Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب النِّكَاحِ
نکاح کے احکام و مسائل
3. باب نِكَاحِ الْمُتْعَةِ وَبَيَانِ أَنَّهُ أُبِيحَ ثُمَّ نُسِخَ ثُمَّ أُبِيحَ ثُمَّ نُسِخَ وَاسْتَقَرَّ تَحْرِيمُهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ:
باب: متعہ کے حلال ہونے کا پھر حرام ہونے کا پھر حلال ہونے کا اور پھر قیامت تک حرام رہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3416
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حدثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: " كُنَّا نَسْتَمْتِعُ بِالْقَبْضَةِ مِنَ التَّمْرِ، وَالدَّقِيقِ الْأَيَّامَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ حَتَّى نَهَى عَنْهُ عُمَرُ فِي شَأْنِ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ ".
مجھے ابوزبیر نے خبر دی، کہا: میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک مٹھی کھجور اور آٹے کے عوض چند دنوں کے لئے متعہ کرتے تھے، حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عمرو بن حُریث کے واقعے (کے دوران) میں اس سے منع کر دیا
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ ہم کھجور اور آ ٹے کی ایک مٹھی کے عوض چند دن کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے ادوار میں متعہ کر لیا کرتے تھے، پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے عمرو بن حریث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعہ پر منع کر دیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 3416 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3416  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پتہ چلا کہ حضرت عمرو بن حریث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک لونڈی سے متعہ کیا ہے،
وہ کوفہ میں تھے اور وہ اس سے حاملہ ہو گئی ہے،
حضرت عمرو بن حریث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا،
تو انہوں نے اعتراف کر لیا،
اور انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا حوالہ دیا،
اس پرحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطبہ دیا،
اورفرمایا:
لوگوں کو کیا ہو گیا ہے،
کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کرنے کے بعد نکاح متعہ کرتے ہیں دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تین دن کے لیے اجازت دی تھی پھر منع فرما دیا تھا،
آپ نے منبر پر،
برملا اس کا تذکرہ کیا لیکن کسی صحابی نے اس کا انکار نہیں کیا۔
حالانکہ جب انہوں نے مہر میں زیادتی سے روکا تھا،
توایک عورت نے انہیں ٹوک دیا تھا،
اس لیے اگرحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات ان کے ہاں قابل قبول نہ ہوتی تو وہ اس پراعتراض کرتے،
اعتراض نہ کرنا اسی بات کی بین دلیل ہے کہ انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا تھا،
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اس حدیث حرمت کی تشہیر اوراعلان فرما دیا تو سب کو پتہ چل گیا جنہیں پہلے معلوم نہ تھا،
انہیں بھی معلوم ہو گیا،
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمرو بن حریث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عدم علمی کی بنا پر،
ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورمیں سفر میں اس سے فائدہ اٹھایا،
جب پتہ چل گیا تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس سے باز آ گئے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3416