حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبَّادَ بْنَ تَمِيمٍ يُحَدِّثُ أَبَاهُ عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى الْمُصَلَّى فَاسْتَسْقَى فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ وَقَلَبَ رِدَاءَهُ، وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: كَانَ ابْنُ عُيَيْنَةَ يَقُولُ: هُوَ صَاحِبُ الْأَذَانِ وَلَكِنَّهُ، وَهْمٌ لِأَنَّ هَذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَاصِمٍ الْمَازِنِيُّ مَازِنُ الْأَنْصَارِ.
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 180
´نماز استسقاءکا طریقہ`
«. . . 305- مالك عن عبد الله بن أبى بكر بن حزم أنه سمع عباد بن تميم يقول: سمعت عبد الله بن زيد المازني يقول: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المصلى فاستسقى وحول رداءه حين استقبل القبلة. . . .»
”. . . سیدنا عبداللہ بن زید المازنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جائے نماز (عید گاہ) کی طرف تشریف لے گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز استسقاء پڑھ کر) پانی (بارش) کے لیے دعا مانگی اور جب (دعا کے لیے) قبلہ رخ ہوئے تو اپنی چادر الٹ دی . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 180]
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 894، من حديث ما لك به]
تفقه:
➊ نماز استسقاء سنت ہے۔ استسقاء پانی یعنی بارش مانگنے کو کہتے ہیں۔
➋ عباد بن تمیم رحمہ اللہ کے چچا سیدنا عبداللہ بن زید بن عاصم المازنی الانصاری رضی اللہ عنہ کی اس روایت کی دوسری سند میں آیا ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دن دیکھا جب آپ استسقاء کے لئے نکلے، پھر آپ نے لوگوں کی طرف پیٹھ پھیری اور دعا کرتے ہوئے قبلہ کی طرف رخ کیا پھر آپ نے اپنی چادر پلٹ دی پھر آپ نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں جن میں جہری قرأت کی۔ [صحيح بخاري: 1025 ميں مسلم: 894]
● اس حدیث سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ جماعت کے ساتھ استسقاء کی نماز مسنون ہے لیکن اس کے برخلاف فقہ حنفی کی کتاب الہدایہ میں لکھا ہوا ہے: «ليس فى الاستسقاء صلوة مسنونة فى جماعة» (امام ابوحنیفہ نے کہا:) استسقاء کے موقع پر نماز با جماعت مسنون نہیں ہے۔ (ج 1 ص176، باب الاستسقاء)!!
➌ دعا کرتے وقت ہاتھ کی پشت آسمان کی طرف ہو۔ [صحيح مسلم: 895]
ہتھیلیاں چہرے کے سامنے ہوں اور ہاتھ سر سے اونچے نہ ہوں۔ [صحيح ابن حبان، الاحسان: 876 وسنده صحیح سنن ابي داود: 1168]
➍ چادر پلٹنے سے مراد یہ ہے کہ اے اللہ! لوگوں کی حالت بدل دے اور بارش نازل فرما۔
➎ نیک اور متقی آدمی سے استسقاء کی نماز پڑھوانا اور دعا کروانا بہتر ہے۔ دیکھئے [صحيح بخاري 1010،]
➏ نیز دیکھئے [الموطأ ح 448، البخاري 1016، 1017]
➐ نماز استسقاء کے لئے کھلے علاقے کا انتخاب کرنا چاہئے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 305
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1506
´امام کا استسقاء کے لیے عیدگاہ جانے کا بیان۔`
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ (جنہیں خواب میں اذان دکھائی گئی تھی) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استسقاء کی نماز پڑھنے کے لیے عید گاہ کی طرف نکلے۔ تو آپ نے قبلہ کی طرف رخ کیا، اور اپنی چادر پلٹی، اور دو رکعت نماز پڑھی۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ ابن عیینہ کی غلطی ہے ۱؎ عبداللہ بن زید جنہیں خواب میں اذان دکھائی گئی تھی وہ عبداللہ بن زید بن عبد ربہ ہیں، اور یہ جو استسقا کی حدیث روایت کر رہے ہیں عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الاستسقاء/حدیث: 1506]
1506۔ اردو حاشیہ:
➊ عبداللہ بن زید نامی دو صحابی ہیں۔ ایک عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی اور دوسرے عبداللہ بن زید بن عبدربہ۔ صرف عبداللہ بن زید کہا جائے تو شبہ ہو سکتا ہے کہ کون سے مراد ہیں؟ جیسا کہ حضرت سفیان بن عیینہ کو غلطی لگی، اس لیے امام صاحب نے وضاحت فرمائی کہ راویٔ حدیث اذان والے عبداللہ بن زید بن عبدربہ نہیں بلکہ یہ عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی ہیں۔
