Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِسْقَاءِ
کتاب: استسقاء یعنی پانی مانگنے کا بیان
16. بَابُ الْجَهْرِ بِالْقِرَاءَةِ فِي الاِسْتِسْقَاءِ:
باب: استسقاء کی نماز میں بلند آواز سے قرآت کرنا۔
حدیث نمبر: 1024
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ، قَالَ:" خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَسْقِي فَتَوَجَّهَ إِلَى الْقِبْلَةِ يَدْعُو وَحَوَّلَ رِدَاءَهُ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ جَهَرَ فِيهِمَا بِالْقِرَاءَةِ".
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے زہری سے بیان کیا، ان سے عباد بن تمیم نے اور ان سے ان کے چچا (عبداللہ بن زید) نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم استسقاء کے لیے باہر نکلے تو قبلہ رو ہو کر دعا کی۔ پھر اپنی چادر پلٹی اور دو رکعت نماز پڑھی۔ نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآت بلند آواز سے کی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1024 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1024  
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز استسقاء پڑھاتے وقت پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿١﴾ )
پڑھی اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں اور ﴿هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ ﴿١﴾ )
کی تلاوت کی۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي: 348/3)
لیکن یہ روایت انتہائی کمزور ہے، اس بنا پر قابل حجت نہیں۔
(إرواءالغلیل: 104/3) (2)
صحیح موقف یہ ہے کہ قراءت کا معاملہ امام کی صوابدید پر موقوف ہے۔
کوئی معین سورت پڑھنے کی پابندی نہیں بلکہ جو آسان اور میسر ہو پڑھ لے۔
(تمام المنة، ص: 264)
واللہ أعلم۔
(3)
ابن بطال نے نماز استسقاء میں اونچی قراءت کرنے پر اجماع نقل کیا ہے۔
(فتح الباري: 803/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1024   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 180  
´نماز استسقاءکا طریقہ`
«. . . 305- مالك عن عبد الله بن أبى بكر بن حزم أنه سمع عباد بن تميم يقول: سمعت عبد الله بن زيد المازني يقول: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المصلى فاستسقى وحول رداءه حين استقبل القبلة. . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن زید المازنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جائے نماز (عید گاہ) کی طرف تشریف لے گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز استسقاء پڑھ کر) پانی (بارش) کے لیے دعا مانگی اور جب (دعا کے لیے) قبلہ رخ ہوئے تو اپنی چادر الٹ دی . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 180]
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 894، من حديث ما لك به]
تفقه:
➊ نماز استسقاء سنت ہے۔ استسقاء پانی یعنی بارش مانگنے کو کہتے ہیں۔
➋ عباد بن تمیم رحمہ اللہ کے چچا سیدنا عبداللہ بن زید بن عاصم المازنی الانصاری رضی اللہ عنہ کی اس روایت کی دوسری سند میں آیا ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دن دیکھا جب آپ استسقاء کے لئے نکلے، پھر آپ نے لوگوں کی طرف پیٹھ پھیری اور دعا کرتے ہوئے قبلہ کی طرف رخ کیا پھر آپ نے اپنی چادر پلٹ دی پھر آپ نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں جن میں جہری قرأت کی۔ [صحيح بخاري: 1025 ميں مسلم: 894]
● اس حدیث سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ جماعت کے ساتھ استسقاء کی نماز مسنون ہے لیکن اس کے برخلاف فقہ حنفی کی کتاب الہدایہ میں لکھا ہوا ہے: «ليس فى الاستسقاء صلوة مسنونة فى جماعة» (امام ابوحنیفہ نے کہا:) استسقاء کے موقع پر نماز با جماعت مسنون نہیں ہے۔ (ج 1 ص176، باب الاستسقاء)!!
