حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْأَسْوَدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" قَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّجْمَ بِمَكَّةَ فَسَجَدَ فِيهَا وَسَجَدَ مَنْ مَعَهُ غَيْرَ شَيْخٍ أَخَذَ كَفًّا مِنْ حَصًى أَوْ تُرَابٍ، فَرَفَعَهُ إِلَى جَبْهَتِهِ، وَقَالَ: يَكْفِينِي هَذَا، فَرَأَيْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ قُتِلَ كَافِرًا".
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1067
حدیث حاشیہ:
شاہ ولی اللہ صاحب ؒ نے لکھا ہے کہ جب حضور اکرم ﷺ نے سورۃ نجم کی تلاوت کی تو مشرکین اس درجہ مقہور ومغلوب ہو گئے کہ آپ نے آیت سجدہ پر سجدہ کیا تو مسلمانوں کے ساتھ وہ بھی سجدہ میں چلے گئے۔
اس باب میں یہ تاویل سب سے زیادہ مناسب اور واضح ہے حضرت موسی ؑ کے ساتھ بھی اسی طرح کا واقعہ پیش آیا تھا۔
قرآن مجید میں ہے کہ جب فرعون کے بلائے ہوئے جادوگروں کے مقابلہ میں آپ کاعصا سانپ ہوگیا اور ان کے شعبدوں کی حقیقت کھل گئی تو سارے جادوگر سجدہ میں پڑ گئے۔
یہ بھی حضرت موسی ؑ کے معجزہ سے مدہوش ومغلوب ہو گئے تھے۔
اس وقت انہیں اپنے اوپر قابونہ رہا تھا۔
اور سب بیک زبان بول اٹھے تھے کہ امنا برب موسی وھارون ؑ یہی کیفیت مشرکین مکہ کی ہوگئی تھی۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ کی ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ آیت سجدہ پر پہنچے تو آپ نے سجدہ کیا اور ہم نے سجدہ کیا۔
دارقطنی کی روایت میں ہے کہ جن وانس تک نے سجدہ کیا۔
جس بوڑھے نے سجدہ نہیں کیا تھا وہ امیہ بن خلف تھا۔
علامہ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
أما المصنف في روایة إسرائیل أن النجم أول سورة أنزلت فیھا سجدة وھذا ھوالسر في بداءة المصنف في ھذہ الأبواب بھذا الحدیث۔
یعنی مصنف نے روایت اسرائیل میں بتایا کہ سورۃ نجم پہلی سورت ہے جس میں سجدہ نازل ہوا یہاں بھی ان ابواب کو اسی حدیث سے شروع کرنے میں یہی بھید ہے، یوں تو سجدہ سورۃ اقرا میں اس سے پہلے بھی نازل ہو چکا تھا، آنحضرت ﷺ نے جس کا کھل کر اعلان فرمایا وہ یہی سورۃہ نجم ہے اور اس میں یہ سجدہ ہے:
إن المراد أول سورة فیھا سجدة تلاوتھا جھرا علی المشرکین۔
(فتح الباري)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1067
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1067
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ سورۂ نجم پہلی سورت ہے جس میں سجدۂ تلاوت کا نزول ہوا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4863)
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ سجدہ ہائے تلاوت کے سلسلے میں اس حدیث کو پہلے لائے ہیں۔
لیکن اعتراض ہو سکتا ہے کہ سورۂ علق اس سے قبل نازل ہوئی تھی جس میں سجدۂ تلاوت ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیات پہلے نازل ہوئی تھیں جن میں سجدۂ تلاوت نہیں ہے اور سجدے پر مشتمل آیات کا نزول سورۂ نجم کے بعد ہوا ہے، یعنی سورۂ نجم پہلی سورت ہے جس میں سجدۂ تلاوت بھی ہے اور اسے رسول اللہ ﷺ نے علانیہ طور پر مشرکین مکہ کے سامنے پڑھ کر سنایا ہے۔
