حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى يَوْمَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ فَقَامَ فَكَبَّرَ فَقَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَقَامَ كَمَا هُوَ ثُمَّ قَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً وَهِيَ أَدْنَى مِنَ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهِيَ أَدْنَى مِنَ الرَّكْعَةِ الْأُولَى ثُمَّ سَجَدَ سُجُودًا طَوِيلًا ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الْآخِرَةِ مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ سَلَّمَ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ فَخَطَبَ النَّاسَ، فَقَالَ: فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ إِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلَاةِ".
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1047
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کے نزدیک لفظ کسوف اور خسوف کا اطلاق سورج اور چاند دونوں کے لیے جائز ہے۔
اس روایت کے آغاز میں لفظ خسوف اگرچہ سورج کے لیے استعمال ہوا ہے، تاہم دیگر روایات میں سورج کے لیے لفظ کسوف استعمال ہوا ہے۔
اسی طرح راوی نے روایت کے آخر میں دونوں کے لیے لفظ کسوف استعمال کیا ہے پھر لا يخسفان سے دونوں پر لفظ خسوف استعمال کیا، اس کا واضح مطلب ہے کہ دونوں الفاظ دونوں کے لیے جائز ہیں، اگرچہ عام طور پر سورج کے لیے کسوف اور چاند کے لیے خسوف بولا جاتا ہے۔
جیسا کہ آیت کریمہ میں چاند کے لیے خسوف اور روایات میں سورج کے لیے خسوف استعمال ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1047
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1466
´سورج گرہن کی نماز کے لیے اعلان کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو نبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی کو حکم دیا، تو اس نے ندا دی کہ نماز کے لیے جمع ہو جاؤ، تو سب جمع ہو گئے، اور انہوں نے صف بندی کی تو آپ نے انہیں چار رکوع، اور چار سجدوں کے ساتھ، دو رکعت نماز پڑھائی۔ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1466]
1466۔ اردو حاشیہ:
➊ اذان کے رائج ہونے سے پہلے فرض نماز کے لیے انھی لفظوں «الصلاۃ جامعۃ» سے بلایا جاتا تھا۔ اب اگر کسی نفل نماز کے لیے بلانا ہو تو ان لفظوں سے اعلان کیا جا سکتا ہے۔ اذان صرف فرض نماز کے لیے ہے۔
➋ ”چار رکوع“ نماز کسوف کے بارے میں زیادہ معتبر اور اوثق روایات ایک رکعت کے اندر دو رکوع کی ہیں۔ بعض محدثین نے تین، چار اور پانچ رکوع کی روایات کو بھی صحیح مان کر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ کسوف کے وقت کے حساب سے رکوع کم و بیش کیے جا سکتے ہیں۔ دو سے پانچ تک۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ احادیث میں صرف ایک کسوف کا ذکر ہے اور وہ کشوف 28 شوال 10ھ کا ہے جس دن آپ کے فرزند ارجمند ابراہیم رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تھے کیونکہ ہر روایت میں موت و حیات کا ذکر ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایک نماز کسوف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی طریقہ اختیار فرما سکتے تھے اور وہ معتبر روایات کے مطابق دو رکوع والا ہے۔ اس مسئلے کی تصفیل پیچھے ابتدائیے میں گزر چکی ہے۔ تفصیل کے لیے ابتدائیہ ملاحظہ فرمائیں۔
➌ احناف عام نماز کی طرح نماز کشوف میں بھی ہر رکعت میں ایک ہی رکوع کے قائل ہیں مگر اس طرح صحیح اور صریح کثیر روایات، یعنی بخاری و مسلم کی اعلیٰ پائے کی روایات عمل سے رہ جائیں گی اور نماز کشوف کی خصوصی علامت ختم ہو جائے گی۔ اگر عیدین میں زائد تکبیرات، جنازے میں قیام کی زائد تکبیرات اور نماز وتر میں دعائے قنوت کا اضافہ احادیث کی بنا پر ہو سکتا ہے تو صلاۃ کسوف میں انتہائی معتبر اور صحیح روایات کی بنا پر ایک رکوع کا اضافہ کیوں قابل تسلیم نہیں؟ سوچیے! ہر صحیح حدیث واجب العمل ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1466
