Note: Copy Text and to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الرِّضَاعِ
رضاعت کے احکام و مسائل
12. باب قَدْرِ مَا تَسْتَحِقُّهُ الْبِكْرُ وَالثَّيِّبُ مِنْ إِقَامَةِ الزَّوْجِ عِنْدَهَا عَقِبَ الزِّفَافِ:
باب: باکرہ اور ثیبہ کے پاس زفاف کے بعد شوہر کے ٹھہرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3627
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حدثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنا سُفْيَانُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، وَخَالِدٍ الْحَذَّاءِ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: " مِنَ السُّنَّةِ أَنْ يُقِيمَ عَنْدَ الْبِكْرِ سَبْعًا "، قَالَ خَالِدٌ: وَلَوْ شِئْتُ قُلْتُ: رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سفیان نے ایوب اور خالد حذاء سے خبر دی، انہوں نے ابوقلابہ سے، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: سنت میں سے ہے کہ (دلہا) باکرہ کے ہاں سات راتیں قیام کرے۔ خالد نے کہا: اگر میں چاہوں تو کہہ سکتا ہوں: انہوں نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعا بیان کیا ہے
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، سنت یہ ہے کہ کنواری کے ہاں سات دن ٹھہرے، خالد کہتے ہیں، اگر میں چاہوں تو کہہ سکتا ہوں۔ انہوں نے اس کی نسبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی۔
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 3627 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3627  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تین دن کوپسند کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ تین دن باری میں شمار نہیں ہوں گے۔
اور پھر باری جلدی آ جائےگی۔
اوردوسری حدیثوں سے یہ بات معلوم ہوئی کہ نئی دلہن اگر کنواری ہو تو اس کو باری سے الگ سات دن ملیں گے،
پھر باری شروع ہو گی اوراگر شوہر دیدہ ہو تو تین دن کے بعد باری کا آغاز ہو جائےگا۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
احمد رحمۃ اللہ علیہ۔
اسحاق رحمۃ اللہ علیہ۔
شعبی رحمۃ اللہ علیہ۔
اورنخعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم جمہور علماء کا یہی مؤقف ہے۔
امام سعید بن المسیب رحمۃ اللہ علیہ۔
حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ۔
نافع رحمۃ اللہ علیہ۔
اور اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کنواری کے لیے تین دن اور بیوہ کے لیے دو دن زائد ہوں گے۔
لیکن احناف کے نزدیک پہلے دن سے ہی باری ہو گی،
کوئی زائد دن نہیں ملے گا۔
پھر نئی دلہن کےپاس جتنے دن ٹھہرے گا بعد میں ہر بیوی کے ہاں اتنے ہی دن ٹھہرے گا۔
لیکن یہ بات حدیث کے منافی ہے نیز جب صحابی من السنۃ کا لفظ استعمال کرے تو یہ جمہور محدثین کے نزدیک حکماً مرفوع ہے اور خالد راوی نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3627   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1916  
´کنواری اور غیر کنواری کے پاس رہنے کی مدت۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غیر کنواری (شوہر دیدہ) کے لیے تین دن، اور کنواری کے لیے سات دن ہیں، (پھر باری تقسیم کر دیں) ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1916]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
پہلی بیوی یا بیویوں کی موجودگی میں جب نئی شادی کی جائے تو نئی دلہن کے پاس چند دن رہ کر پھر باری مقرر کرنی چاہیے۔

(2)
نئی آنے والی دلہن اگر بیوہ یا مطلقہ ہے یعنی یہ اس کا دوسرا نکاح ہے تو خاوند کو چاہیے کہ تین دن اس کے ہاں رہائش رکھے، یعنی اس کی رہائش کے لیے جو مکان یا کمرہ مقرر کیا ہے اس میں رہائش رکھے اور اگر نئی بیوی کنواری ہے تو پورا ایک ہفتہ اس کے ساتھ رہے۔

(3)
تین دن یا سات دن نئی بیوی کے پاس رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ اس دوران میں پہلی بیویوں کو فراموش ہی کر دے۔
مطلب یہ ہے کہ اسے زیادہ وقت دے اور رات اس کے ساتھ گزارے۔

(4)
یہ مدت ختم ہونے کے بعد نئی بیوی کے بھی اتنے ہی حقوق ہوں گے جتنے پہلی بیویوں کے ہیں۔
جس طرح دوسری بیویوں کی باری ہوگی، اسی طرح نئی بیوی کی بھی باری ہو گی۔
خاوند اخراجات اور شب باشی میں اس کے ساتھ دوسری بیویوں جیسا سلوک کرے گا۔
اس کے ہاں وہی رات گزارے گا جب اس کی باری ہو گی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1916   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1139  
´کنواری اور غیر کنواری بیوی کے درمیان باری تقسیم کرنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اگر میں چاہوں تو کہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن انہوں نے صرف اتنا کہا: سنت ۱؎ یہ ہے کہ آدمی جب اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے کسی کنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں سات رات ٹھہرے، اور جب غیر کنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں تین رات ٹھہرے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1139]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
صحابی کا سنت یہ ہے کہنا بھی حدیث کے مرفوع ہونے کا اشارہ ہے،
تمام ائمہ کا یہی قول ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1139