(فتح الباري: 712/2) (2)
اس میں اس کے طریقے کی طرف بھی اشارہ ہے کہ سجدہ زمین پر ہونا چاہیے، مٹی یا کنکریاں ہاتھ میں لے کر پیشانی پر رکھ لینا مشرکین کا طریقہ ہے۔
مسلمان کی شان کے خلاف ہے۔
(3)
ایک روایت میں اس عمر رسیدہ شخص کی صراحت ہے جس نے سجدۂ تلاوت نہیں کیا تھا۔
وہ امیہ بن خلف تھا جس نے مٹی ہاتھ میں لے کر اس پر اپنا ماتھا ٹیک دیا تھا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4863)
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ سورۂ نجم کی تلاوت کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مسلمانوں کے ساتھ مشرکین نے بھی سجدہ کیا تھا۔
اصل واقعہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اہل مکہ کو اسلام کی دعوت دی تو تمام لوگوں نے اس دعوت کو قبول کر لیا تھا۔
اس وقت اتنے لوگ آپ کے ساتھ تھے کہ بھیڑ کی وجہ سے کچھ لوگوں کو سجدۂ تلاوت کرنے کے لیے جگہ نہ ملتی تھی، لیکن جب قریش کے سردار ولید بن مغیرہ اور ابوجہل وغیرہ طائف سے مکہ آئے تو ان کے گمراہ کرنے سے مشرکین اپنے آبائی دین کی طرف واپس لوٹ گئے۔
یہ لوگ اپنے سرداروں کو خوش کرنے کے لیے مرتد ہوئے تھے۔
دین اسلام سے بیزار ہو کر کوئی آدمی مرتد نہیں ہوا جیسا کہ حضرت ابو سفیان ؓ نے حدیث ہرقل میں اس کا اعتراف کیا تھا۔
(صحیح البخاري، بدءالوحي، حدیث: 7)
حافظ ابن حجر ؒ نے مشرکین کے سجدہ کرنے کی یہی وجہ بیان کی ہے۔
(فتح الباري: 712/2)
لیکن انہیں نقل واقعہ کے وقت ان کی موجودہ حالت کی وجہ سے مشرکین کہا گیا کیونکہ اعتبار انجام کا ہوتا ہے۔
واللہ أعلم۔
چونکہ اس روایت میں معبودان باطلہ لات، منات اور عزیٰ کا ذکر ہے، اس لیے بعض حضرات نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب سورۂ نجم کی تلاوت فرمائی تو مشرکین خوشی میں آ کر اس قدر حواس باختہ ہوئے کہ مسلمانوں کے ساتھ وہ بھی سجدے میں گر گئے۔
واضح رہے کہ اس سلسلے میں جو غرانیق کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے وہ سرے سے بے بنیاد اور غلط ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں:
حق یہ ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کا جلال و جبروت دیکھ کر اور قرآن کریم کے مواعظ عقلیہ سے متاثر ہو کر سجدہ کیا، ان کے ہاں کوئی اختیار ہی باقی نہیں رہا تھا اور یہ کوئی بعید از عقل بات نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1067
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3853
´ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مکہ میں مشرکین کے ہاتھوں جن مشکلات کا سامنا کیا ان کا بیان`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" قَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّجْمَ , فَسَجَدَ فَمَا بَقِيَ أَحَدٌ إِلَّا سَجَدَ إِلَّا رَجُلٌ رَأَيْتُهُ أَخَذَ كَفًّا مِنْ حَصًا فَرَفَعَهُ فَسَجَدَ عَلَيْهِ، وَقَالَ: هَذَا يَكْفِينِي فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ بَعْدُ قُتِلَ كَافِرًا بِاللَّهِ . . .»
”. . . عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النجم پڑھی اور سجدہ کیا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام لوگوں نے سجدہ کیا صرف ایک شخص کو میں نے دیکھا کہ اپنے ہاتھ میں اس نے کنکریاں اٹھا کر اس پر اپنا سر رکھ دیا اور کہنے لگا کہ میرے لیے بس اتنا ہی کافی ہے۔ میں نے پھر اسے دیکھا کہ کفر کی حالت میں وہ قتل کیا گیا۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ: 3853]
باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3853 کا باب: «بَابُ مَا لَقِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ بِمَكَّةَ:»
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت بظاہر مشکل دکھائی دیتی ہے، کیونکہ باب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم پر جو مشرکین کی طرف سے مشکلات ہوئیں اشارہ کیا جا رہا ہے اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بظاہر کسی بھی مشکلات کا کوئی ذکر نہیں ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
«كان حق هذا الحديث أن يذكر فى ”باب الهجرة الي الحبشة“ المذكور هو قليل فسيأتى فيها أن سجود المشركين المذكور فيه سبب رجوع من هاجر الهجرة الأولي إلى الحبشة لظنهم أن المشركين كلهم أسلموا .» [فتح الباري لابن حجر: 143/7]
”اس حدیث کا حق یہ تھا کہ اسے ہجرت کے باب میں ذکر کیا جائے، پس تحقیق اس کا بیان عنقریب آئے گا، اس میں کہ مشرکین کا اس میں سجدہ کرنا تھا (مسلمان) یہ سمجھے کہ یہ مشرک مسلمان ہو گئے ہیں اور جو مسلمان ان کی تکلیف دینے سے حبش کی طرف نکل چکے تھے وہ واپس لوٹ آئے، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مسلمان نہیں ہوئے ہیں تو دوبارہ وہ مسلمان حبش کی ہجرت کی طرف نکل گئے، پس یہاں پر مسلمانوں کو تکلیف جو ہوئی یہیں سے ترجمتہ الباب کی مناسبت بنتی ہے۔“
علامہ عینی رحمہ اللہ ترجمہ الباب اور حدیث میں مطابقت دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
«مطابقة للترجمة من حيث ان امتناع الرجال المذكور فيه عن السجدة مع المسلمين ومخالفة اياهم نوع أذي لهم فلا يخفي ذالك» [عمدة القاري للعيني: 458/16]
”باب سے مطابقت حدیث کے یوں ہے کہ اس شخص نے (امیہ بن خلف) نے سجدہ سے انکار کر دیا، پس یہ انکار کر دینا مسلمانوں کے لیے باعث تکلیف تھا اور یہ کسی سے بھی مخفی نہیں تھا۔“
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 47
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1406
´سورۃ النجم میں سجدہ ہے اس کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النجم پڑھی اور اس میں سجدہ کیا اور لوگوں میں سے کوئی بھی ایسا نہ رہا جس نے سجدہ نہ کیا ہو، البتہ ایک شخص نے تھوڑی سی ریت یا مٹی مٹھی میں لی اور اسے اپنے منہ (یعنی پیشانی) تک اٹھایا اور کہنے لگا: میرے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اس کے بعد اسے دیکھا کہ وہ حالت کفر میں قتل کیا گیا۔ [سنن ابي داود/كتاب سجود القرآن /حدیث: 1406]
1406. اردو حاشیہ:
➊ سورہ نجم میں سجدہ تلاوت ہے۔
➋ پڑھنے اور سننے والے سب ہی سجدہ کریں۔
➌ تکبر سے خیر کی توفیق چھین لی جاتی ہے۔ اور یہ شخص جس نے سجدہ نہیں کیا تھا۔ اُمیہ بن خلف تھا۔ جو کفار مکہ کے سرداروں میں سے تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1406
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1297
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سُورَةُ النَّجْمِ کی تلاوت کی اور اس میں سجدہ کیا اور آپﷺ کے ساتھ تمام حاضرین نے سجدہ کیا، صرف ایک بوڑھے نے کنکریوں یا مٹی کی ایک مٹھ بھر کر اپنی پیشانی سے لگائی اور کہا میرے لیے یہی کافی ہے، عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، میں نے اس کو (یعنی امیہ بن خلف) کفر کی حالت میں قتل ہوتے دیکھا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1297]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
1۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آغاز میں مشرکین مکہ بھی بعض دفعہ قرآن مجید کی تلاوت سن لیتے تھے۔
آپﷺ نے سُوْرَۃُ النَّجْمِ کی تلاوت کی جس میں لات ومنات اور عزی کا تذکرہ ہے تو وہ اس پر بہت شاداں وفرحاں ہوئے اور جب آپﷺ نے آخر میں سجدہ کیا تو امیہ کے سوا تمام موجود مشرکین نے بھی مسلمانوں کے ساتھ سجدہ کیا اور لوگوں میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ مشرکین مکہ مسلمان ہو گئے ہیں۔
2۔
جس وقت سُوْرَۃُ النَّجْمِ میں آپﷺ نے سجدہ کیا تو تمام حاضرین نے آپﷺ کے ساتھ سجدہ کیا اور یہ ظاہر بات ہے،
وہ تمام باوضو نہیں ہوں گے،
اس لیے سجدہ تلاوت کے لیے وضو کو لازم ٹھہرانا جب کہ یہ سننے والے کے ذمہ بھی ہے،
درست نہیں ہے۔
الا یہ کہ شرط لگائی جائے کہ قرآن مجید کی تلاوت اور سماع وضو کے بغیر نہیں ہو سکتا،
حالانکہ زبانی تلاوت بالاتفاق وضو کے بغیر جائز ہے،
اختلاف قرآن مجید کو ہاتھ لگا کر پڑھنے کی صورت میں ہے۔
3۔
سُوْرَۃُ النَّجْمِ سن کر مشرکین مکہ نے کیوں سجدہ کیا؟ تو بقول قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کے اس کا سبب یہ ہے،
یہ قرآن مجید کی پہلی صورت ہے جس میں سجدہ آتا ہے،
لیکن سوال یہ ہے اس کا مشرکین پر کیا اثر،
صحیح بات یہی ہے کہ وہ اس سورۃ میں اپنے معبودوں کا ذکر سن کر خوش ہوں گے،
مزید برآں اس وقت شیطان نے:
(تِلْكَ الْغَرَانِيْقُ الْعُـلٰى وَإِنَّ شَفَاعَتُهُنَّ لَتُرْتَجىٰ)
کے الفاظ بھی کہہ ڈالےیہ بلند مرتبہ دیویاں ہیں،
جن کی سفارش کی امید کی جاسکتی ہے۔
جیسا کہ علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے طبرانی سے روایت نقل کیا ہے۔
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے:
﴿أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّىٰ (19)
وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَىٰ﴾ کی تلاوت کی۔
تو:
(أَلْقَى الشَّيْطَانُ عِنْدَهَا كلَِمَاتٍ حِيْنَ ذَكَرَ الطَّوَاغِيْتَ)
شیطان نے اس وقت بتوں کا تذکرہ کرڈالا۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ان کلمات کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر جاری ہونے کا امکان نہیں ہے۔
نقل وعقل کی کسی رو سے بھی یہ جائز نہیں ہے۔
لیکن شیطان کا ان الفاظ کو کہہ ڈالنا،
اس میں ناممکن ہونے والی کوئی بات نہیں ہے۔
اس کی تائید کے لیے تفسیر طبری سورہ حج کی آیات:
(52 تا54)
دیکھیے۔
جنگ بدر میں قرآن کی تصریح کے مطابق اس نے مشرکین مکہ کوکہا تھا:
﴿لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ﴾ آج تم پر کوئی لوگ غالب نہیں آسکتے،
﴿وَإِنِّي جَارٌ لَّكُمْ﴾ میں تمہارا معاون مددگار ہوں،
اس طرح شیطان نے جنگ احد میں بخاری شریف کی روایت کے مطابق،
آپس میں ٹکڑا دیا تھا اور خود قرآن مجید میں موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تلاوت فرماتے:
﴿أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آَيَاتِهِ﴾ کہ شیطان اس کی تلاوت میں کچھ ڈالتا ہے،
اللہ تعالیٰ شیطان کے ڈالے ہوئے کو ختم کرڈالتا ہے،
اور اپنی آیات کو محکم کرتا ہے،
آگے فرمایا:
﴿لِّيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَةً لِّلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ﴾ تاکہ اللہ شیطان کے ڈالے ہوئے کو جن کے دلوں میں روگ ہے آزمائش وابتلا کا باعث بنائے۔
اگرشیطان کچھ ڈال نہیں سکتا تو پھر اللہ تعالیٰ دوریا ختم کس چیز کو کرتا ہے اور ا پنی آیات کو محکم کس چیز سے کرتا ہے؟ جن کے دلوں میں بیماری (کفر و نفاق)
ہے ان کے لیے امتحان کس چیز کا ہوتا ہے۔
لیکن ان آیات مبارکہ سے یہ چیز بھی ثابت ہو رہی ہے کہ شیطان کے بول سے صرف کافر ومنافق ہی متاثر ہو سکتے ہیں،