➌ دعا کرتے وقت ہاتھ کی پشت آسمان کی طرف ہو۔ [صحيح مسلم: 895]
ہتھیلیاں چہرے کے سامنے ہوں اور ہاتھ سر سے اونچے نہ ہوں۔ [صحيح ابن حبان، الاحسان: 876 وسنده صحیح سنن ابي داود: 1168]
➍ چادر پلٹنے سے مراد یہ ہے کہ اے اللہ! لوگوں کی حالت بدل دے اور بارش نازل فرما۔
➎ نیک اور متقی آدمی سے استسقاء کی نماز پڑھوانا اور دعا کروانا بہتر ہے۔ دیکھئے [صحيح بخاري 1010،]
➏ نیز دیکھئے [الموطأ ح 448، البخاري 1016، 1017]
➐ نماز استسقاء کے لئے کھلے علاقے کا انتخاب کرنا چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 305   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1506  
´امام کا استسقاء کے لیے عیدگاہ جانے کا بیان۔`
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ (جنہیں خواب میں اذان دکھائی گئی تھی) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استسقاء کی نماز پڑھنے کے لیے عید گاہ کی طرف نکلے۔ تو آپ نے قبلہ کی طرف رخ کیا، اور اپنی چادر پلٹی، اور دو رکعت نماز پڑھی۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ ابن عیینہ کی غلطی ہے ۱؎ عبداللہ بن زید جنہیں خواب میں اذان دکھائی گئی تھی وہ عبداللہ بن زید بن عبد ربہ ہیں، اور یہ جو استسقا کی حدیث روایت کر رہے ہیں عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الاستسقاء/حدیث: 1506]
1506۔ اردو حاشیہ:
➊ عبداللہ بن زید نامی دو صحابی ہیں۔ ایک عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی اور دوسرے عبداللہ بن زید بن عبدربہ۔ صرف عبداللہ بن زید کہا جائے تو شبہ ہو سکتا ہے کہ کون سے مراد ہیں؟ جیسا کہ حضرت سفیان بن عیینہ کو غلطی لگی، اس لیے امام صاحب نے وضاحت فرمائی کہ راویٔ حدیث اذان والے عبداللہ بن زید بن عبدربہ نہیں بلکہ یہ عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی ہیں۔
➋ بارش کی دعا، یعنی صلاۃ استسقاء کے لیے بستی سے باہر نکلنا سنت ہے، تاہم بامر مجبوری مسجد میں بھی ادا کی جا سکتی ہے۔ واللہ اعلم۔
چادرالٹانا یہ عمل بھی مسنون ہے۔ دراصل فعلی دعا ہے کہ یااللہ! جس طرح ہم نے اپنی چادروں کو پلٹ لیا ہے، تو بھی موجودہ صورت کو اسی طرح بدل دے۔ بارش برسا کر قحط سالی ختم کر دے اور تنگی کو خوش حالی میں بدل دے۔ چادر کا دایاں کنارہ بائیں جانب اور بایاں کنارہ دائیں جانب ڈال لیا جائے، نیز نچلا کنارہ اوپر اور اوپر والا کنارہ نیچے کر لیا جائے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1506   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1508  
´استسقاء کے لیے جب امام نکلے تو اس کی ہئیت کیسی ہو؟`
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استسقاء کی نماز پڑھی، اور آپ کے جسم مبارک پر ایک سیاہ چادر تھی۔ [سنن نسائي/كتاب الاستسقاء/حدیث: 1508]
1508۔ اردو حاشیہ: سیاہ اونی چادر بھی سادگی کے ذیل میں آتی ہے۔ یہ قیمت میں بھی معمولی ہوتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1508   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1510  
´استسقاء میں دعا کے وقت امام کا اپنی پیٹھ لوگوں کی طرف پھیرنے کا بیان۔`
عباد بن تمیم کے چچا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ استسقاء کی نماز کے لیے نکلے تو آپ نے اپنی چادر پلٹی، اور لوگوں کی جانب اپنی پیٹھ پھیری، اور دعا کی، پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، اور قرآت کی تو بلند آواز سے قرآت کی۔ [سنن نسائي/كتاب الاستسقاء/حدیث: 1510]
1510۔ اردو حاشیہ: دعائے استسقاء میں امام کو بھی قبلہ رخ ہونا چاہیے۔ باقی لوگ تو عام دعا میں بھی قبلہ رخ ہوتے ہیں تاکہ ایک دوسرے کی طرف منہ نہ ہو۔ اس طرح خشوع خضوع اعلیٰ درجے کا ہو گا۔ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے سے خشوع خضوع میں فرق آسکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1510   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1523  
´استسقاء کی نماز میں بلند آواز سے قرأت کرنے کا بیان۔`
عباد بن تمیم کے چچا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم استسقاء کے لیے نکلے، تو آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، ان میں آپ نے بلند آواز سے قرآت کی۔ [سنن نسائي/كتاب الاستسقاء/حدیث: 1523]
1523۔ اردو حاشیہ: مخصوص نمازیں (فرض نمازوں کے علاوہ) جو باجماعت پڑھی جاتی ہیں، خواہ دن کے وقت ہوں، ان میں قرأت جہراً ہی ہوتی ہے، مثلاً: جمعہ، عیدین، نمازکسوف، نمازاستسقاء اور یہی انسب ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1523   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1164  
´نماز استسقا اور اس کے احکام و مسائل۔`
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز استسقا پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر ایک سیاہ چادر تھی تو آپ نے اس کے نچلے کنارے کو پکڑنے اور پلٹ کر اسے اوپر کرنے کا ارادہ کیا جب وہ بھاری لگی تو اسے اپنے کندھے ہی پر پلٹ لیا۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1164]