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1472
´سورج گرہن کی نماز کی ایک اور قسم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار سجدوں میں چھ رکوع کئے۔ اسحاق بن ابراہیم کہتے ہیں میں نے معاذ بن ہشام سے پوچھا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے نا، انہوں نے کہا: اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1472]
1472۔ اردو حاشیہ: حدیث نمبر 1468 سے یہاں تک ہر رکعت کے رکوعوں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ دو، تین اور چار۔ تینا ور چار رکوع کی روایات قلیل ہیں۔ کثیر روایات (سابقہ اور آئندہ) دو رکوع کے بارے میں ہیں۔ بعض محدثین نے یہ موقف اختیار فرمایا ہے کہ کسوف کے مختلف واقعات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف رکوع فرمائے۔ یہ تطبیق بہت مناسب تھی اگر واقعتًا احادیث میں مختلف کسوفوں کا ذکر ہوتا مگر تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ احادیث میں صرف ایک سورج گرہن کا ذکر ہے۔ اگرچہ آپ کی زندگی میں بہت سی دفعہ گرہن لگا ہو گا۔ (اس کی تفصیلی بحث پیچھے حدیث نمبر 1466 اور ابتدائیے میں گزر چکی ہے۔) اسی طرح آپ کی زندگی میں کئی دفعہ چاند گرہن کا وقوع ہوا ہو گا مگر احادیث میں کسی بھی چاند گرہن کا ذکر نہیں آیا، لہٰذا صحیح بات یہی ہے کہ احادیث میں سے دورکوع والی احادیث اصح واکثر ہیں۔ انھی کو ترجیح ہو گی۔ باقی میں وہم ہے۔ واللہ اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے سی کتاب کا ابتدائیہ ملاحظہ فرمائیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1472
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1482
´گرہن کی نماز کے ایک اور طریقہ کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو آپ نے وضو کیا، اور حکم دیا تو ندا دی گئی: «الصلاة جامعة» (نماز باجماعت ہو گی)، پھر آپ (نماز کے لیے) کھڑے ہوئے، تو آپ نے لمبا قیام کیا، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: تو مجھے گمان ہوا کہ آپ نے سورۃ البقرہ پڑھی، پھر آپ نے لمبا رکوع کیا، پھر آپ نے: «سمع اللہ لمن حمده» کہا، پھر آپ نے اسی طرح قیام کیا جیسے پہلے کیا تھا، اور سجدہ نہیں کیا، پھر آپ نے رکوع کیا پھر سجدہ کیا، پھر آپ کھڑے ہوئے اور آپ نے پہلے ہی کی طرح دو رکوع اور ایک سجدہ کیا، پھر آپ بیٹھے، تب سورج سے گرہن چھٹ چکا تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1482]
1482۔ اردو حاشیہ:
➊ ”میرا اندازہ ہے۔“ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ نماز کسوف میں قرأت آہستہ ہونی چاہیے۔ اگر آپ جہر فرماتے تو اندازہ لگانے کی کیا ضرورت تھی؟ حالانکہ آگے صریح روایت (1495) آرہی ہے کہ آپ نے بلند آواز سے قرأت کی اور وہ روایت بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے ہے۔ اور وہ صحیحین کی روایت ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الکسوف، حدیث: 6065 و صحیح مسلم، الکسوف، حدیث:
➎۔ 901) صریح روایت کے مقابلے میں جو اصح بھی ہے، ایک مبہم روایت کو ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ بلکہ صریح روایت کو ترجیح ہو گی یا تطبیق دی جائے گی کہ آپ نے قرأت جہراً کی تھی مگر مجمع زیادہ دور ہونے کی وجہ سے قراء ت سنائی نہیں دے سکتی تھی۔ یا دور والوں کو آواز تو سنائی دیتی تھی مگر سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟ تبھی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جہر کی روایت بھی بیان فرماتی ہیں اور اندازہ بھی لگا رہی ہیں۔ بعض اہل علم نے یہ تطبیق بیان کی ہے کہ طولِ زمانہ کی وجہ سے آپ کو یادنہ رہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا قرأت کی تھی، اس لیے تخمینہ بیان کیا لیکن پہلی بات ہی درست ہے۔