اس لیے یہ کہنا کہ اس سے توتمام شریعت سے اعتماد اٹھ جائے گا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ہم تک صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کی روایت سے جو احکام پہنچے ہیں وہ آپﷺ کا فرمان نہ ہوں بلکہ شیطان کا کہا ہوا ہو،
بے محل ہے،
کیونکہ یہ تو تب ممکن تھا اگر اللہ تعالیٰ اس سے آگاہ نہ فرماتا یا اہل ایمان اس سے متاثر ہو کر اس کو قبول کر لیتے۔
سورۃ حج کی آیات:
(52تا54)
اس وقت غور سے پڑھ لی جائیں تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے۔
ان آیات کی تفسیر کے لیے دیکھے۔
(فتح البیان:
ج: 4 ص 416۔
417)
۔
علامہ آلوسی نے شیخ ابومنصور ماتریدی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ شیطان نے اپنے زندیق اور بے دین چیلوں کے دلوں میں:
(تِلْكَ الْغَرَانِيْقُ الْعُلىٰ)
کا وسوسہ ڈالا،
تاکہ وہ ضعیف مسلمانوں کو دین کے بارے میں شک وشبہ میں مبتلا کریں۔
(روح المعانی:
ج1ص230)
امام ابوبکر جصاص حنفی کا قول دیکھئے (احکام القرآن امام جصاص:
ج3 ص321)
امام ابوبکر العربی مالکی کا قول دیکھیے۔
(احکام القرآن امام ابن العربی:
ج3 ص303) (تفسیر الطبری:
ج9 ص 178) (مکتبہ دارالکتاب العلمیہ بیروت)
ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ کلمات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری نہیں ہوئے۔
(أَنَّ الشَّيْطَانَ أَوْقَعَ فِي مَسَامِعَ الْمُشْرِكِيْنَ ذٰلِكَ مِنْ دُوْنِ أَنْ يَّتَكَلَّمَ بِهِ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)
میں نے جو معنی کیا ہےاسے علامہ جریرطبری۔
امام ابوبکر جصاص حنفی۔
امام ابوبکر ابن العربی مالکی۔
حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ابن حجر و حزم نے تسلیم کیا ہے لیکن اکثر ائمہ نے اس واقعہ کو تسلیم نہیں کیا،
اس پر کچھ اعتراضات کیے ہیں لیکن ہم تفصیلات میں نہیں جا سکتے۔
اس لیے ان کے جوابات نہیں لکھ سکتے،
وہ سب تب وارد ہیں اگر اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ یہ کلمات آپﷺ کی زبان سے جاری ہوئے اور ہم بتا چکے ہیں یہ صورت ناممکن ہے۔
(جدید دور کے کسی محدث یا مفسر نے اس واقعہ کو تسلیم نہیں کیا)
جن لوگوں نے تردید کی ہے اس واقعہ کی آپﷺ کی زبان پر جاری کرتے ہیں علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی بنیاد پر اس کی تردید پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1297
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3853
3853. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ سورہ نجم تلاوت فرمائی تو سجدہ کیا۔ اس وقت آپ کے ساتھ تمام لوگوں نے بھی سجدہ کیا۔ صرف ایک شخص کو میں نے دیکھا کہ اس نے اپنے ہاتھ میں کنکریاں لیں، ان پر اپنا سر رکھ کر کہنے لگا: میرے لیے بس اتنا ہی کافی ہے۔ آخرکار میں نے اسے دیکھا کہ اسے کفر کی حالت میں قتل کر دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3853]
حدیث حاشیہ:
یہ شخص امیہ بن خلف تھا۔
اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے مشکل ہے، بعض نے کہا جب امیہ بن خلف نے سجدہ تک نہ کیا تو مسلمانوں کو رنج گذرا گویا ان کو تکلیف دی یہی ترجمہ با ب ہے، بعض نے کہا مسلمانوں کو تکلیف یوں ہوئی کہ مشرکین کے بھی سجدے میں شریک ہونے سے وہ یہ سمجھے کہ یہ مشرک مسلمان ہوگئے ہیں اور جو مسلمان ان کی تکلیف دینے سے حبش کی نیت سے نکل چکے تھے وہ واپس لوٹ آئے۔
بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مسلمان نہیں ہوئے ہیں تو دوبارہ وہ مسلمان حبش کی ہجرت کے لئے نکل گئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3853
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3972