1164۔ اردو حاشیہ:
چادر پلٹنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنے ہاتھوں سے کمر کے نیچے سے چادر کا دایاں کنارہ بائیں ہاتھ سے اور بائیاں کنارہ دائیں ہاتھ سے پکڑ کر اوپر کو لے آئیں۔ اس طرح چادر اوپر نیچے دائیں بائیں سب اطراف سے پلٹ جاتی ہے۔ چادر نہ اوڑھی ہو تو رومال ہی کے ساتھ یہ عمل کر لے تاکہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کا ثواب حاصل ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1164   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1167  
´آدمی استسقا میں اپنی چادر کس وقت پلٹے؟`
عبداللہ بن زید مازنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ کی طرف نکلے، اور (اللہ تعالیٰ سے) بارش طلب کی، اور جس وقت قبلہ رخ ہوئے، اپنی چادر پلٹی۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1167]
1167۔ اردو حاشیہ:
خطبے کے دوران میں دعا کے موقع پر یہ عمل بطور نیک فال مسنون ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1167   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 407  
´نماز استسقاء کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید گاہ میں منبر لے جانے کا حکم دیا، چنانچہ منبر عید گاہ میں لا کر رکھ دیا گیا۔ لوگوں سے ایک دن کا وعدہ کیا جس میں وہ سارے باہر نکلیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس وقت نکلے جب سورج کا کنارہ ظاہر ہوا۔ تشریف لا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھ گئے اور «الله اكبر» کہا اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش کی پھر (لوگوں سے مخاطب ہو کر) فرمایا تم لوگوں نے اپنے علاقوں کی خشک سالی کا شکوہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ تو تمہیں یہ حکم دے چکا ہے کہ اس سے دعا کرو وہ تمہاری دعا قبول فرمائے گا۔ پھر فرمایا تعریف اللہ ہی کے لیے سزاوار ہے جو کائنات کا پروردگار ہے۔ لوگوں کے حق میں بڑا مہربان اور ہمیشہ مہربان ہے۔ روز جزا کا مالک ہے۔ اللہ کے سوا دوسرا کوئی معبود نہیں۔ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ الٰہی! تو ہی اللہ ہے، تیرے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں۔ تو غنی ہے اور ہم فقیر و محتاج ہیں۔ ہم پر باران رحمت کا نزول فرما۔ جو کچھ تو ہمارے اوپر نازل فرمائے اسے ہمارے لیے روزی اور مدت دراز تک پہنچنے کا ذریعہ بنا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں دست مبارک اوپر اٹھائے کہ وہ بتدریج آہستہ آہستہ اوپر اٹھتے گئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی۔ پھر لوگوں کی جانب اپنی پشت کر کے کھڑے ہو گئے اور اپنی چادر کو پھیر کر پلٹایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے ہوئے تھے پھر لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور منبر سے نیچے تشریف لے آئے اور دو رکعت نماز پڑھائی۔ اسی لمحہ اللہ تعالیٰ نے آسمان پر بادل پیدا کیا۔ وہ بدلی گرجی اور چمکی اور بارش ہونے لگی۔ اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور اسے غریب کہا ہے اور اس کی سند نہایت عمدہ و جید ہے۔ صحیح بخاری میں عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہما کی روایت میں (تبدیلی چادر) کا قصہ اس طرح ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف رخ کیا اور دعا فرماتے رہے، پھر دو رکعت نماز ادا فرمائی۔ ان میں قرآت بلند آواز سے کی۔ اور دارقطنی میں ابو جعفر باقر کی مرسل روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر اس لیے پھیر کر بدلی کہ قحط سالی بھی اسی طرح پھر جائے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 407»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الصلاة، باب رفع اليدين في الاستسقاء، حديث:1173، وقصة التحويل: ذكرها البخاري، الاستسقاء، حديث:1024، ومرسل أبي جعفر أخرجه الدارقطني:2 /66، وسنده ضعيف، حفص بن غياث مدلس وعنعن، والسند مرسل.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز عید کے برعکس نماز استسقا کے موقع پر منبر باہر لے جانا جائز ہے۔
2. خطبۂاستسقا نماز سے پہلے پڑھا گیا اور استسقا کے لیے آپ نے دعا میں ہاتھ اتنے اوپر اٹھائے کہ بقول حضرت انس رضی اللہ عنہ میں نے رسول اللہ کو کسی موقع پر اتنے بلند ہاتھ اٹھائے ہوئے نہیں دیکھا۔
(صحیح البخاري‘ المناقب‘ باب صفۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم ‘ حدیث:۳۵۶۵‘ وصحیح مسلم‘ صلاۃ الاستسقاء‘ باب رفع الیدین بالدعاء في الاستسقاء‘ حدیث: ۸۹۶) امام نووی رحمہ اللہ نے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کے بارے میں تیس احادیث جمع کی ہیں۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا بھی مسنون ہے۔
