صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ
حج کے احکام و مسائل
32. باب تَقْلِيدِ الْهَدْيِ وَإِشْعَارِهِ عِنْدَ الإِحْرَامِ:
باب: احرام کے وقت قربانی کے اونٹ میں اشعار کرنے اور اسے قلاوہ ڈالنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3018
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَسَّانَ الْأَعْرَجَ ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي الْهُجَيْمِ لِابْنِ عَبَّاسٍ : مَا هَذَا الْفُتْيَا الَّتِي قَدْ تَشَغَّفَتْ أَوْ تَشَغَّبَتْ بِالنَّاسِ، أَنَّ مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ فَقَدْ حَلَّ؟، فَقَالَ: " سُنَّةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنْ رَغِمْتُمْ ".
شعبہ نے قتادہ سے حدیث بیان کی، کہا: میں نے ابو حسان اعرج سے سنا، انھوں نے کہا بنو حجیم کے ایک شخص نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پو چھا یہ کیا فتوی ہے۔جس نے لوگوں کو الجھا رکھا ہے یا پریشان کر رکھا ہے؟ کہ جو شخص بیت اللہ کا طواف کرے (عمرہ کر لے) وہ احرا م سے باہر آجا تا ہے۔ انھوں نے فرمایا: یہی تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے چا ہے تمھا ری مرضی نہ ہو۔
بنو ہُجیم کے ایک آدمی نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا، یہ فتویٰ جو لوگوں کے دلوں میں جم گیا ہے، یا جس نے لوگوں کو پریشان کر دیا ہے، کیا ہے، کہ جس نے بیت اللہ کا طواف کر لیا، وہ حلال ہو جائے، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یہ تمہاری ناگواری کے باوجود، تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت (طریقہ) ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 3018 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3018
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
تَشَغَّفَتْ:
دلوں میں جاگزیں ہو گیا ہے۔
(2)
تَشَغَّبَتْ:
پریشان کر دیا ہے۔
(3)
تَشَعَّبَتْ:
انتشاروافتراق پیدا کردیا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3018
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3019
ابو حسان کہتے ہیں، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا، اس مسئلہ کا لوگوں میں چرچا ہو گیا ہے، جس نے بیت اللہ کا طواف کر لیا، وہ حلال ہو جائے، طواف عمرہ ٹھہرتا ہے، انہوں نے جواب دیا، تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، خواہ تمہیں ناگوار گزرے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3019]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
تَفَشَّعَ:
پھیل گیا،
عام ہو گیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3019
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4396
4396. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ جب انسان بیت اللہ کا طواف کرے تو احرام کھول دے۔ ابن جریج نے کہا: میں نے (حضرت عطاء سے) پوچھا: ابن عباس ؓ نے یہ موقف کہاں سے اخذ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ تعالٰی کے اس قول سے: ”پھر ان کا حلال ہونا بیت عتیق کے پاس ہے۔“ انہوں نے نبی ﷺ کے اس ارشاد سے بھی اخذ کیا ہے جو آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر صحابہ کرام سے فرمایا: وہ اب حلال ہو جائیں۔ میں نے کہا: آپ ﷺ کا یہ فرمان تو وقوف عرفات کے بعد تھا۔ حضرت عطاء نے کہا: حضرت ابن عباس ؓ کا موقف ہے کہ وقوف عرفات سے پہلے اور اس کے بعد احرام کھول سکتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4396]
حدیث حاشیہ:
آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ پھر ان کا حلال ہونا پرانے گھر یعنی خانہ کعبہ کے پاس ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4396
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4396
4396. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ جب انسان بیت اللہ کا طواف کرے تو احرام کھول دے۔ ابن جریج نے کہا: میں نے (حضرت عطاء سے) پوچھا: ابن عباس ؓ نے یہ موقف کہاں سے اخذ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ تعالٰی کے اس قول سے: ”پھر ان کا حلال ہونا بیت عتیق کے پاس ہے۔“ انہوں نے نبی ﷺ کے اس ارشاد سے بھی اخذ کیا ہے جو آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر صحابہ کرام سے فرمایا: وہ اب حلال ہو جائیں۔ میں نے کہا: آپ ﷺ کا یہ فرمان تو وقوف عرفات کے بعد تھا۔ حضرت عطاء نے کہا: حضرت ابن عباس ؓ کا موقف ہے کہ وقوف عرفات سے پہلے اور اس کے بعد احرام کھول سکتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4396]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں بھی حجۃ الوداع کا ذکر ہے۔
اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو یہاں پیش فرمایا۔
2۔
حضرت ابن عباس ؓ کاموقف ہے کہ صرف بیت اللہ کاطواف کرلینے سے انسان حلال ہوجاتاہے، اس کے لیے صفاومروہ کی سعی اور حلق یا تقصیر ضروری نہیں جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا:
محض طواف کرنے سے انسان حلال ہوجاتاہے، خواہ حج کاارادہ ہو یا عمرے کا۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3020(1245)
بلکہ ایک آدمی نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہا:
یہ کیا فتویٰ ہے جو آپ نے لوگوں میں جاری کررکھا ہے کہ جو آدمی طواف کرے اس پر احرام کی پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ ایسا کرنا تمہارے نبی کریم ﷺ کی سنت ہے، خواہ تمھیں بُرا محسوس ہو۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3018۔
(1244)
بہرحال ابن عباس ؓ کایہ موقف جمہور اہل علم کے خلاف ہے۔
چند لوگوں نے اس کا اتباع کیا ہے، مثلاً امام اسحاق بن راہویہ اس کے قائل ہیں۔
اس کی مکمل تفصیل کتاب الحج میں گزر چکی ہے۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4396