➋ اس روایت اور روایت نمبر 1480 میں اختصار ہے کہ دو سجدوں کی تفصیل نہیں صرف سجدے کا ذکر ہے کیونکہ نماز کسوف عام نماز سے صرف رکوع میں مختلف ہے، اس لیے رکوع کی تفصیل بیان کر دی کہ وہ ایک رکعت میں دو تھے مگر سجدے تو اتفاقاً ہر نماز میں ایک رکعت میں دو ہی ہیں، لہٰذا اسے مبہم ذکر کر دیا۔ کوئی شخص بھی ایک سجدے کا قائل نہیں۔ امام صاحب نے شاید ظاہر الفاظ کے پیش نظر اسے ”ایک اور صورت“ بنادیا، ورنہ یہ کوئی صورت نہیں، نیز ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں تصحیف واقع ہوئی ہے۔ اصل میں فی سجدۃ تھا، غلطی سے وسجدۃ ہو گیا یا وسجدتین سے وسجدۃ ہو گیا جو یقیناًً غلطی ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (ذخیرہ العقبٰی شرح سنن النسائی: 16؍433)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1482
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1187
´نماز کسوف کی قرآت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا تو آپ نکلے اور لوگوں کو نماز پڑھائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کیا تو میں نے آپ کی قرآت کا اندازہ لگایا تو مجھے لگا کہ آپ نے سورۃ البقرہ کی قرآت کی ہے، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سجدے کئے پھر کھڑے ہوئے اور لمبی قرآت کی، میں نے آپ کی قرآت کا اندازہ کیا کہ آپ نے سورۃ آل عمران کی قرآت کی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1187]
1187. اردو حاشیہ:
اس نماز میں قراءت حتی المقدور خوب لمبی ہونی چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1187
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1188
´نماز کسوف کی قرآت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبی قرآت کی اور اس میں جہر کیا یعنی نماز کسوف میں۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1188]
1188۔ اردو حاشیہ:
مذکوہ بالا دونوں احادیث کے درمیان جمع و تطبیق یوں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا چونکہ فاصلے پر تھیں۔ اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأءت صاف سن نہ سکی تھیں، آواز سنی اس لئے جانا کہ قرأءت جہراً ہو رہی ہے لیکن یہ نہ جان سکیں کہ قرأءت کیا ہو رہی ہے، اس لئے اس کا اندازہ لگایا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1188
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1190
´نماز کسوف (سورج یا چاند گرہن کی نماز) کے اعلان کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو حکم دیا تو اس نے اعلان کیا کہ نماز (کسوف) جماعت سے ہو گی۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1190]
1190۔ اردو حاشیہ:
نماز کسوف کے لئے اعلان عام تو مستحب ہے، مگر معروف اذان و اقامت نہیں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1190
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 402
´نماز کسوف کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گرہن کی نماز میں قرآت بلند آواز سے کی اور دو رکعتوں میں چار رکوع اور چار سجدے کیے۔ (بخاری و مسلم) اور اس حدیث کے الفاظ مسلم کے ہیں۔ اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منادی کرنے والے کو بھیجا جو «الصلاة جامعة» کی عنادی کرتا تھا۔ «بلوغ المرام/حدیث: 402»
تخریج: «أخرجه البخاري، الكسوف، باب الجهر با لقراءة في الكسوف، حديث:1065، ومسلم، الكسوف، باب صلاة الكسوف، حديث:901.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کسوف میں قراء ت بلند آواز سے فرمائی۔
2. یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ نماز عام نمازوں کی طرح نہیں بلکہ اس میں ایک رکوع کا اضافہ ہے۔
اس روایت کی رو سے آپ ایک رکعت میں دو رکوع فرماتے۔
اور یہی موقف راجح ہے جیسا کہ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔
ظاہر ہے ہر رکوع سے اٹھ کر نئے سرے سے قراء ت کی ہوگی۔
اس طرح قراء ت کا بھی اضافہ ہوا۔
3.اس کا خاص وقت مقرر و متعین نہیں ہے‘ جب سورج یا چاند کو گرہن ہوگا اسی وقت نماز پڑھی جائے گی۔
4.عام نمازوں کے لیے تو اذان مقرر ہے اور صلاۃ کسوف و خسوف کے لیے