3.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خطبے کا آغاز بسم اللہ سے نہیں بلکہ الحمد للہ سے کرنا مسنون ہے۔
اس کے علاوہ کسی دوسرے لفظ سے آغاز صحیح نہیں۔
سنن دارقطنی کی ابو جعفر باقر والی مرسل روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مستدرک حاکم اور بیہقی میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر اس لیے الٹی کہ قحط (خوشحالی میں) بدل جائے۔
اسے امام حاکم نے صحیح قرار دیا ہے اور امام ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے‘ دیکھیے: (المستدرک للحاکم:۱ / ۳۲۶‘ والسنن الکبرٰی للبیھقي:۳ / ۳۵۱) لہٰذا دارقطنی کی مرسل روایت سے اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ اسے موصولاً روایت کرنے والا راوی ثقہ ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت ابوجعفر باقر رحمہ اللہ» ‏‏‏‏ ابوجعفر باقر (قاف کے نیچے کسرہ) کی کنیت ہے۔
نام محمد بن علی زین العابدین بن حسین بن علی بن ابی طالب ہے۔
امامیہ اثنا عشریہ شیعہ کے عقیدے کے مطابق بارہ ائمہ میں سے ان کا پانچواں نمبر ہے۔
انھیں باقر اس لیے کہتے ہیں کہ تبقر کے معنی وسعت علمی کے ہیں اور ان کا علم بڑا وسیع تھا‘ بڑے ماہر و متبحر عالم تھے۔
۵۶ ہجری میں پیدا ہوئے۔
۱۱۷ ہجری میں تریسٹھ برس کی عمر میں وفات پائی اور جنت البقیع کے قبرستان میں دفن کیے گئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 407   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1267  
´نماز استسقا کا بیان۔`
عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید گاہ کی جانب نماز استسقاء کے لیے نکلے، آپ نے قبلہ کی طرف رخ کیا، اپنی چادر کو پلٹا، اور دو رکعت نماز پڑھائی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1267]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
چادر پلٹنا زبانی دعا کے ساتھ ایک قسم کی عملی دعا ہے۔
کہ اے اللہ! جس طرح ہم نے اپنے کپڑوں کی حالت تبدیل کی ہے۔
تو بھی اس طرح ہماری حالت تبدیل کرکےقحط کے بجائےرحمت نازل فرمادے۔

(2)
چادر پلٹنے میں کئی چیزیں شامل ہیں۔

(الف)
       دایاں حصہ بایئں طرف اور بایئاں حصہ دایئں طرف کرنا جس طرح اس روایت میں ہے۔

(ب)
         پائوں کی طرف والا حصہ سر کی طرف اور سر والا پاؤں کی طرف کرنا جیسے کہ سنن ابوداؤد میں مروی ہے۔ (سنن ابی داؤد، الصلاۃ، صلاۃ الإستسقاء، حدیث: 1164)

(ج)
         جوطرف جسم سے ملی ہوئی ہو اسے باہر کرنا اور باہر والی طرف کو اندر کرنا۔

(3)
استسقاء کی نماز کے بعد ہاتھوں کی پشت چہرے کی طرف کرکے دعا مانگنا مسنون ہے۔ (صحیح مسلم، صلاۃ الإستسقاء، باب رفع الیدین بالدعاء فی الاستسقاء، حدیث: 896)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1267   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1009  
1009- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: بے شک اللہ تعالیٰ صبح کے وقت یا شام کے وقت کسی قوم کو کوئی نعمت عطا کرتا ہے، تو ان میں سے کچھ لوگ ا س کا انکار کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں: ہم پر فلاں، فلاں ستارے کی وجہ سے بارش نازل ہوئی ہے۔ محمد بن ابراہیم نامی راوی کہتے ہیں: میں نے یہ روایت سعید بن مسیب کو سنائی تو انہوں نے بتایا: انہوں نے یہ روایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنی ہے۔ تاہم ان صاحب نے ہمیں یہ بتایا ہے، جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس وقت موجود تھے، جب انہوں نے لوگوں کے لیے بارش کی دعا مانگی تھی۔ تو سیدنا عمر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1009]
فائدہ:
انسان کا عقیدہ مضبوط ہونا چاہیے کسی بھی چیز کی نسبت غیر اللہ کی طرف نہ کرے، عمو ماً ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کسی کے میلے یا عرس پر بارش ہو تو کمزور عقیدے والے لوگ یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ فلاں بابا صاحب کے میلے یا عرس کی وجہ سے بارش ہوئی ہے، اور یہ جملہ واضح شرک ہے۔ نعمت کا حصول یا نعمت کے چھن جانے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1008   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2073  
عباد بن تمیم نے اپنے چچا سے سنا اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن بارش کی دعا مانگنے کے لیے نکلے۔ اپنی پشت لوگوں کی طرف کرکے اللہ سے دعا مانگتے رہے اور رخ قبلہ کی طرف تھا اور اپنی چادر پلٹی، پھر دورکعت نماز ادا کی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2073]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

بارش طلب کرنے کی تین صورتیں ہیں:

انفرادی یا اجتماعی طور پردعا کی جائے۔

خطبہ جمعہ کے دوران دعا کرنا یا فرض نماز کے بعد دعا کرنا۔

باہر کھلے میدان میں نکل کر خطبہ دینا اور تمام لوگوں کے ساتھ مل کردعا کرنا۔