➋ بارش کی دعا، یعنی صلاۃ استسقاء کے لیے بستی سے باہر نکلنا سنت ہے، تاہم بامر مجبوری مسجد میں بھی ادا کی جا سکتی ہے۔ واللہ اعلم۔
➌ ”چادرالٹانا“ یہ عمل بھی مسنون ہے۔ دراصل فعلی دعا ہے کہ یااللہ! جس طرح ہم نے اپنی چادروں کو پلٹ لیا ہے، تو بھی موجودہ صورت کو اسی طرح بدل دے۔ بارش برسا کر قحط سالی ختم کر دے اور تنگی کو خوش حالی میں بدل دے۔ چادر کا دایاں کنارہ بائیں جانب اور بایاں کنارہ دائیں جانب ڈال لیا جائے، نیز نچلا کنارہ اوپر اور اوپر والا کنارہ نیچے کر لیا جائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1506
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1508
´استسقاء کے لیے جب امام نکلے تو اس کی ہئیت کیسی ہو؟`
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استسقاء کی نماز پڑھی، اور آپ کے جسم مبارک پر ایک سیاہ چادر تھی۔ [سنن نسائي/كتاب الاستسقاء/حدیث: 1508]
1508۔ اردو حاشیہ: سیاہ اونی چادر بھی سادگی کے ذیل میں آتی ہے۔ یہ قیمت میں بھی معمولی ہوتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1508
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1510
´استسقاء میں دعا کے وقت امام کا اپنی پیٹھ لوگوں کی طرف پھیرنے کا بیان۔`
عباد بن تمیم کے چچا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ استسقاء کی نماز کے لیے نکلے تو آپ نے اپنی چادر پلٹی، اور لوگوں کی جانب اپنی پیٹھ پھیری، اور دعا کی، پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، اور قرآت کی تو بلند آواز سے قرآت کی۔ [سنن نسائي/كتاب الاستسقاء/حدیث: 1510]
1510۔ اردو حاشیہ: دعائے استسقاء میں امام کو بھی قبلہ رخ ہونا چاہیے۔ باقی لوگ تو عام دعا میں بھی قبلہ رخ ہوتے ہیں تاکہ ایک دوسرے کی طرف منہ نہ ہو۔ اس طرح خشوع خضوع اعلیٰ درجے کا ہو گا۔ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے سے خشوع خضوع میں فرق آسکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1510
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1523
´استسقاء کی نماز میں بلند آواز سے قرأت کرنے کا بیان۔`
عباد بن تمیم کے چچا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم استسقاء کے لیے نکلے، تو آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، ان میں آپ نے بلند آواز سے قرآت کی۔ [سنن نسائي/كتاب الاستسقاء/حدیث: 1523]
1523۔ اردو حاشیہ: مخصوص نمازیں (فرض نمازوں کے علاوہ) جو باجماعت پڑھی جاتی ہیں، خواہ دن کے وقت ہوں، ان میں قرأت جہراً ہی ہوتی ہے، مثلاً: جمعہ، عیدین، نمازکسوف، نمازاستسقاء اور یہی انسب ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1523
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1164
´نماز استسقا اور اس کے احکام و مسائل۔`
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز استسقا پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر ایک سیاہ چادر تھی تو آپ نے اس کے نچلے کنارے کو پکڑنے اور پلٹ کر اسے اوپر کرنے کا ارادہ کیا جب وہ بھاری لگی تو اسے اپنے کندھے ہی پر پلٹ لیا۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1164]
1164۔ اردو حاشیہ:
چادر پلٹنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنے ہاتھوں سے کمر کے نیچے سے چادر کا دایاں کنارہ بائیں ہاتھ سے اور بائیاں کنارہ دائیں ہاتھ سے پکڑ کر اوپر کو لے آئیں۔ اس طرح چادر اوپر نیچے دائیں بائیں سب اطراف سے پلٹ جاتی ہے۔ چادر نہ اوڑھی ہو تو رومال ہی کے ساتھ یہ عمل کر لے تاکہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کا ثواب حاصل ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1164
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1167
´آدمی استسقا میں اپنی چادر کس وقت پلٹے؟`
عبداللہ بن زید مازنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ کی طرف نکلے، اور (اللہ تعالیٰ سے) بارش طلب کی، اور جس وقت قبلہ رخ ہوئے، اپنی چادر پلٹی۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1167]