«اَلصَّلاَۃُ جَامِعَۃٌ» کہنا مشروع ہے۔
پنجگانہ نماز کے لیے یہ کہنا ثابت نہیں ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 402
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 563
´گرہن کی نماز میں قرأت کا طریقہ۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گرہن کی نماز پڑھی اور اس میں آپ نے بلند آواز سے قرأت کی۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 563]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے،
ورنہ اس کے راوی سفیان بن حسین امام زہری سے روایت میں ضعیف ہیں۔
دیکھیے صحیح أبی داود: 1074)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 563
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1050
1050. پھر رسول اللہ ﷺ ایک روز صبح کے وقت کہیں جانے کے لیے سواری پر سوار ہوئے تو سورج کو گرہن لگ گیا۔ رسول اللہ ﷺ چاشت کے وقت واپس تشریف لائے اور آپ کا گزر ازواج مطہرات کے حجروں کے درمیان سے ہوا۔ اس کے بعد آپ نے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا شروع کر دی اور لوگ بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ آپ نے طویل قیام فرمایا، پھر طویل رکوع کیا، اس کے بعد رکوع سے اٹھ کر طویل قیام کیا جو پہلے سے قدرے کم تھا، پھر طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ اس کے بعد رکوع سے اپنا سر اٹھایا اور سجدہ کیا، پھر طویل قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا۔ اس کے بعد آپ نے طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا اور سجدہ کیا، پھر اس کے بعد طویل قیام فرمایا جو پہلے سے کم تھا، پھر طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ بعد ازاں رکوع سے اٹھے اور سجدہ فرمایا، پھر نماز۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1050]
حدیث حاشیہ:
بعض روایتوں میں ہے کہ جب یہود یہ نے حضرت عائشہ ؓ سے عذاب قبر کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا چلو! قبر کا عذاب یہودیوں کو ہوگا۔
مسلمانوں کا اس سے کیا تعلق، لیکن اس یہودیہ کے ذکر پر انہوں نے آنحضور ﷺ سے پوچھا اور آپ نے اس کا حق ہونا بتا یا۔
اسی روایت میں ہے کہ آنحضور ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو عذاب قبر سے پناہ مانگنے کی ہدایت فرمائی اور یہ نماز کسوف کے خطبہ کا واقعہ 9 ھ میں ہوا۔
حدیث کے آخر ی جملہ سے ترجمہ باب نکلتا ہے، اس یہودن کو شاید اپنی کتابوں سے قبر عذاب معلوم ہو گیا ہوگا۔
ابن حبان میں سے کہ آیت کریمہ میں لفظ ﴿مَعِیشَة ضَنکاً﴾ (طه: 124)
اس سے عذاب قبر مرا دہے اور حضرت علی ؓ نے کہا کہ ہم کو عذاب قبر کی تحقیق اس وقت ہوئی جب آیت کریمہ ﴿حَتّٰی زُرتُمُ المَقَابِرَ﴾ (التکاثر: 2)
نازل ہوئی اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور قتادہ اور ربیع نے آیت:
﴿سَنُعَذِّبُھُم مَرَّتَینِ﴾ (التوبة: 101)
کی تفسیر میں کہا کہ ایک عذاب دنیا کا اور دوسرا عذاب قبر کا مراد ہے۔
اب اس حدیث میں جو دوسری رکعت میں دون القیام الاول ہے، اس کے مطلب میں اختلاف ہے کہ دوسری رکعت کا قیام اول مراد ہے یا اگلے کل قیام مراد ہیں بعضوں نے کہا چار قیام اور چار رکوع ہیں اور ہر ایک قیام اور رکوع اپنے ما سبق سے کم ہوتا تو ثانی اول سے کم اور ثالث ثانی سے کم اور رابع ثالث سے کم۔
واللہ أعلم۔
یہ جو کسوف کے وقت عذاب قبر سے ڈرایا ا س کی مناسبت یہ ہے کہ جیسے کسوف کے وقت دنیا میں اندھیرا ہو جاتا ہے، ایسے ہی گنہگار کی قبر میں جس پر عذاب ہوگا، اندھیرا چھاجائے گا۔
اللہ تعالی پناہ میں رکھے۔
قبر کا عذاب حق ہے، حدیث اور قرآن سے ثابت ہے جو لوگ عذاب قبر سے انکار کر تے ہیں وہ قرآن وحدیث کا انکار کر تے ہیں, لہذا ان کو اپنے ایمان کے بارے میں فکرکرنا چاہیے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1050
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1056