3972. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے سورہ نجم تلاوت فرمائی تو اس میں آپ نے سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی سجدہ کیا لیکن ایک بوڑھے شخص نے (سجدہ کرنے کی بجائے) مٹھی بھر مٹی اپنے ماتھے پر رکھی اور کہا: مجھے یہی کافی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: اس کے بعد میں نے اسے دیکھا کہ وہ کفر کی حالت میں قتل کیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3972]
حدیث حاشیہ:
یعنی امیہ بن خلف جسے جنگ بدر میں خود بلا ل ؓنے اپنے ہاتھوں سے قتل کیا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3972
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1070
1070. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے سورہ نجم تلاوت کی تو اس میں سجدہ کیا۔ ایک آدمی کے علاوہ قوم میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے سجدہ نہ کیا ہو۔ اس نے کنکریوں یا مٹی کی مٹھی بھر لی اور اسے اپنے چہرے کی طرف اٹھا کر کہنے لگا: مجھے تو یہی کافی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں: میں نے اسے دیکھا کہ وہ بعد میں (میدان بدر میں) بحالت کفر قتل ہوا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1070]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے سورۃ نجم میں سجدہ تلاوت بھی ثابت ہوا۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
فلعل جمیع من وفق للسجود یومئذ ختم له بالحسنیٰ فأسلم لبرکة السجود۔
یعنی جن جن لوگوں نے اس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کر لیا (خواہ ان میں سے کافروں کی نیت کچھ بھی ہو بہرحال)
ان کو سجدہ کی برکت سے اسلام لانے کی توفیق ہوئی اور ان کا خاتمہ اسلام پر ہوا۔
بعد کے واقعات سے ثابت ہے کہ کفار مکہ بڑی تعداد میں مسلمان ہوگئے تھے جن میں یقینا اس موقعہ پر یہ سجدہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔
مگر امیہ بن خلف نے آج بھی سجدہ نہیں کیا بلکہ رسماً مٹی کو ہاتھ میں لے کر سر سے لگا لیا اس تکبر کی وجہ سے اس کو اسلام نصیب نہیں ہوا۔
آخر کفر کی ہی حالت میں وہ مارا گیا۔
خلاصہ یہ کہ سورۃ نجم میں بھی سجدہ ہے اور یہ عزائم السجود میں شمار کر لیا گیا ہے، یعنی جن سجدوں کا ادا کرنا ضروری ہے:
وعن علي ما ورد الأمر فیه بالسجود عزیمة۔
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ جن آیات میں سجدہ کرنے کاحکم صادر ہوا ہے وہ سجدے ضروری ہیں۔
(فتح)
مگر ضروری کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ وہ فرض واجب ہوں جب کہ سجدہ تلاوت سنت کے درجہ میں ہے یہ امر علیحدہ ہے کہ ہر سنت نبوی پر عمل کرنا ایک مسلمان کے لیے سعادت دارین کا واحد وسیلہ ہے۔
واللہ أعلم وعلمه أتم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1070
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1070
1070. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے سورہ نجم تلاوت کی تو اس میں سجدہ کیا۔ ایک آدمی کے علاوہ قوم میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے سجدہ نہ کیا ہو۔ اس نے کنکریوں یا مٹی کی مٹھی بھر لی اور اسے اپنے چہرے کی طرف اٹھا کر کہنے لگا: مجھے تو یہی کافی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں: میں نے اسے دیکھا کہ وہ بعد میں (میدان بدر میں) بحالت کفر قتل ہوا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1070]
حدیث حاشیہ:
اس شخص کے متعلق مختلف روایات ہیں:
سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ وہ ولید بن مغیرہ تھا لیکن وہ میدان بدر میں قتل نہیں ہوا۔
بعض روایات میں سعید بن عاص اور ابولہب کا ذکر ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ اس وقت سجدہ نہ کرنے والے وہ قریشی تھے جو شہرت کے طلبگار تھے۔
سنن نسائی میں ہے کہ وہ مطلب بن ابی وداعہ تھا، لیکن یہ اس وقت مسلمان نہیں ہوا تھا۔