1167۔ اردو حاشیہ:
خطبے کے دوران میں دعا کے موقع پر یہ عمل بطور نیک فال مسنون ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1167
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1005
1005. حضرت عباد بن تمیم ؓ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ بارش کی دعا کے لیے باہر تشریف لے گئے اور وہاں جا کر اپنی چادر کو پلٹا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1005]
حدیث حاشیہ:
چادر الٹنے کی کیفیت آگے آئے گی اور اہلحدیث اور اکثر فقہاءکا یہ قول ہے کہ امام استسقاءکے لیے نکلے تو دو رکعت نماز پڑھے پھر دعا اور استغفار کرے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1005
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1026
1026. حضرت عباد بن تمیم ؓ کے چچا ہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے دعائے استسقاء کے موقع پر دو رکعت نماز پڑھی اور اپنی چادر کو پلٹا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1026]
حدیث حاشیہ:
استسقاءکی دورکعت نماز سنت ہے۔
امام مالک، امام شافعی، امام احمد اور جمہور کا یہی قول ہے۔
حضرت امام ابو حنیفہ ؒ استسقاءکے لیے نماز ہی نہیں تسلیم کرتے، مگر صاحبین نے اس بارے میں حضرت امام کی مخالفت کی ہے اور صلوۃ استسقاء کے سنت ہونے کا اقرار کیا ہے۔
صاحب عرف الشذی نے اس بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔
حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مد ظلہ العالی جملہ اختلافات کی تشریح کے بعد فرماتے ہیں:
قد عرفت بما ذكرنا وجه تخبط الحنفية في بيان مذهب إمامهم، وهو أنه قد نفى الصلاة في الاستسقاء مطلقاً كما هو مصرح في كلام أبي يوسف ومحمد في بيان مذهب أبي حنيفة، ولا شك أن قوله هذا مخالف ومنابذ للسنة الصحيحة الثابتة الصريحة، فاضطربت الحنفية لذلك وتخبطوا في تشريح مذهبه وتعليله حتى اضطر بعضهم إلى الاعتراف بأن الصلاة في الاستسقاء بجماعة سنة، وقال:
لم ينكر أبوحنيفة سنيتها واستحبابها، وإنما أنكر كونها سنة مؤكدة، وهذا كما ترى من باب توجيه الكلام بما لا يرضى به قائله؛ لأنه لو كان الأمر كذلك لم يكن بينه وبين صاحبيه خلاف، مع أنه قد صرح جميع الشراح وغيرهم ممن كتب في اختلاف الأئمة بالخلاف بينه وبين الجمهور في هذه المسألة. قال شيخنا في شرح الترمذي:
قول الجمهور هو الصواب والحق؛ لأنه قد ثبت صلاته - صلى الله عليه وسلم - ركعتين في الاستسقاء من أحاديث كثيرة صحيحة۔
(مرعاة، ج: 2 ص: 390)
خلاصہ یہ کہ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے مطلقا صلوۃ الاستسقاء کا انکار کیا ہے تم پر واضح ہو گیا ہوگا کہ اس بارے میں حنفیہ کو کس قدر پریشان ہونا پڑا ہے حالانکہ حضرت امام ابو یوسف ؒ وحضرت امام محمد کے کلام سے صراحتا ثابت ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کا یہی مذہب ہے اور کوئی شک نہیں کہ آپ کا قول سنت صحیحہ کے صراحتا خلاف ہے۔
اس لیے اس کی تاویل اور تشریح اور تعلیل بیان کرنے میں علمائے احناف کو بڑی مشکل پیش آئی ہے حتیٰ کہ بعض نے اعتراف کیا ہے کہ نماز استسقاءجماعت کے ساتھ سنت ہے اور حضرت امام ابو حنیفہ ؒ نے صرف سنت مؤکدہ ہونے کا انکار کیا ہے۔
یہ قائل کے قول کی ایسی توجیہ ہے جو خود قائل کو بھی پسند نہیں ہے۔
اگر حقیقت یہی ہوتی تو صاحبین ؒ اپنے امام سے اختلاف نہ کرتے۔
اختلافات ائمہ بیان کرنے والوں نے اپنی کتابوں میں صاف لکھا ہے کہ صلوۃ استسقاءکے بارے میں حضرت امام ابو حنیفہ کا قول جمہور امت کے خلاف ہے۔
ہمارے شیخ حضرت مولانا عبد الرحمن مبارک پوری فرماتے ہیں کہ جمہور کا قول ہی درست ہے اور یہی حق ہے کہ نماز استسقاءکی دو رکعتیں رسول کریم ﷺ کی سنت ہیں، جیسا کہ بہت سی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔
پھر حضرت مولانا مرحوم نے اس سلسلہ کی بیشتر احادیث کو تفصیل سے ذکر فرمایا ہے، شائقین مزید تحفۃ الاحوذی کا مطالعہ فرمائیں۔
حضرت امام شافعی ؒ کے نزدیک استسقاء کی دو رکعتیں عیدین کی نمازوں کی طرح تکبیر زوائد کے ساتھ ادا کی جائیں مگر جمہور کے نزدیک اس نماز میں تکبیرات زوائد نہیں ہیں بلکہ ان کو اسی طرح ادا کیا جا ئے جس طرح دیگر نمازیں ادا کی جاتی ہیں، قول جمہور کو ہی ترجیح حاصل ہے۔