جب کھلے میدان میں نکل کر نماز استسقاء پڑھیں گے تو جمہور علماء کا نظریہ یہ ہے کہ پہلے نماز پڑھیں گے پھر خطبہ دیا جائے گا۔
شوافع رحمۃ اللہ علیہ اور مالکیہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک خطبے دو ہیں اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کا نظریہ بھی یہی ہے حنابلہ کے نزدیک خطبہ ایک ہے اور امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کا موقف بھی یہی ہے۔
اور دعا خطبہ میں امام قبلہ رخ ہو کر کرے گا اس میں ہاتھ اٹھائےگا مقتدی بھی اس کے ساتھ شریک ہوں گے۔
اور آخر میں امام اور مقتدی اپنی اپنی چادر پلٹیں گے اور خطبہ نماز سے پہلے بھی ہو سکتا ہے۔
اس میں توبہ واستغفار اور صدقہ وخیرات کی تلقین ہو گی اوردعا بہرحال خطبہ میں ہی ہو گی اور چادر بھی یہیں پلٹی جائےگی۔
خطبہ نمازسے پہلے ہو یا بعد میں ہو۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اورامام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور صاحبین کے نزدیک نماز استسقاء سنت ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک استسقاء کےلیے نماز نہیں ہے صرف کھلے میدان میں نکل کر دعا کی جائے گی اورچادر بھی نہیں پلٹی جائے گی۔

شوافع رحمۃ اللہ علیہ اور حنابلہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نماز استسقاء عیدین کی طرح ہے یعنی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری میں پانچ اور جمہور علماء کے نزدیک نمازفجر کی طرح ہے۔
اورامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک انفرادی طور پر نماز استسقاء پڑھی جا سکتی ہے اور قراءت کے بلند ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2073   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1005  
1005. حضرت عباد بن تمیم ؓ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ بارش کی دعا کے لیے باہر تشریف لے گئے اور وہاں جا کر اپنی چادر کو پلٹا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1005]
حدیث حاشیہ:
چادر الٹنے کی کیفیت آگے آئے گی اور اہلحدیث اور اکثر فقہاءکا یہ قول ہے کہ امام استسقاءکے لیے نکلے تو دو رکعت نماز پڑھے پھر دعا اور استغفار کرے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1005   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1012  
1012. حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ عیدگاہ کی طرف تشریف لے گئے اور بارش کے لیے دعا کی۔ آپ قبلہ رو ہوئے، اپنی چادر پلٹی اور دو رکعت ادا کیں۔ ابوعبداللہ (امام بخاری) کہتے ہیں: شیخ ابن عیینہ کہا کرتے تھے کہ مذکورہ عبداللہ بن زید صاحب اذان ہیں۔ لیکن یہ ان کا وہم ہے کیونکہ یہ عبداللہ بن زید عاصم مازنی ہیں جو انصار کے قبیلہ مازن سے تعلق رکھتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1012]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
یہ مضمون احادیث کی اور کتابوں میں بھی موجود ہے کہ دعائے استسقاء میں آنحضرت ﷺ نے چادرکا نیچے کا کونا پکڑ کر اس کو الٹا اور چادر کو دائیں جانب سے گھما کر بائیں طرف ڈال لیا۔
اس میں اشارہ تھا کہ اللہ اپنے فضل سے ایسے ہی قحط کی حالت کو بد ل دے گا۔
اب بھی دعائے استسقاء میں اہلحدیث کے ہاں یہی مسنون طریقہ معمول ہے، مگر احناف اس کے قائل نہیں ہیں۔
اسی حدیث میں استسقاء کی نماز دو رکعت کا بھی ذکر ہے، استسقاءکی نماز بھی نماز عید کی طرح ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1012   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1026  
1026. حضرت عباد بن تمیم ؓ کے چچا ہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے دعائے استسقاء کے موقع پر دو رکعت نماز پڑھی اور اپنی چادر کو پلٹا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1026]
حدیث حاشیہ:
استسقاءکی دورکعت نماز سنت ہے۔
امام مالک، امام شافعی، امام احمد اور جمہور کا یہی قول ہے۔
حضرت امام ابو حنیفہ ؒ استسقاءکے لیے نماز ہی نہیں تسلیم کرتے، مگر صاحبین نے اس بارے میں حضرت امام کی مخالفت کی ہے اور صلوۃ استسقاء کے سنت ہونے کا اقرار کیا ہے۔
صاحب عرف الشذی نے اس بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔
حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مد ظلہ العالی جملہ اختلافات کی تشریح کے بعد فرماتے ہیں:
قد عرفت بما ذكرنا وجه تخبط الحنفية في بيان مذهب إمامهم، وهو أنه قد نفى الصلاة في الاستسقاء مطلقاً كما هو مصرح في كلام أبي يوسف ومحمد في بيان مذهب أبي حنيفة، ولا شك أن قوله هذا مخالف ومنابذ للسنة الصحيحة الثابتة الصريحة، فاضطربت الحنفية لذلك وتخبطوا في تشريح مذهبه وتعليله حتى اضطر بعضهم إلى الاعتراف بأن الصلاة في الاستسقاء بجماعة سنة، وقال:
لم ينكر أبوحنيفة سنيتها واستحبابها، وإنما أنكر كونها سنة مؤكدة، وهذا كما ترى من باب توجيه الكلام بما لا يرضى به قائله؛ لأنه لو كان الأمر كذلك لم يكن بينه وبين صاحبيه خلاف، مع أنه قد صرح جميع الشراح وغيرهم ممن كتب في اختلاف الأئمة بالخلاف بينه وبين الجمهور في هذه المسألة. قال شيخنا في شرح الترمذي:
