بھائی کو دے دے تاکہ وہ اپنی ضروریات اس سے پوری کر سکے، چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ کی اس تفسیر سے ارشاد نبوی کی اخلاقی حیثیت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2330   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2342  
2342. حضرت عمرو بن دینار سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حضرت طاوس سے (مزارعت کا) ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا: آدمی دوسرے کو بٹائی پر زمین دے سکتا ہے کیونکہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے منع نہیں فرمایا، البتہ یہ ضرور کہاہے: اگر تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو گوشت کے لیے مفت زمین دے دے تو یہ متعین چیزلینے سے بہت بہتر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2342]
حدیث حاشیہ:
مزارعت کی ممنوعہ صورت یہ ہے کہ متعین رقبے کی پیداوار یا متعین مقدار غلے کے عوض زمین کسی کو دی جائے، اس میں نقصان اور دھوکا ہے۔
اسلامی قانون کے اعتبار سے ایسا کرنا جائز نہیں۔
حضرت ابن عباس ؓ نے اس کی مزید وضاحت فرمائی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جو یہ فرمایا:
کھیتی خود کاشت کرے یا بطور احسان اپنے بھائی کو دے دے۔
تو اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ نرمی اور احسان کا معاملہ کریں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ بٹائی پر زمین دینا حرام ہے، البتہ ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔
بہرحال قانون اور ہے اور اخلاق و مروت چیزے دیگر است۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2342   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2634  
2634. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، کہ نبی ﷺ ایک کھیت کے پاس سے گزرے جس میں کھیتی لہلہا رہی تھی۔ آپ نے فرمایا: یہ کس کی زمین ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: یہ کھیت فلاں آدمی نے کرائے پر لے رکھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر اس کا مالک منیحہ کے طور پر بخش دیتا تو اس پر ایک مقررہ اجرت وصول کرنے سے بہتر تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2634]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کی زمین بے کار اور فالتو پڑی ہے تو اپنے مسلمان بھائی کو مفت دے دے تاکہ وہ اسے آباد کرے۔
واضح رہے کہ اس وقت تمدنی، معاشرتی ترقی کا ابتدائی دور تھا، اس دور میں غیر آباد زمینوں کو آباد کرنے کی سخت ضرورت تھی۔
انہی مقاصد کے پیش نظر آپ نے رغبت دلائی۔
آباد زمینوں کے متعلق تو انصار اور مہاجرین کے درمیان بٹائی کا معاہدہ ہو چکا تھا، بے آباد اور فالتو زمین کے متعلق آپ نے فرمایا:
اسے فضیلت کے طور پر اگر دے دیا جائے تو بہتر ہے۔
اس سے بٹائی یا ٹھیکے پر دینے کی نفی نہیں ہوتی۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2634