وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمَخْزُومِيُّ ، وَعَبْدُ الْمَجِيدِ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي حَفْصَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ أَزْوَاجَهُ أَنْ يَحْلِلْنَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ، قَالَتْ حَفْصَةُ: فَقُلْتُ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَحِلَّ؟، قَالَ: " إِنِّي لَبَّدْتُ رَأْسِي، وَقَلَّدْتُ هَدْيِي، فَلَا أَحِلُّ حَتَّى أَنْحَرَ هَدْيِي ".
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 296
´حج کی اقسام کا بیان`
«. . . 222- وبه: عن حفصة زوج النبى صلى الله عليه وسلم أنها قالت لرسول الله صلى الله عليه وسلم: ما شأن الناس حلوا بعمرة ولم تحلل أنت من عمرتك؟ قال: ”إني لبدت رأسي وقلدت هديي، فلا أحل حتى أنحر.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی (سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا وجہ ہے کہ لوگوں نے تو عمرہ کر کے احرام کھول دئیے ہیں اور آپ نے اپنے عمرے سے (ابھی تک) احرام نہیں کھولا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میں نے اپنے بال چپکا لئے تھے اور قربانی کے جانورروں کو مقرر کر لیا تھا، لہٰذا میں قربانی کرنے تک احرام نہیں کھولوں گا . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 296]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1566، ومسلم 1229، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ سے حج افراد کی لبیک کہتے ہوئے روانہ ہوئے تھے۔ بعد میں آپ نے اللہ کے حکم سے عمرہ کرکے اسے حجِ قِران بنا لیا۔ آپ حجِ تمتع کرنا چاہتے تھے مگر اس وجہ سے نہ کرسکے کہ آپ اپنے ساتھ مدینہ سے قربانی کے جانور لائے تھے۔
➋ حج کی تینوں قسمیں (قِران، افراد اور تمتع) قیامت تک جائز ہیں مگر بہتر یہی ہے کہ حج تمتع کیا جائے۔
➌ حجِ افراد میں احرام باندھنے والا حج سے فارغ ہونے تک احرام میں ہی رہتا ہے چاہے وہ ایک مہینہ پہلے مکہ پہنچ جائے۔
حج قران میں قربانی کے جانور کی وجہ سے عمرہ کرنے کے بعد بھی حاجی حج سے فارغ ہونے تک احرام میں رہتا ہے۔
حج تمتع میں عمرہ کرنے کے بعد احرام کھل جاتا ہے اور پھر 8 ذوالحجہ کو حاجی احرام باندھ کر منیٰ جاتا ہے اور حج سے فارغ ہونے تک حالت احرام میں رہتا ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 222
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1806
´حج قران کا بیان۔`
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا وجہ ہے کہ لوگوں نے احرام کھول دیا لیکن آپ نے اپنے عمرے کا احرام نہیں کھولا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اپنے سر میں تلبید کی تھی اور ہدی کو قلادہ پہنایا تھا تو میں اس وقت تک حلال نہیں ہو سکتا جب تک کہ ہدی نحر نہ کر لوں۔“ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1806]
1806. اردو حاشیہ: چونکہ ازواج محترمات کی قربانیاں ان کے ساتھ نہیں تھی اس لیے وہ حلال ہو گئیں۔ اور رسول اللہ ﷺ محرم ہی رہے۔ (صحیح بخاری الحج حدیث:1561]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1806
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2683
´احرام کے وقت بالوں کو گوند وغیرہ سے جما لینے کا بیان۔`
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا بات ہے لوگوں نے احرام کھول دیا ہے اور آپ نے اپنے عمرہ کا احرام نہیں کھولا؟ آپ نے فرمایا: ”میں نے اپنے سر کی تلبید ۱؎، اور اپنے ہدی کی تقلید ۲؎ کر رکھی ہے، تو میں احرام نہیں کھولوں گا جب تک کہ حج سے فارغ نہ ہو جاؤں۔“ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2683]