قول الجمهور هو الصواب والحق؛ لأنه قد ثبت صلاته - صلى الله عليه وسلم - ركعتين في الاستسقاء من أحاديث كثيرة صحيحة۔
(مرعاة، ج: 2 ص: 390)
خلاصہ یہ کہ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے مطلقا صلوۃ الاستسقاء کا انکار کیا ہے تم پر واضح ہو گیا ہوگا کہ اس بارے میں حنفیہ کو کس قدر پریشان ہونا پڑا ہے حالانکہ حضرت امام ابو یوسف ؒ وحضرت امام محمد کے کلام سے صراحتا ثابت ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کا یہی مذہب ہے اور کوئی شک نہیں کہ آپ کا قول سنت صحیحہ کے صراحتا خلاف ہے۔
اس لیے اس کی تاویل اور تشریح اور تعلیل بیان کرنے میں علمائے احناف کو بڑی مشکل پیش آئی ہے حتیٰ کہ بعض نے اعتراف کیا ہے کہ نماز استسقاءجماعت کے ساتھ سنت ہے اور حضرت امام ابو حنیفہ ؒ نے صرف سنت مؤکدہ ہونے کا انکار کیا ہے۔
یہ قائل کے قول کی ایسی توجیہ ہے جو خود قائل کو بھی پسند نہیں ہے۔
اگر حقیقت یہی ہوتی تو صاحبین ؒ اپنے امام سے اختلاف نہ کرتے۔
اختلافات ائمہ بیان کرنے والوں نے اپنی کتابوں میں صاف لکھا ہے کہ صلوۃ استسقاءکے بارے میں حضرت امام ابو حنیفہ کا قول جمہور امت کے خلاف ہے۔
ہمارے شیخ حضرت مولانا عبد الرحمن مبارک پوری فرماتے ہیں کہ جمہور کا قول ہی درست ہے اور یہی حق ہے کہ نماز استسقاءکی دو رکعتیں رسول کریم ﷺ کی سنت ہیں، جیسا کہ بہت سی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔
پھر حضرت مولانا مرحوم نے اس سلسلہ کی بیشتر احادیث کو تفصیل سے ذکر فرمایا ہے، شائقین مزید تحفۃ الاحوذی کا مطالعہ فرمائیں۔
حضرت امام شافعی ؒ کے نزدیک استسقاء کی دو رکعتیں عیدین کی نمازوں کی طرح تکبیر زوائد کے ساتھ ادا کی جائیں مگر جمہور کے نزدیک اس نماز میں تکبیرات زوائد نہیں ہیں بلکہ ان کو اسی طرح ادا کیا جا ئے جس طرح دیگر نمازیں ادا کی جاتی ہیں، قول جمہور کو ہی ترجیح حاصل ہے۔
نماز استسقاءکے خطبہ کے لیے منبر کا استعمال بھی مستحب ہے۔
جیسا کہ حدیث عائشہ ؓ میں صراحت کے ساتھ موجود ہے جسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔
اس میں صاف فقعد علی المنبر کے لفظ موجود ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1026   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1027  
1027. حضرت عباد بن تمیم ؓ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ دعائے استسقاء کے لیے عیدگاہ تشریف لے گئے اور قبلہ رو ہو کر دو رکعتیں ادا کیں، پھر اپنی چادر کو پلٹا۔ راوی کہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی چادر کے دائیں کنارے کو بائیں جانب کر لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1027]
حدیث حاشیہ:
افضل تو یہ ہے کہ جنگل میدان میں استسقاءکی نماز پڑھے کیونکہ وہاں سب آسکتے ہیں اور عیدگاہ اور مسجد میں بھی درست ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1027   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6343  
6343. حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول ﷺ نماز استسقا کے لیے اس عیدگاہ کی طرف تشریف لے گئے۔ آپ نے وہاں بارش کے لیے دعا کی، پھر آپ قبلہ رو ہوگئے اور اپنی چادر کو پلٹا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6343]
حدیث حاشیہ:
نماز استسقاء کتاب الصلوٰۃ سے معلوم کی جا سکتی ہے اس میں آخر میں چادر پلٹنے کا طریقہ دیکھا جا سکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6343   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1005  
1005. حضرت عباد بن تمیم ؓ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ بارش کی دعا کے لیے باہر تشریف لے گئے اور وہاں جا کر اپنی چادر کو پلٹا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1005]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس مقام پر یہ حدیث مختصر بیان فرمائی ہے۔
تفصیلی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ عیدگاہ تشریف لے گئے، دعا کے وقت لوگوں کی طرف پیٹھ کر کے قبلے کی طرف منہ کر لیا، کھڑے ہو کر دعا فرمائی، پھر دو رکعت پڑھائیں، ان میں بآواز بلند قراءت کی، اور اپنی چادر کو پلٹا، گھر واپس آنے سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ نے رحم و کرم کرتے ہوئے بارش کا نزول جاری فرما دیا۔
(2)
امام ابو حنیفہ ؒ کے سوا تمام علمائے امت کا اتفاق ہے کہ استسقاء کے لیے نماز کا اہتمام کیا جا سکتا ہے، اس کے لیے باہر کھلے میدان کا انتخاب کیا جائے۔
(فتح الباري: 634/2)
چادر پلٹنے کی کیفیت و حکمت ہم آئندہ بیان کریں گے۔
إن شاءاللہ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1005   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1012  
