Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الرِّضَاعِ
رضاعت کے احکام و مسائل
17. باب الْوَصِيَّةِ بِالنِّسَاءِ:
باب: عورتوں کے ساتھ خوش خلقی کرنے کاحکم۔
حدیث نمبر: 3644
وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حدثنا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ مَيْسَرَةَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم، قَالَ: " مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَإِذَا شَهِدَ أَمْرًا فَلْيَتَكَلَّمْ بِخَيْرٍ أَوْ لِيَسْكُتْ، وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَيْءٍ فِي الضِّلَعِ، أَعْلَاهُ إِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ، وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ، اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا ".
ابوحازم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے جب (اپنی بیوی میں) کوئی (پسند نہ آنے والا) معاملہ دیکھے تو اچھی طرح سے بات کہے یا خاموش رہے۔ اور عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک کی نصیحت قبول کرو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ اور پسلیوں میں سب سے زیادہ ٹیڑھ اس کے اوپر والے حصے میں ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنے لگ جاؤ گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی، عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک کی نصیحت قبول کرو
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ جب کسی معاملہ سے دوچار ہو کوئی بات پیش آئے تو اچھی بات کہے یا خاموش رہے، اور عورتوں سے خیرخواہی کرو، کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اور پسلی کا اوپر کا حصہ زیادہ ٹیڑھا ہے۔ اگر تم اس کو سیدھا کرنے لگو گے اس کو توڑ دو گے۔ اور اگر اس کو چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھا ہی رہے گا۔ عورتوں سے خیرخواہی کرو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 3644 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3644  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے،
کے دو معنی بن سکتے ہیں: 1۔
عورت میں طبعی اور فطرتی طور پر کچھ قصور اور کجی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
﷜﷜ ﴿خُلِقَ الْإِنسَانُ مِنْ عَجَلٍ﴾ (انبیاء: 37) (انسان جلد باز ہے)
دوسرا معنی ہے کہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
(خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ)
(انسانوں کو ایک ہی جان (آدم علیہ السلام)
سے پیدا کیا ہے)

﴿وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا﴾ (نساء: 1)
(اس سے اس کی بیوی (حوا)
کو پیدا کیا)

اگرحوا،
آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے پیدا نہ ہوئی تو پھر انسانوں کی تخلیق ایک نفس کی بجائے دونفسوں سے ہوئی ہے،
حالانکہ قرآن مجید نے ایک نفس سے تخلیق قرار دی ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حوا کی تخلیق جب آدم علیہ السلام سوئے ہوئے تھے تو ان کی بائیں چھوٹی پسلی سے ہوئی پسلی کا اوپر کا حصہ زیادہ کج ہوتا ہے۔
اس لیے عورت میں زیادہ کجی اس کی زبان میں ہوتی ہے۔
(وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا)
کے تین مفہوم مراد لیے گئے ہیں ان کے بارے میں اپنے نفسوں سے خیر خواہی اور ہمدردی چا ہو۔

ان کے بارے میں خیر خواہی کی نصیحت قبول کرو۔

ان کے بارے میں ایک دوسرے کو خیر خواہی کی تلقین کرو،
اور اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ عورت اگرچہ پسلی کے اعلیٰ اور زیادہ کج حصہ سے پیدا کی گئی ہے اس کا یہ مقصد نہیں ہے ان کی اصلاح کی کوشش نہیں کرنی چاہیے یا انہیں خبر کی تلقین اور بھلائی کا حکم نہیں دینا چاہیے بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ ان سے پیارومحبت اور رفق وملائمت کا رویہ اختیار کر کے ان کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے تشدد اور انتہا پسندی اختیار نہیں کرنی چاہیے اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے:
(باب قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ)
قائم کیا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو آگ سے بچاؤ۔
اورقرآن مجید میں ہے:
﴿فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ﴾ (نساء)
(انہیں نصیحت کرو،
ان کو بستروں میں الگ چھوڑدو،
اور ان کو مارو)

لیکن ضرب شدید نہ ہو یا معاملہ طلاق تک نہ پہنچے کہ گھر کا نظام ہی بکھر جائے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3644   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 869  
´عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسایہ کو اذیت نہ پہنچائے اور عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو، بیشک ان کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور پسلی کا زیادہ ٹیڑھا حصہ اس کا اوپر والا ہوتا ہے۔ لہذا اگر کوئی اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرے گا تو اسے توڑ بیٹھے گا اور اگر اس کو اس کے حال پر چھوڑ دے گا تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی۔ پس عورتوں کے حق میں ہمیشہ بھلائی کی وصیت قبول کرو۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ بخاری کے ہیں اور مسلم کی روایت میں ہے اگر تو اس سے فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے ٹیڑھے پن کے باوجود اس سے فائدہ اٹھا سکے گا اور اگر تو نے اسے سیدھا کرنے کی کوشش کی تو اسے توڑ بیٹھے گا اور اس کا توڑنا اسے طلاق دینا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 869»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب الوصاة بالنساء، حديث:5185، 5186، ومسلم، الرضاع، باب الوصية بالنساء، حديث:1468.»
تشریح:
اس حدیث میں عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت اور حسن سلوک کا حکم ہے اور ان کی چھوٹی موٹی خامیوں اور کوتاہیوں پر چشم پوشی اور درگزر کرنے کی تلقین ہے اور ان کی کمزوریوں اور ناروا حرکتوں کو برداشت کرنے کی تاکید ہے کیونکہ یہ ان کی طبیعت میں شامل ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 869   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3331  
3331. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا شدہ ہے اور پسلی میں سب سے زیادہ ٹیڑھا حصہ اس کے اوپر والا ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنا شروع کردو گے تو اسے توڑ ڈالو گے اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑ دو تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی، لہذا عورتوں کے متعلق بھلائی کی وصیت قبول کرو اور ان سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3331]
حدیث حاشیہ:

عورتوں کی تخلیق میں ٹیڑھا پن ہے لہٰذا اسی حالت میں ان سے فائدہ اٹھاؤ اور انھیں اپنے مزاج کے مطابق سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اصلی مزاج کے اعتبار سے تمھارےخیالات سے اتفاق نہ کریں اور جھگڑے تک نوبت پہنچ جائے تو ان میں جدائی کا باعث بن جائے چنانچہ ایک حدیث میں اس کی وضاحت ہے رسول اللہ ﷺ نےفرمایا:
اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ بیٹھو گے اوراس کا ٹوٹنا یہ ہے کہ اسے طلاق ہو جائے گی۔
(صحیح مسلم، الرضاع، حدیث: 3643(715)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کا ٹیڑھا پن اس کے اوپر والے حصے یعنی زبان میں ہے یہ زبان سےاپنے ٹیڑھے پن کا اظہارکرے گی۔
نیز عورت زبان کے متعلق اصلاحی تربیت قبول کرنے پر جلدی آمادہ نہیں ہوتی بلکہ بعض اوقات معاملہ پہلے سے زیادہ تیز ہو جاتا ہے لہٰذا اس کے ٹیڑھے پن پر صبر کرنا چاہیے اسی میں خیرو برکت ہے۔

واضح رہے کہ کہ عورت کا ضرورت سے زیادہ خاموش رہنا اور شہادت حق کے وقت اپنی زبان پر مہرسکوت لگالینا بھی اس ٹیڑھے پن کے برگ و بار ہیں۔
زبان کے متعلق اس قسم کے افراط وتفریط کا اکثر عورتیں ہی شکارہوتی ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3331