نماز استسقاءکے خطبہ کے لیے منبر کا استعمال بھی مستحب ہے۔
جیسا کہ حدیث عائشہ ؓ میں صراحت کے ساتھ موجود ہے جسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔
اس میں صاف فقعد علی المنبر کے لفظ موجود ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1026
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1027
1027. حضرت عباد بن تمیم ؓ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ دعائے استسقاء کے لیے عیدگاہ تشریف لے گئے اور قبلہ رو ہو کر دو رکعتیں ادا کیں، پھر اپنی چادر کو پلٹا۔ راوی کہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی چادر کے دائیں کنارے کو بائیں جانب کر لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1027]
حدیث حاشیہ:
افضل تو یہ ہے کہ جنگل میدان میں استسقاءکی نماز پڑھے کیونکہ وہاں سب آسکتے ہیں اور عیدگاہ اور مسجد میں بھی درست ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1027
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6343
6343. حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول ﷺ نماز استسقا کے لیے اس عیدگاہ کی طرف تشریف لے گئے۔ آپ نے وہاں بارش کے لیے دعا کی، پھر آپ قبلہ رو ہوگئے اور اپنی چادر کو پلٹا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6343]
حدیث حاشیہ:
نماز استسقاء کتاب الصلوٰۃ سے معلوم کی جا سکتی ہے اس میں آخر میں چادر پلٹنے کا طریقہ دیکھا جا سکتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6343
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1005
1005. حضرت عباد بن تمیم ؓ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ بارش کی دعا کے لیے باہر تشریف لے گئے اور وہاں جا کر اپنی چادر کو پلٹا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1005]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس مقام پر یہ حدیث مختصر بیان فرمائی ہے۔
تفصیلی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ عیدگاہ تشریف لے گئے، دعا کے وقت لوگوں کی طرف پیٹھ کر کے قبلے کی طرف منہ کر لیا، کھڑے ہو کر دعا فرمائی، پھر دو رکعت پڑھائیں، ان میں بآواز بلند قراءت کی، اور اپنی چادر کو پلٹا، گھر واپس آنے سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ نے رحم و کرم کرتے ہوئے بارش کا نزول جاری فرما دیا۔
(2)
امام ابو حنیفہ ؒ کے سوا تمام علمائے امت کا اتفاق ہے کہ استسقاء کے لیے نماز کا اہتمام کیا جا سکتا ہے، اس کے لیے باہر کھلے میدان کا انتخاب کیا جائے۔
(فتح الباري: 634/2)
چادر پلٹنے کی کیفیت و حکمت ہم آئندہ بیان کریں گے۔
إن شاءاللہ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1005
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1023
1023. حضرت عباد بن تمیم ؓ کے چچا۔۔ اور وہ نبی ﷺ کے صحابی تھے۔۔ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ بارش کی دعا کرنے کے لیے لوگوں کے ہمراہ باہر تشریف لے گئے۔ آپ نے کھڑے ہو کر دعا کی، پھر قبلے کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنی چادر کو الٹ پلٹ کیا، چنانچہ لوگوں پر خوب بارش ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1023]
حدیث حاشیہ:
(1)
دعا کرتے وقت عجز و انکسار مقصود ہوتا ہے، اس لیے بارش کے لیے کھڑے ہو کر دعا کرنی چاہیے۔
(2)
حضرت عبداللہ بن یزید ؓ کی موقوف روایت کے بعد مرفوع روایت بیان کی گئی ہے تاکہ موقوف سے اس کی تفسیر ہو جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر بارش کے لیے دعا کی تھی، منبر پر کھڑے نہیں ہوئے تھے۔
(3)
عبداللہ بن یزید سیدنا عبداللہ بن زبیر ؓ کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے، انہوں نے انہیں حکم دیا تھا کہ لوگوں کے لیے نماز استسقاء کا اہتمام کریں، چنانچہ لوگ باہر میدان میں گئے۔
ان کے ہمراہ حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہم تھے۔
سب نے وہاں بارش کی دعا کی تھی۔
یہ واقعہ 64 ہجری کا ہے۔