1012. حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ عیدگاہ کی طرف تشریف لے گئے اور بارش کے لیے دعا کی۔ آپ قبلہ رو ہوئے، اپنی چادر پلٹی اور دو رکعت ادا کیں۔ ابوعبداللہ (امام بخاری) کہتے ہیں: شیخ ابن عیینہ کہا کرتے تھے کہ مذکورہ عبداللہ بن زید صاحب اذان ہیں۔ لیکن یہ ان کا وہم ہے کیونکہ یہ عبداللہ بن زید عاصم مازنی ہیں جو انصار کے قبیلہ مازن سے تعلق رکھتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1012]
حدیث حاشیہ:
(1)
بارانِ رحمت کی دعا کے وقت چادر پلٹنے کے لیے دو لفظ استعمال ہوئے ہیں:
قلب اور تحویل۔
قلب یہ ہے کہ چادر کے اوپر والا حصہ نیچے اور نیچے والا اوپر ہو جائے اور تحویل یہ ہے کہ دائیں جانب والا حصہ بائیں جانب اور بائیں جانب والا دائیں جانب آ جائے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے عنوان میں لفظ تحویل استعمال کیا ہے جبکہ روایات میں قلب کا لفظ ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے نزدیک دونوں لفظ ہم معنی ہیں اور قلب بھی تحویل ہی کے معنی میں ہے۔
بعض روایات میں لفظ تحویل بھی استعمال ہوا ہے۔
روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تحویل رداء، دورانِ خطبہ میں دعا کرنے سے پہلے ہوئی تھی۔
چادر کو اس طرح پلٹا جائے کہ نیچے کا کونا پکڑ کر اسے الٹا کیا جائے، پھر اسے دائیں جانب سے گھما کر بائیں جانب ڈال لیا جائے۔
(3)
اس میں اشارہ ہے کہ اللہ اپنے فضل سے ایسے ہی قحط کی حالت کو بدل دے گا۔
(فتح الباري: 643/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1012   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1023  
1023. حضرت عباد بن تمیم ؓ کے چچا۔۔ اور وہ نبی ﷺ کے صحابی تھے۔۔ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ بارش کی دعا کرنے کے لیے لوگوں کے ہمراہ باہر تشریف لے گئے۔ آپ نے کھڑے ہو کر دعا کی، پھر قبلے کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنی چادر کو الٹ پلٹ کیا، چنانچہ لوگوں پر خوب بارش ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1023]
حدیث حاشیہ:
(1)
دعا کرتے وقت عجز و انکسار مقصود ہوتا ہے، اس لیے بارش کے لیے کھڑے ہو کر دعا کرنی چاہیے۔
(2)
حضرت عبداللہ بن یزید ؓ کی موقوف روایت کے بعد مرفوع روایت بیان کی گئی ہے تاکہ موقوف سے اس کی تفسیر ہو جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر بارش کے لیے دعا کی تھی، منبر پر کھڑے نہیں ہوئے تھے۔
(3)
عبداللہ بن یزید سیدنا عبداللہ بن زبیر ؓ کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے، انہوں نے انہیں حکم دیا تھا کہ لوگوں کے لیے نماز استسقاء کا اہتمام کریں، چنانچہ لوگ باہر میدان میں گئے۔
ان کے ہمراہ حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہم تھے۔
سب نے وہاں بارش کی دعا کی تھی۔
یہ واقعہ 64 ہجری کا ہے۔
(4)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خطبے کے بعد نماز استسقاء پڑھی جائے جبکہ جمہور کا موقف ہے کہ نماز کا اہتمام پہلے ہونا چاہیے۔
ہمارے نزدیک دونوں طرح جائز ہے۔
(فتح الباري: 862/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1023   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1025  
1025. حضرت عباد بن تمیم ؓ کے چچا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا؛ جس دن نبی ﷺ بارش کی دعا کے لیے باہر تشریف لے گئے تو میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے لوگوں کی طرف اپنی پیٹھ پھیری اور قبلے کی طرف منہ کر کے دعا کرنے لگے، پھر اپنی چادر کو پلٹا۔ اس کے بعد آپ نے ہمیں دو رکعت پڑھائیں جس میں بآواز بلند قراءت کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1025]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث میں صرف پشت پھیرنے کا بیان ہے جبکہ عنوان کیفیت سے متعلق ہے، اس لیے علامہ زین بن منیرؓ نے لفظ كيف کو استفہام پر محمول کیا ہے۔
حدیث میں تحویل کے متعلق وضاحت نہیں کہ دائیں جانب سے پھر کر قبلہ کی طرف منہ کیا یا بائیں جانب سے مڑ کر، اس لیے استفہام کی ضرورت پڑی۔
اس کی وضاحت نہیں ہے، اس لیے امام کو ہر دو جانب سے پھرنے کا اختیار ہے لیکن خارجی قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے دائیں جانب سے مڑ کر قبلے کی طرف منہ کیا ہو گا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کو اکثر معاملات میں دائیں جانب پسند ہوتی تھی۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب رسول اللہ ﷺ وعظ و نصیحت سے فارغ ہو گئے اور دعا کا ارادہ کیا تو اس وقت اپنی پشت لوگوں کی طرف پھیر کر قبلے کی جانب منہ کیا۔
(فتح الباري: 684/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1025   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1026  