امام بخاری ؒ نے خود ایک روایت میں صراحت کی ہے کہ وہ امیہ بن خلف تھا۔
بہرحال حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے صرف ایک آدمی کو دیکھا ہو گا جس نے کنکریوں سے مٹھی بھر کر انہیں اپنے چہرے کی طرف اٹھا لیا تھا اور اسے انہوں نے بیان کر دیا۔
(فتح الباري: 712/2)
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1070
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3853
3853. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ سورہ نجم تلاوت فرمائی تو سجدہ کیا۔ اس وقت آپ کے ساتھ تمام لوگوں نے بھی سجدہ کیا۔ صرف ایک شخص کو میں نے دیکھا کہ اس نے اپنے ہاتھ میں کنکریاں لیں، ان پر اپنا سر رکھ کر کہنے لگا: میرے لیے بس اتنا ہی کافی ہے۔ آخرکار میں نے اسے دیکھا کہ اسے کفر کی حالت میں قتل کر دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3853]
حدیث حاشیہ:
1۔
مسلمانوں کو مشرکین نے اس قدر تکلیفیں دیں کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے۔
جب رسول اللہ ﷺ نے سورہ نجم تلاوت کی اور مشرکین نے آپ کے ہمراہ سجدہ کیا تو مسلمانوں نے سمجھا کہ مشرکین نے اسلام قبول کر لیا ہے۔
اس کی اطلاع جب مہاجرین حبشہ کو ملی تو وہ واپس آگئے پھر انھیں پہلے سے زیادہ تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا حتی کہ وہ دوبارہ ہجرت حبشہ پر مجبور ہو گئے۔
عنوان سے اس حدیث کی یہی مطابقت ہے۔
2۔
واضح رہے کہ امیہ بن خلف نے سجدہ نہیں کیا تھا۔
وہ غزوہ بدر میں بحالت کفر قتل کیا گیا۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3853
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3972
3972. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے سورہ نجم تلاوت فرمائی تو اس میں آپ نے سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی سجدہ کیا لیکن ایک بوڑھے شخص نے (سجدہ کرنے کی بجائے) مٹھی بھر مٹی اپنے ماتھے پر رکھی اور کہا: مجھے یہی کافی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: اس کے بعد میں نے اسے دیکھا کہ وہ کفر کی حالت میں قتل کیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3972]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں وضاحت ہے کہ وہ بوڑھا جس نے زمین پر سجدہ کرنے کے بجائے مٹی یا کنکریاں ہاتھ میں لے کر انھیں پیشانی پر رکھ لیا تھا وہ امیہ بن خلف مردود تھا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4863)
2۔
یہ وہی امیہ بن خلف ہے جسے میدان بدر میں حضرت بلال ؓ نے اپنے ہاتھوں سے قتل کیا تھا۔
اس مناسبت سے اس حدیث کو امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3972
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4863
4863. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: سب سے پہلے جو سجدے والی سورت نازل ہوئی وہ سورہ نجم ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس میں سجدہ کیا تو جتنے لوگ آپ کے پیچھے تھے سب نے سجدہ کیا مگر ایک آدمی کو میں نے دیکھا کہ اس نے مٹھی بھر مٹی لی اور اس پر سجدہ کیا۔ اس کے بعد میں نے اسے دیکھا کہ وہ کفر کی حالت میں قتل ہوا اور وہ شخص امیہ بن خلف تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4863]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے کہ امیہ خلف نے سجدہ کرنے کے بجائے کنکریاں یا مٹی اپنی مٹھی میں لی پھر انھیں پیشانی سے لگا کر کہنے لگا:
مجھے اتنا ہی کافی ہے۔
(صحیح البخاري، سجود القرآن و سنتها، حدیث: 1067)
چنانچہ وہ غزوہ بدر میں بحالت کفر قتل ہوا۔
اگر وہ بد بخت سجدہ کر لیتا تو ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ اسے ایمان قبول کرنے کی توفیق عطا فرماتا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4863