اردو حاشہ:
(1) بال بڑے ہوں اور احرام لمبے عرصے کے لیے ہو تو بالوں کو مٹی اور جوؤں سے، نیز زیادہ پراگندگی سے بچانے کے لیے کچھ گوند وغیرہ لگا لینا جس سے بالوں کو تہہ جم جائے تلبید کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ عمرے اور حج کا اکٹھا احرام باندھا تھا جو دو ہفتے تک جاری رہنا تھا، اس لیے آپ نے تلبید فرمائی۔ اکثر صحابہ کا احرام صرف عمرے کا تھا، لہٰذا انھیں تلبید کی ضرورت نہ تھی۔
(2) تلبید، واجب ہے نہ منع، محرم کی مرضی پر موقوف ہے۔
(3) سوال کے جواب میں آپ نے تلبید اور قربانی کا ذکر فرمایا۔ تلبید تو نشانی تھی احرام کے طویل ہونے کی اور قربانی کا جانور اگر ساتھ ہو تو محرم حلال نہیں ہو سکتا، خواہ عمرے کا احرام ہی ہو جب تک وہ جانور ذبح نہیں ہو جاتا۔ قلادہ انھی جانوروں کو ڈالا جاتا تھا جو ساتھ لے جائے جاتے تھے۔ موقع پر خریدے گئے جانوروں کو قلادے کی ضرورت نہیں تھی۔
(4) حج سے حلال ہونے سے مراد قربانی کا ذبح کرنا ہے۔ اس سے احرام ختم ہو جاتا ہے، اگرچہ حج کے بعض افعال بعد میں بھی ہوتے رہتے ہیں۔
(5) یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج قران کیا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2683
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2783
´ہدی کو قلادۃ پہنانے کا بیان۔`
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا: بات ہے لوگ عمرہ کر کے حلال ہو گئے اور آپ اپنے عمرہ سے حلال نہیں ہوئے، آپ نے فرمایا: ”میں نے اپنے سر کی تلبید، اور اپنی ہدی کو قلادۃ پہنا دیا ہے، تو جب تک میں قربانی نہ کر لوں حلال نہیں ہوں گا۔“ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2783]
اردو حاشہ:
تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 2683۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2783
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3046
´جس نے اپنے بالوں کو گوند وغیرہ سے جما لیا اس کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا بات ہے لوگوں نے اپنے عمرے سے احرام کھول دیا، اور آپ نے نہیں کھولا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اپنے سر کی تلبید ۱؎ کی تھی، اور ہدی (کے جانور) کو قلادہ پہنایا تھا ۲؎ اس لیے جب تک میں قربانی نہ کر لوں حلال نہیں ہو سکتا ۳؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3046]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
تلبيد کا مطلب ہے کہ احرام باندھتے وقت گوند وغیرہ کے ذریعے سے بالوں کو جمالیا جائے تاکہ تیل نہ لگانے کی وجہ سے منتشر نہ ہوں اور طویل عرصے تک احرام میں رہنے کی وجہ سے جوئیں نہ پڑجائیں نیز بالوں میں گردوغبار داخل نہ ہو۔
(2)
رسول اللہ ﷺ قربانی کے جانور ساتھ لے کر آئے تھے۔
اس لیے عمرہ کے لیے احرام نہیں کھولا۔
(3)
جس کے ساتھ قربانی کے جانور نہ ہوں اسے عمرہ کرکے احرام کھول دینا چاہیے اور حج تمتع کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3046
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4398
4398. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ حفصہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کو حجۃ الوداع کے سال حکم دیا کہ وہ احرام کھول دیں، حضرت حفصہ ؓ نے پوچھا: آپ کو احرام کھولنے سے کس چیز نے روکا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”میں نے اپنے سر کو گوند لگا رکھی ہے اور قربانی کے جانوروں کو ہار پہنائے ہیں، لہذا میں تو احرام کی پابندیوں سے اس وقت تک آزاد نہیں ہوں گا جب تک اپنی قربانی ذبح نہ کر لوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4398]