1056. پھر ایک دن رسول اللہ ﷺ صبح سویرے (کہیں جانے کے لیے) سواری پر سوار ہوئے جبکہ سورج کو گرہن لگ چکا تھا، چنانچہ چاشت کے وقت واپس تشریف لے آئے اور حجروں کے درمیان سے گزرتے ہوئے (مسجد میں گئے) اور کھڑے ہو کر نماز شروع کر دی۔ لوگ بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے، آپ نے لمبا قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، اس کے بعد سر اٹھا کر قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا، پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، اس کے بعد سر اٹھایا اور لمبا سجدہ کیا۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور لمبا قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا، پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، پھر لمبا قیام فرمایا جو پہلے قیام سے کم تھا، پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، اس کے بعد سجدہ کیا جو پہلے سجدوں سے کم تھا۔ پھر نماز سے فارغ ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے وہ کچھ فرمایا جو اللہ نے چاہا، اس کے بعد آپ نے لوگوں کو حکم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1056]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث اور دیگر احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قبر کا عذاب وثواب بر حق ہے۔
اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے عذاب قبر سے پناہ مانگنے کا حکم فرمایا۔
اس بارے میں شارحین بخاری لکھتے ہیں:
لعظم ھو له وأیضا فإن ظلمة الکسوف إذا غمت الشمس تناسب ظلمة القبر والشيئ یذکر فیخاف من ھذا کما یخاف من ھذا ومما یستنبط منه أنه یدل علی أن عذاب القبر حق وأھل السنة مجمعون علی الإیمان به والتصدیق به ولا ینکرہ إلامبتدع۔
(حاشیہ بخاری)
یعنی اس کی ہولناک کیفیت کی وجہ سے آپ نے ایسا فرمایا اوراس لیے بھی کہ سورج گرہن کی کیفیت جب اس کی روشنی غائب ہو جائے قبر کے اندھیرے سے مناسبت رکھتی ہے۔
اسی طرح ایک چیز کا ذکر دوسری چیز کے ذکر کی مناسبت سے کیا جاتا ہے اوراس سے ڈرایا جاتا ہے اور اس سے ثابت ہوا کہ قبر کا عذاب حق ہے اور جملہ اہل سنت کا یہ متفقہ عقیدہ ہے جو عذاب قبر کا انکار کرے وہ بدعتی ہے۔
(انتهیٰ)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1056
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1064
1064. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے سورج گرہن کے وقت لوگوں کو دو رکعتیں پڑھائیں جن میں چار رکوع تھے۔ ہر پہلا رکوع دوسرے سے طویل تر تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1064]
حدیث حاشیہ:
سورج اور چاند گرہن میں نماز با جماعت مسنون ہے، مگر حنفیہ چاند گرہن میں نماز با جماعت کے قائل نہیں۔
خدا جانے ان کویہ فرق کرنے کی ضرورت کیسے محسوس ہوئی کہ سورج گرہن میں تو نماز با جماعت جائز ہو اور چاند گرہن میں ناجائز۔
اس فرق کے لیے کوئی واضح دلیل ہونی چاہیے تھی بہر حال خیال اپنااپنا نظر اپنی اپنی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1064
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1212
1212. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ نے ایک طویل سورت پڑھی، پھر طویل رکوع کیا۔ اس کے بعد اپنا سر مبارک اٹھایا اور دوسری سورت پڑھنا شروع کر دی۔ پھر رکوع کیا اور اچھی طرح اسے ادا کیا۔ اس کے بعد سجدہ فرمایا۔ پھر آپ نے اسی طرح دوسری رکعت ادا کی، پھر فرمایا: ”یہ دونوں (سورج اور چاند) اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ جب تم ان حالات سے دوچار ہو جاؤ تو نماز پڑھو تاآنکہ گرہن ختم ہو جائے۔ یقینا میں نے اس مقام پر کھڑے ہر چیز کو دیکھا ہے جس کا مجھ سے وعدہ کیا گیا تھا حتی کہ میں نے یہ بھی دیکھا کہ جنت کے انگوروں سے ایک خوشہ توڑنے کا ارادہ کر رہا ہوں، جب تم نے مجھے آگے بڑھتے ہوئے دیکھا۔ اسی طرح میں نے جہنم کو بھی دیکھا کہ اس کے شعلے ایک دوسرے کو توڑ رہے ہیں، جب تم نے مجھے پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھا۔ میں نے جہنم میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1212]
