Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ
کتاب: نماز میں قصر کرنے کا بیان
3. بَابُ كَمْ أَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّتِهِ:
باب: حج کے موقعہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے دن قیام کیا تھا؟
حدیث نمبر: 1085
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ الْبَرَّاءِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ لِصُبْحِ رَابِعَةٍ يُلَبُّونَ بِالْحَجِّ فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً إِلَّا مَنْ مَعَهُ الْهَدْيُ"، تَابَعَهُ عَطَاءٌ، عَنْ جَابِرٍ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ایوب نے بیان کیا ان سے ابوالعالیہ براء نے ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو ساتھ لے کر تلبیہ کہتے ہوئے ذی الحجہ کی چوتھی تاریخ کو (مکہ میں) تشریف لائے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جن کے پاس ہدی نہیں ہے وہ بجائے حج کے عمرہ کی نیت کر لیں اور عمرہ سے فارغ ہو کر حلال ہو جائیں پھر حج کا احرام باندھیں۔ اس حدیث کی متابعت عطاء نے جابر سے کی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1085 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1085  
حدیث حاشیہ:
کیونکہ آپ ﷺ چوتھی ذی الحجہ کو مکہ معظمہ پہنچے تھے اور چودھویں کو مراجعت فرمائے مدینہ ہوئے تو مدت اقامت کل دس دن ہوئی اور مکہ میں صرف چار دن رہنا ہوا باقی ایام منیٰ وغیرہ میں صرف ہوئے اسی لیے امام شافعی ؒ نے کہا کہ جب مسافر کسی مقام میں چار دن سے زیادہ رہنے کی نیت کرے تو پوری نماز پڑھے چار دن تک قصر کرتا رہے اور امام احمد نے کہا اکیس نمازوں تک (مولانا وحید الزماں مرحوم)
پچھلی روایت جس میں آپ کا قیام اکیس دن مذکور ہے اس میں یہ قیام فتح مکہ سے متعلق ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے مغازی میں دوسرے طریق سے اقامت کا مقام مکہ بیان فرمایا ہے جہاں آپ ﷺ نے انیس دن قیام فرمایا اورآپ ﷺ نماز قصرکرتے رہے معلوم ہوا کہ قصر کے لیے یہ آخری حد ہے اگر اس سے زیادہ ٹھہرنے کا فیصلہ ہو تو نماز پوری پڑھنی ہوگی اور اگر فیصلہ نہ کر سکے اور تردد میں آج کل آج کل کر تا رہ جائے تو وہ جب تک اس حالت میں ہے قصر کر سکتا ہے، جیسا کہ زاد المعاد میں علامہ ابن قیم ؒ نے بیان فرمایا:
ومنھا أنه صلی اللہ علیه وسلم أقام بتبوك عشرین یوما یقصر الصلوة ولم یقل للأمة لا یقصر الرجل الصلوة إذا قام أکثر من ذلك ولکن أنفق إقامته ھذہ المدة وھذہ الإقامة في حالة السفر لا تخرج عن حکم السفر سواء طالت أو قصرت إذا کان غیر متوطن ولا عازم علی الإقامة بذلك الموضع۔
یعنی رسول اللہ ﷺ تبوک میں بیس دن تک مقیم رہے اور نماز قصر فرماتے رہے اور آپ نے امت کے لیے نہیں فرمایا کہ امت میں سے اگر کسی کا اس سے بھی زیادہ کہیں (حالت سفر میں)
اقامت کا موقعہ آجائے تو وہ قصر نہ کرے۔
ایسا آپ نے کہیں نہیں فرمایا پس جب کوئی شخص سفر میں کسی جگہ بہ حیثیت وطن کے نہ اقامت کرے اور نہ وہاں اقامت کا عزم ہو مگر آج کل میں تردد رہے تو اس کی مدت اقامت کم ہو یا زیادہ وہ بہر حال سفر کے حکم میں ہے اور نماز قصر کر سکتا ہے۔
حافظ نے کہا کہ بعض لوگوں نے احمد سے امام احمد بن حنبل کو سمجھا یہ بالکل غلط ہے، کیونکہ امام احمد نے عبد اللہ بن مبارک سے نہیں سنا (وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1085   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1085  
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی مکہ مکرمہ آمد کا ذکر ہے، منیٰ کی طرف روانگی کا بیان نہیں کیونکہ اس کے متعلق وضاحت کی ضرورت نہیں۔
اس سے مراد اس مدت اقامت کو بیان کرنا ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر پورے جزم اور وثوق سے اختیار کیا اور وہ ہے آمد اور روانگی کا دن نکال کر تین دن اور تین راتیں، اس طرح کہ آپ چار ذوالحجہ کو مکہ آئے اور آٹھ ذوالحجہ کو منیٰ روانہ ہو گئے۔
اور کل بیس نمازیں بحالت اقامت مسجد حرام میں ادا کیں۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد مکہ میں آمد اور مدینہ منورہ روانگی کا درمیانی عرصہ بیان کرنا ہے، جیسا کہ حضرت انس ؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ آپ نے دس دن قیام فرمایا، یعنی چار ذوالحجہ کو آمد اور چودہ ذوالحجہ کو مدینہ روانگی ہوئی۔
(فتح الباري: 730/2)
امام بخاری ؒ نے حضرت عطاء کی متابعت کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1568)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1085