حدیث حاشیہ:
گوند لگا کر آپ ا نے سرمبارک کے بکھرے ہوئے بالوں کو جمالیا تھا، اس کو لفظ تلبید سے تعبیر کیا گیا ہے۔
آپ ﷺ کا احرام حج قران کا تھا۔
اسی لیے آپ نے احرام نہیں کھولا مگر صحابہ ؓ کو آپ نے حج تمتع ہی کے احرام کی تاکید فرمائی تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4398
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5916
5916. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ حفصہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا بات ہے کہ لوگوں نے عمرہ کر کے احرام کھول دیا لیکن آپ نے نہیں کھولا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے اپنے بالوں کو جمایا ہے اور اپنی قربانی کے گلے میں قلا دہ ڈالا ہے، اس لیے جب تک میں قربانی ذبح نہ کرلوں میں احرام نہیں کھولوں گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5916]
حدیث حاشیہ:
روایت میں بال جمانے کا ذکر ہے یہی باب سے مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5916
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1566
1566. حضرت حفصہ ؓ جو نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ ہیں، ان سے روایت ہے، انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!کیا وجہ کے لوگوں نے تو عمرہ کرکے احرام کھول دیا ہے لیکن آپ نے عمرہ مکمل کرنے کے باوجود احرام نہیں کھولا ہے؟آپ نے فرمایا: ”میں نے اپنے بال جمالیے تھے اور قربانی کے گلے میں قلادہ پہنا دیا تھا، اس لیے میں جب تک قربانی نہ کروں احرام نہیں کھول سکتا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1566]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ حج قران کی نیت سے احرام باندھے ہوئے تھے لیکن مکہ مکرمہ پہنچ کر آپ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر میں قربانی ساتھ نہ لایا ہوتا تو اس احرام کو عمرے سے بدل لیتا اور حج تمتع کرتا۔
امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے مطابق حج قران اور حج تمتع کا ثبوت واضح ہے۔
(2)
تلبید کے معنی یہ ہیں کہ محرم آدمی اپنے سر پر لوشن وغیرہ لگا لے تاکہ بال بکھرنے نہ پائیں اور ان میں جوئیں نہ پڑیں۔
اور اس کا ضرورت مند وہ شخص ہوتا ہے جس کی احرام کی مدت لمبی ہو اور وہ اعمال مناسک ادا کرنے کے لیے زیادہ عرصہ ٹھہرنا چاہتا ہو۔
(3)
تقلید کے معنی یہ ہیں کہ قربانی کے جانور کے گلے میں کوئی جوتا وغیرہ لٹکا دیا جاتا ہے تاکہ معلوم ہو کہ یہ قربانی کا جانور ہے۔
تقلید سے یہ باور کرانا مقصود ہوتا ہے کہ احرام اس وقت تک رہے گا جب قربانی کا جانور اپنے مقام پر پہنچ جائے۔
بہرحال جو شخص حج قران کرنا چاہتا ہے اس کے ساتھ قربانی کا جانور ہونا ضروری ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1566
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1725
1725. حضرت حفصہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے عرض کیا: اللہ رسول اللہ ﷺ!لوگوں کو کیا ہوا، انھوں نے عمرے کا احرام کھول دیا لیکن آپ نے ابھی تک احرام نہیں کھولاہے؟ آپ نے فرمایا: ”میں نے اپنے سر کے بال جمائے ہیں اور قربانی کے گلے میں قلادہ ڈالا ہے۔ میں احرام نہیں کھولوں گا یہاں تک کہ قربانی کرلوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1725]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کے عنوان میں بال جمانے اور حلق کرنے، دونوں کا ذکر ہے جبکہ حدیث میں صرف بال جمانے کا ذکر ہے۔
دراصل حدیث کا عنوان کے تمام اجزاء کے مطابق ہونا ضروری نہیں۔