حدیث حاشیہ:
سائبہ اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو جاہلیت میں بتوں کی نذرمان کر چھوڑ دی جاتی تھی۔
نہ اس پر سوارہوتے اور نہ اس کا دودھ پیتے۔
یہی عمرو بن لحی عرب میں بت پرستی اور دوسری بہت سی منکرات کا بانی ہوا ہے۔
حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے ظاہر ہے اس لیے کہ خوشہ لینے کے لیے آپ ﷺ کا آگے بڑھنا اور دوزخ کی ہیبت کھا کر پیچھے ہٹنا حدیث سے ثابت ہو گیا اور جس کا چار پایہ چھوٹ جاتا ہے وہ اس کے تھامنے کے واسطے بھی کبھی آگے بڑھتا ہے کبھی پیچھے ہٹتا ہے۔
(فتح الباري)
خوارج ایک گروہ ہے جس نے حضرت علی ؓ کی خلافت کا انکار کیا۔
ساتھ ہی حدیث کا انکار کر کے حسنبا اللہ کتاب اللہ کا نعرہ لگایا۔
یہ گروہ بھی افراط وتفریط میں مبتلا ہو کر گمراہ ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1212
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1050
1050. پھر رسول اللہ ﷺ ایک روز صبح کے وقت کہیں جانے کے لیے سواری پر سوار ہوئے تو سورج کو گرہن لگ گیا۔ رسول اللہ ﷺ چاشت کے وقت واپس تشریف لائے اور آپ کا گزر ازواج مطہرات کے حجروں کے درمیان سے ہوا۔ اس کے بعد آپ نے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا شروع کر دی اور لوگ بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ آپ نے طویل قیام فرمایا، پھر طویل رکوع کیا، اس کے بعد رکوع سے اٹھ کر طویل قیام کیا جو پہلے سے قدرے کم تھا، پھر طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ اس کے بعد رکوع سے اپنا سر اٹھایا اور سجدہ کیا، پھر طویل قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا۔ اس کے بعد آپ نے طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا اور سجدہ کیا، پھر اس کے بعد طویل قیام فرمایا جو پہلے سے کم تھا، پھر طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ بعد ازاں رکوع سے اٹھے اور سجدہ فرمایا، پھر نماز۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1050]
حدیث حاشیہ:
(1)
سورج گرہن کے وقت عذاب قبر سے ڈرانے میں یہ مناسبت ہے کہ جس طرح گرہن کے وقت اندھیرا چھا جاتا ہے اسی طرح بدکاروں اور گناہ گاروں کی قبروں میں بھی اندھیرا ہو گا، اس لیے سورج گرہن کے وقت اندھیرے اور قبر کی تاریکی دونوں سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔
(فتح الباري: 694/2)
حضرت عائشہ ؓ کا ذہن تھا کہ ثواب و عقاب آخرت میں ہو گا۔
پہلے انہیں عذاب قبر کے متعلق علم نہ تھا۔
رسول اللہ ﷺ کے بتانے کے بعد انہیں علم ہوا کہ عذاب قبر برحق ہے۔
ممکن ہے کہ یہودی عورت کو تورات یا پہلی کتابوں سے عذاب قبر کے متعلق معلومات حاصل ہوئی ہوں، چنانچہ حدیث میں ہے کہ جب یہودی عورت نے حضرت عائشہ ؓ سے عذاب قبر کے متعلق سوال کیا تو حضرت عائشہ نے اس کا انکار کر دیا۔
اس نے کہا کہ اپنے نبی ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کرنا۔
رسول اللہ ﷺ جب تشریف لائے تو آپ نے اس کے متعلق سوال کیا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”عذابِ قبر برحق ہے۔
“ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگتے تھے۔
(عمدة القاري: 319/5) (3)
واضح رہے کہ اس دن رسول اللہ ﷺ کے لخت جگر حضرت ابراہیم ؓ فوت ہوئے تھے۔
آپ کفن دفن کے سلسلے میں سواری پر سوار ہو کر گئے تھے۔
چاشت کے وقت نماز کسوف کا اہتمام مسجد میں کیا۔
صحیح مسلم کی روایت میں مسجد کی صراحت ہے کہ آپ نے آتے ہی مسجد کا رخ کیا اور نماز کسوف پڑھائی۔
(صحیح البخاري، الکسوف، حدیث: 1059، و صحیح مسلم، الکسوف، حدیث: 2098 (903)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1050
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1056