1026. حضرت عباد بن تمیم ؓ کے چچا ہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے دعائے استسقاء کے موقع پر دو رکعت نماز پڑھی اور اپنی چادر کو پلٹا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1026]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے اس سلسلے میں کچھ تفصیل مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ بڑی تواضع کے ساتھ، سادہ لباس میں، نہایت عجز و انکسار اور خشوع خضوع کے ساتھ نماز کے لیے باہر تشریف لے گئے۔
عید کی نماز کی طرح دو رکعت پڑھائیں، تمہارے عام خطبے کی طرح خطبہ ارشاد نہیں فرمایا بلکہ آپ نے خطبے کی حالت میں دعا، تضرع اور اللہ کی عظمت و کبریائی بیان کی۔
(جامع الترمذي، الجمعة، حدیث: 558)
دو رکعت سے زیادہ نماز پڑھنا ثابت نہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1026   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1027  
1027. حضرت عباد بن تمیم ؓ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ دعائے استسقاء کے لیے عیدگاہ تشریف لے گئے اور قبلہ رو ہو کر دو رکعتیں ادا کیں، پھر اپنی چادر کو پلٹا۔ راوی کہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی چادر کے دائیں کنارے کو بائیں جانب کر لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1027]
حدیث حاشیہ:
(1)
بارش کی نماز اور دعا میں اکثر لوگوں نے شمولیت کرنی ہوتی ہے، اس لیے کھلے میدان کا انتخاب کیا جائے۔
اگر عیدگاہ یا مسجد میں اس کا اہتمام کر لیا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں۔
(2)
اس حدیث میں چادر کو الٹ پلٹ کرنے کا طریقہ بھی ذکر ہوا ہے کہ اس کے دائیں کنارے کو بائیں کندھے پر اور بائیں کنارے کو دائیں کندھے پر کر لیا جائے، نیز ایک حدیث میں چادر کے اوپر والے حصے کو نیچے اور نیچے والے کو اوپر کرنے کا ذکر بھی ہے۔
واللہ أعلم۔
(3)
اس سے پہلے بھی امام بخاری ؒ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا:
دعائے استسقاء کے لیے باہر جانا۔
اس میں عموم تھا۔
مذکورہ عنوان میں جہت خروج کی تعیین ہے۔
(فتح الباري: 884/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1027   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1028  
1028. حضرت عبداللہ بن زید انصاری ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نماز استسقاء کے لیے عیدگاہ تشریف لے گئے اور جب دعا کرنے لگے تو قبلے کی طرف منہ کر لیا اور اپنی چادر کو الٹ پلٹ کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1028]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام جب نماز استسقاء کا اہتمام کرے گا تو دوران خطبہ میں تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو گا لیکن بارش کی دعا کرتے وقت قبلے کی طرف منہ کرنا ہو گا کیونکہ یہ افضل ہے، البتہ خطبۂ جمعہ کے دوران بارش کی دعا کرتے وقت قبلہ رو ہونا ضروری نہیں اور نہ چادر پلٹنے ہی کی ضرورت ہے۔
(2)
یہ حدیث حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے مروی ہے۔
اس سے پہلے پاؤں پر کھڑے ہو کر دعا کرنے کے بیان میں جو حدیث ہے اسے بیان کرنے والے حضرت عبداللہ بن زید ؓ ہیں۔
چونکہ باپ کے نام میں صرف یا کا فرق ہے بقیہ نام متحد ہے، اس لیے ممکن تھا کہ کوئی وہم کا شکار ہو جائے اور دونوں کو ایک خیال کرے، اس لیے امام بخاری ؒ نے تنبیہ فرما دی کہ مذکورہ حدیث کے راوی عبداللہ بن زید مازنی جبکہ پہلی حدیث کو بیان کرنے والے عبداللہ بن یزید کوفی ہیں۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 665/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1028   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6343  
6343. حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول ﷺ نماز استسقا کے لیے اس عیدگاہ کی طرف تشریف لے گئے۔ آپ نے وہاں بارش کے لیے دعا کی، پھر آپ قبلہ رو ہوگئے اور اپنی چادر کو پلٹا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6343]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رو ہونے سے پہلے بارش کے لیے دعا کی، لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان سے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے انہوں نے دوسرے مقام پر بیان کیا ہے، چنانچہ راوئ حدیث کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دعا کا ارادہ کیا تو قبلہ رو ہو گئے اور اپنی چادر کو پلٹا۔
(صحیح البخاري، الاستسقاء، حدیث: 1028)
اس حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے:
(باب استقبال القبلة في الاستسقاء)
دعائے استسقاء کرتے وقت قبلہ رو ہونا۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حدیث انس رضی اللہ عنہ اور اس حدیث میں تطبیق کی یہ صورت ہے کہ دوران خطبۂ جمعہ میں اگر بارش کی دعا کی جائے تو قبلہ رو ہونے کی ضرورت نہیں لیکن جب اس کے علاوہ بارش کی دعا کی جائے تو قبلہ رو ہونا چاہیے کیونکہ یہ دعا کے آداب میں سے ہے۔
(فتح الباري: 173/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6343