چونکہ سر منڈوانا ایک واضح امر تھا، اس لیے مذکورہ حدیث میں اس کا ذکر نہیں ہوا، البتہ آئندہ حدیث ابن عمر میں حلق کا صراحت کے ساتھ ذکر ہے۔
دیکھیے:
(حدیث: 1726) (2)
دراصل امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ایک اختلافی مسئلے کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جس نے احرام باندھتے وقت اپنے بالوں کو جما لیا ہو اس کے لیے حلق ضروری ہے یا اس کے لیے قصر بھی جائز ہے؟ ابن بطال نے جمہور کا موقف یہ بیان کیا ہے کہ ایسے شخص پر حلق ضروری ہے لیکن اہل رائے کا کہنا ہے کہ ایسے شخص پر حلق ضروری نہیں بلکہ حلق یا قصر اس کی صوابدید پر موقوف ہے۔
جمہور کے موقف کے لیے کوئی واضح دلیل نہیں ہے، البتہ حضرت عمر ؓ سے مروی ہے کہ جس نے اپنے سر کی مینڈھیاں بنائی ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ احرام کھولتے وقت قربانی کر دے اور اپنے بالوں کو منڈوا دے۔
بہرحال رسول اللہ ﷺ نے بالوں کو جمانے کے بعد انہیں منڈوایا ہے، اس لیے سنت یہی ہے کہ بالوں کو منڈوا دیا جائے، البتہ قصر کی گنجائش ہے۔
(فتح الباري: 708/3)
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1725
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4398
4398. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ حفصہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کو حجۃ الوداع کے سال حکم دیا کہ وہ احرام کھول دیں، حضرت حفصہ ؓ نے پوچھا: آپ کو احرام کھولنے سے کس چیز نے روکا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”میں نے اپنے سر کو گوند لگا رکھی ہے اور قربانی کے جانوروں کو ہار پہنائے ہیں، لہذا میں تو احرام کی پابندیوں سے اس وقت تک آزاد نہیں ہوں گا جب تک اپنی قربانی ذبح نہ کر لوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4398]
حدیث حاشیہ:
1۔
تلبید کے معنی گوند کے ساتھ بالوں کو جمانا ہیں تاکہ گردوغبار داخل نہ ہو اور سواری کی حرکت کی وجہ سے بال نہ بکھریں۔
2۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تادیرمحرم رہنے کا ارادہ کرچکے تھے، اگر عمرہ کرکے حلال ہوجاتے تو اس قدر اہتمام کرنے کی کیا ضرورت نہ تھی، نیز آپ اپنے ساتھ قربانی کےجانور لائے تھے، اس لیے آپ احرام نہیں کھول سکتے تھے، جب تک انھیں دس تاریخ کو ذبح نہ کرلیتے۔
بہرھال اس حدیث میں حجۃ الوداع کا ذکر ہے اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو یہاں بیان کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4398
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5916
5916. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ حفصہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا بات ہے کہ لوگوں نے عمرہ کر کے احرام کھول دیا لیکن آپ نے نہیں کھولا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے اپنے بالوں کو جمایا ہے اور اپنی قربانی کے گلے میں قلا دہ ڈالا ہے، اس لیے جب تک میں قربانی ذبح نہ کرلوں میں احرام نہیں کھولوں گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5916]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان دو حدیثوں سے معلوم ہوا کہ محرم آدمی کو گوند وغیرہ سے اپنے بالوں کو جمانا جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے بال گوند وغیرہ سے جما لیے تھے تاکہ گردوغبار سے پراگندہ نہ ہوں اور ان میں جوئیں وغیرہ نہ پڑیں۔
(2)
بہرحال بالوں کو جمانا مشروع ہے اور جو لوگ اس عمل کو جائز یا بہتر خیال نہیں کرتے ان کا موقف محل نظر ہے۔
اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے عمل میں نہ لاتے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5916