(4)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خطبے کے بعد نماز استسقاء پڑھی جائے جبکہ جمہور کا موقف ہے کہ نماز کا اہتمام پہلے ہونا چاہیے۔
ہمارے نزدیک دونوں طرح جائز ہے۔
(فتح الباري: 862/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1023
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1024
1024. حضرت عباد بن تمیم ؓ کے چچا سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ لوگوں کے ہمراہ بارش کی دعا کرنے کے لیے باہر تشریف لے گئے۔ آپ نے قبلے کی طرف منہ کر کے دعا مانگی، اپنی چادر کو الٹ پلٹ کیا، پھر دو رکعت نماز ادا کی اور ان میں قراءت بلند آواز سے کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1024]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز استسقاء پڑھاتے وقت پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿١﴾ )
پڑھی اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں اور ﴿هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ ﴿١﴾ )
کی تلاوت کی۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي: 348/3)
لیکن یہ روایت انتہائی کمزور ہے، اس بنا پر قابل حجت نہیں۔
(إرواءالغلیل: 104/3) (2)
صحیح موقف یہ ہے کہ قراءت کا معاملہ امام کی صوابدید پر موقوف ہے۔
کوئی معین سورت پڑھنے کی پابندی نہیں بلکہ جو آسان اور میسر ہو پڑھ لے۔
(تمام المنة، ص: 264)
واللہ أعلم۔
(3)
ابن بطال نے نماز استسقاء میں اونچی قراءت کرنے پر اجماع نقل کیا ہے۔
(فتح الباري: 803/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1024
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1025
1025. حضرت عباد بن تمیم ؓ کے چچا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا؛ جس دن نبی ﷺ بارش کی دعا کے لیے باہر تشریف لے گئے تو میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے لوگوں کی طرف اپنی پیٹھ پھیری اور قبلے کی طرف منہ کر کے دعا کرنے لگے، پھر اپنی چادر کو پلٹا۔ اس کے بعد آپ نے ہمیں دو رکعت پڑھائیں جس میں بآواز بلند قراءت کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1025]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث میں صرف پشت پھیرنے کا بیان ہے جبکہ عنوان کیفیت سے متعلق ہے، اس لیے علامہ زین بن منیرؓ نے لفظ كيف کو استفہام پر محمول کیا ہے۔
حدیث میں تحویل کے متعلق وضاحت نہیں کہ دائیں جانب سے پھر کر قبلہ کی طرف منہ کیا یا بائیں جانب سے مڑ کر، اس لیے استفہام کی ضرورت پڑی۔
اس کی وضاحت نہیں ہے، اس لیے امام کو ہر دو جانب سے پھرنے کا اختیار ہے لیکن خارجی قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے دائیں جانب سے مڑ کر قبلے کی طرف منہ کیا ہو گا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کو اکثر معاملات میں دائیں جانب پسند ہوتی تھی۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب رسول اللہ ﷺ وعظ و نصیحت سے فارغ ہو گئے اور دعا کا ارادہ کیا تو اس وقت اپنی پشت لوگوں کی طرف پھیر کر قبلے کی جانب منہ کیا۔
(فتح الباري: 684/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1025
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1026
1026. حضرت عباد بن تمیم ؓ کے چچا ہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے دعائے استسقاء کے موقع پر دو رکعت نماز پڑھی اور اپنی چادر کو پلٹا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1026]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے اس سلسلے میں کچھ تفصیل مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ بڑی تواضع کے ساتھ، سادہ لباس میں، نہایت عجز و انکسار اور خشوع خضوع کے ساتھ نماز کے لیے باہر تشریف لے گئے۔
عید کی نماز کی طرح دو رکعت پڑھائیں، تمہارے عام خطبے کی طرح خطبہ ارشاد نہیں فرمایا بلکہ آپ نے خطبے کی حالت میں دعا، تضرع اور اللہ کی عظمت و کبریائی بیان کی۔
(جامع الترمذي، الجمعة، حدیث: 558)
دو رکعت سے زیادہ نماز پڑھنا ثابت نہیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1026
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1027