1056. پھر ایک دن رسول اللہ ﷺ صبح سویرے (کہیں جانے کے لیے) سواری پر سوار ہوئے جبکہ سورج کو گرہن لگ چکا تھا، چنانچہ چاشت کے وقت واپس تشریف لے آئے اور حجروں کے درمیان سے گزرتے ہوئے (مسجد میں گئے) اور کھڑے ہو کر نماز شروع کر دی۔ لوگ بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے، آپ نے لمبا قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، اس کے بعد سر اٹھا کر قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا، پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، اس کے بعد سر اٹھایا اور لمبا سجدہ کیا۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور لمبا قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا، پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، پھر لمبا قیام فرمایا جو پہلے قیام سے کم تھا، پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، اس کے بعد سجدہ کیا جو پہلے سجدوں سے کم تھا۔ پھر نماز سے فارغ ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے وہ کچھ فرمایا جو اللہ نے چاہا، اس کے بعد آپ نے لوگوں کو حکم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1056]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں اگرچہ نماز کسوف مسجد میں ادا کرنے کی صراحت نہیں، لیکن حجروں کے درمیان سے گزر کر آپ مسجد ہی میں تشریف لائے ہیں۔
جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا:
میں دیگر عورتوں کے ہمراہ حجروں کے درمیان سے ہوتی ہوئی مسجد میں آئی اور رسول اللہ ﷺ اپنی سواری سے اتر کر سیدھے وہاں آئے جہاں آپ نماز پڑھتے تھے۔
(صحیح مسلم، الکسوف، حدیث: 2088(903) (2)
صحیح بات یہ ہے کہ نماز کسوف مسجد میں ادا کرنا مسنون ہے۔
اگر یہ عمل مسجد میں ادا کرنا مسنون نہ ہوتا تو اسے کھلے میدان میں ادا کرنا زیادہ مناسب تھا، کیونکہ اس سے سورج کے روشن ہونے کا جلدی پتہ چل جاتا ہے۔
(فتح الباري: 702/2)
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1056
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1212
1212. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ نے ایک طویل سورت پڑھی، پھر طویل رکوع کیا۔ اس کے بعد اپنا سر مبارک اٹھایا اور دوسری سورت پڑھنا شروع کر دی۔ پھر رکوع کیا اور اچھی طرح اسے ادا کیا۔ اس کے بعد سجدہ فرمایا۔ پھر آپ نے اسی طرح دوسری رکعت ادا کی، پھر فرمایا: ”یہ دونوں (سورج اور چاند) اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ جب تم ان حالات سے دوچار ہو جاؤ تو نماز پڑھو تاآنکہ گرہن ختم ہو جائے۔ یقینا میں نے اس مقام پر کھڑے ہر چیز کو دیکھا ہے جس کا مجھ سے وعدہ کیا گیا تھا حتی کہ میں نے یہ بھی دیکھا کہ جنت کے انگوروں سے ایک خوشہ توڑنے کا ارادہ کر رہا ہوں، جب تم نے مجھے آگے بڑھتے ہوئے دیکھا۔ اسی طرح میں نے جہنم کو بھی دیکھا کہ اس کے شعلے ایک دوسرے کو توڑ رہے ہیں، جب تم نے مجھے پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھا۔ میں نے جہنم میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1212]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوران نماز میں چلنا، آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹنا جائز ہے۔
اس سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔
صحیح مسلم کی ایک روایت میں اس سے بھی زیادہ صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دوران نماز میں آگے بڑھے اور پیچھے آئے، چنانچہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
”میرے سامنے آگ کو لایا گیا تو میں پیچھے ہٹا مبادا اس کی تپش مجھے نقصان پہنچائے۔
پھر میرے سامنے جنت کو پیش کیا گیا جبکہ تم نے مجھے دیکھا کہ میں آگے بڑھ رہا ہوں۔
“ (صحیح مسلم، الکسوف، حدیث: 2102(904)
علامہ کرمانی ؒ کو اس حدیث کی عنوان سے مطابقت قائم کرنے کے لیے بہت دور کی کوڑی لانا پڑی، فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں مطلق طور پر جانوروں کو فضول چھوڑ دینے کی مذمت ہے، خواہ نماز میں ہو یا نماز سے باہر، اس طرح عنوان سے اس کی مطابقت ثابت ہوئی، حالانکہ یہ محض تکلف ہے۔
(فتح الباري: 109/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1212