1027. حضرت عباد بن تمیم ؓ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ دعائے استسقاء کے لیے عیدگاہ تشریف لے گئے اور قبلہ رو ہو کر دو رکعتیں ادا کیں، پھر اپنی چادر کو پلٹا۔ راوی کہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی چادر کے دائیں کنارے کو بائیں جانب کر لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1027]
حدیث حاشیہ:
(1)
بارش کی نماز اور دعا میں اکثر لوگوں نے شمولیت کرنی ہوتی ہے، اس لیے کھلے میدان کا انتخاب کیا جائے۔
اگر عیدگاہ یا مسجد میں اس کا اہتمام کر لیا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں۔
(2)
اس حدیث میں چادر کو الٹ پلٹ کرنے کا طریقہ بھی ذکر ہوا ہے کہ اس کے دائیں کنارے کو بائیں کندھے پر اور بائیں کنارے کو دائیں کندھے پر کر لیا جائے، نیز ایک حدیث میں چادر کے اوپر والے حصے کو نیچے اور نیچے والے کو اوپر کرنے کا ذکر بھی ہے۔
واللہ أعلم۔
(3)
اس سے پہلے بھی امام بخاری ؒ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا:
”دعائے استسقاء کے لیے باہر جانا۔
“ اس میں عموم تھا۔
مذکورہ عنوان میں جہت خروج کی تعیین ہے۔
(فتح الباري: 884/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1027
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1028
1028. حضرت عبداللہ بن زید انصاری ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نماز استسقاء کے لیے عیدگاہ تشریف لے گئے اور جب دعا کرنے لگے تو قبلے کی طرف منہ کر لیا اور اپنی چادر کو الٹ پلٹ کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1028]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام جب نماز استسقاء کا اہتمام کرے گا تو دوران خطبہ میں تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو گا لیکن بارش کی دعا کرتے وقت قبلے کی طرف منہ کرنا ہو گا کیونکہ یہ افضل ہے، البتہ خطبۂ جمعہ کے دوران بارش کی دعا کرتے وقت قبلہ رو ہونا ضروری نہیں اور نہ چادر پلٹنے ہی کی ضرورت ہے۔
(2)
یہ حدیث حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے مروی ہے۔
اس سے پہلے پاؤں پر کھڑے ہو کر دعا کرنے کے بیان میں جو حدیث ہے اسے بیان کرنے والے حضرت عبداللہ بن زید ؓ ہیں۔
چونکہ باپ کے نام میں صرف ”یا“ کا فرق ہے بقیہ نام متحد ہے، اس لیے ممکن تھا کہ کوئی وہم کا شکار ہو جائے اور دونوں کو ایک خیال کرے، اس لیے امام بخاری ؒ نے تنبیہ فرما دی کہ مذکورہ حدیث کے راوی عبداللہ بن زید مازنی جبکہ پہلی حدیث کو بیان کرنے والے عبداللہ بن یزید کوفی ہیں۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 665/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1028
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6343
6343. حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول ﷺ نماز استسقا کے لیے اس عیدگاہ کی طرف تشریف لے گئے۔ آپ نے وہاں بارش کے لیے دعا کی، پھر آپ قبلہ رو ہوگئے اور اپنی چادر کو پلٹا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6343]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رو ہونے سے پہلے بارش کے لیے دعا کی، لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان سے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے انہوں نے دوسرے مقام پر بیان کیا ہے، چنانچہ راوئ حدیث کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دعا کا ارادہ کیا تو قبلہ رو ہو گئے اور اپنی چادر کو پلٹا۔
(صحیح البخاري، الاستسقاء، حدیث: 1028)
اس حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے:
(باب استقبال القبلة في الاستسقاء)
”دعائے استسقاء کرتے وقت قبلہ رو ہونا۔
“ (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حدیث انس رضی اللہ عنہ اور اس حدیث میں تطبیق کی یہ صورت ہے کہ دوران خطبۂ جمعہ میں اگر بارش کی دعا کی جائے تو قبلہ رو ہونے کی ضرورت نہیں لیکن جب اس کے علاوہ بارش کی دعا کی جائے تو قبلہ رو ہونا چاہیے کیونکہ یہ دعا کے آداب میں سے ہے۔
(فتح الباري: 173/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6343